حکومت ہوشیار باش
وزیر اعظم اور ان کی ٹیم نے اب تک مہنگائی کو عالمی مہنگائی سے جوڑا اورخود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کی۔
لاہور:
سانپ تو نکل گیا مگر شام گئے تک لکیر پیٹنے کا شغل جاری رہا۔ ایک ہی دن میں اسٹاک ایکسچینج میں اس قدر مندی کہ 300 ارب روپے کا جھٹکا۔ ایک جھٹکا کیا کم تھا کہ اسی روز انٹر بینک میں ڈالر روپے کی شرح مبادلہ ریکارڈ کمی کے بعد176.42 پر جا کر اٹکی۔
میڈیا اور مالیاتی اداروں میں ہاہا کار مچ گئی۔ لے دے کر وہی جانے پہچانے مسائل اوررخنے؛ ماہ نومبر میں تجارتی خسارہ اس قدر زیادہ کہ سال بھر کا ٹارگٹ کرنٹ خسارہ پہلے پانچ ماہ ہی میں پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اگر یہی رفتار رہی تو معیشتِ خستہ کو سال بھر میں دو گنا کرنٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر واقعی یہ صورت حال بنی تو پھر شاید ایک نئے قرض پروگرام کے لیے کشکول کشادگی کا اہتمام کرنا پڑے۔
جمعرات کو اسٹاک ایکسچینج میں بقول شخصے Blood bath سے دو تین روز قبل اسٹیٹ بینک کو سیکڑوں ارب روپے جس شرح سود پر لینے پڑے اس سے مارکیٹ کے خونخوار تیور نے سب کو ڈرا دیا۔ دو ہفتے قبل اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ڈیڑھ فیصد اضافہ کیا۔
روپے کی گرتی ویلیو اور ماہانہ مہنگائی کے اعدادوشمار نے بینکوں کو صاف صاف سجھا دیا کہ اب ایک بار پھر شرح سود بڑھے کہ بڑھے۔ شرح سود میں اضافے سے لامحالہ حکومتی خزانہ مزید زیرِبار آئے گا۔ سود کی ادائیگی پہلے ہی سب سے بڑا بجٹ آئٹم ہے اب اس کا حجم مزید پھول جائے گا۔ محاصل کی وصولی میں خاطر خواہ اضافے کا بیشتر حصہ اسی کی نذر ہو جائے گا۔ کولہو کے بیل کی طرح سفر تو زیادہ طے ہوگا مگر رہے وہیں کہ وہیں۔
وزیر اعظم اور ان کی ٹیم نے اب تک مہنگائی کو عالمی مہنگائی سے جوڑا اورخود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مگر ہائے ری مجبوری، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوئیں تو حکومت نے قیمتیں کم نہیں کیں بلکہ خاموشی سے سیلز ٹیکس بڑھا کر فائدہ اپنے خسارے کی جھولی میں ڈال دیا۔ البتہ گزشتہ ہفتے پٹرول پمپ مالکان کی طرف سے ہڑتال کی دھمکی کے نتیجے میں آئل کمپنیوں اور پٹرول پمپ مالکان کے کمیشن میں اضافہ کر دیا گیا۔ وہ وزراء جو بھارت میں پاکستان سے پٹرول مہنگا ہونے کی دلیل بڑے طمطراق سے دیا کرتے تھے، انھیں اس بار اطلاع نہ مل سکی کہ بھارت میں پٹرول آٹھ روپے فی لیٹر سستا کردیا گیا ہے۔
ایسا نہیں کہ حکومت کو مہنگائی کا علم نہیں، ضرور ہے مگر یا تواسے وجوہات کا علم نہیں یا وجوہات کے انکار پر اصرار ہے۔ کل تک وزیر اعظم عوام کو سمجھاتے نہ تھکتے کہ مہنگائی اس لیے بڑھتی ہے کہ روپے کی ویلیو ڈالر کے مقابلے میں گر رہی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اور ان کے وزراء گندم چینی اور اشیاء خورونوش میں مہنگائی کو مافیا کے کھاتے میں ڈال کر اپنا دامن جھاڑ لیتے۔البتہ مہنگائی بڑھنے کی وجوہات میں تازہ ترین اضافہ اسمگلنگ کا سامنے آیا ہے۔ وزیر اعظم نے ''ہدایت'' کی ہے کہ گندم، یوریا، چینی، آٹا اور پٹرول کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔
سوا تین سال گزارنے کے بعد اب حکومت الیکشن گئیر میں ہے۔ جلد بازی اور پورا زور لگا کر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے تھوک کے حساب سے جو بلز پاس کرائے گئے ان میں الیکشن کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا بل بھی شامل ہے۔ اپوزیشن اور الیکشن کمیشن کے تحفظات کے باوجود حکومت مصر ہے کہ الیکشن تو ای وی ایم پر ہی ہوں گے۔بلکہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تو الیکشن کمیشن کی فنڈنگ تک روکنے کا عندیہ بھی دیا ہے اگر الیکشن کمیشن بقول شخصے لائن پر نہ آیا۔
اس دوران عدالتی مجبوری کی وجہ سے بلدیاتی الیکشن کا ڈول بھی ڈالنا پڑ رہا ہے۔ اپنی اپنی بساط، ظرف اور چالاکی کے مطابق بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور ان کے الیکشن کے لیے قوانین ہی اس انداز میں ترتیب پا رہے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن کا سانپ بھی مر جائے اور وسائل اور اختیارات کی گرفت کی لاٹھی بھی صوبائی حکومتوں کے پاس رہے۔ پی پی پی کی سندھ حکومت نے اپنے انداز میں بلدیاتی اداروں کی اختیارات کا ڈنک نکالا ہے، پنجاب نے اپنے انداز میں۔ پنجاب حکومت نے بلدیاتی الیکشن میں ای وی ایم مشین استعمال کا قانونی راستہ بھی ہموار کر لیا ہے۔
بلدیاتی الیکشن میں مہنگائی اور مایوس کن گورننس پر انتخابی ردِ عمل سے بچنے کے لیے جزوی طور پر میئر اور چیئرمین کے انتخاب کے لیے غیر جماعتی نسخہ آزمانے کا تردد بھی طے ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے کرپشن کے بیانئے کوسیاسی ترپ کا پتہ سمجھ کر کھیلا، اب تک کا انجام سب کے سامنے ہے۔ دوسری جانب معاشی اور انتظامی گورننس کے محاذ ہیں جن کی خبریں اور پرفارمنس حکومت کے لیے پیغام ہے کہ حکومت ہوشیار باش۔
پچھلی حکومتوں اور مافیاز پر تنقید بجا مگر تین سال کی پرفارمنس کا بوجھ تو حکومت کو خود اٹھانا ہے۔ آئی ایم ایف اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے لیے مصر ہے مگر اسٹیٹ بینک کی اپنی گورننس مارکیٹ کے سامنے ڈھیر ہے، چار ماہ میں روپے کی ویلیو میں 15% کا فرق اس کے نزدیک اگر مارکیٹ کا حسن ہے تو ایسی حسینوں سے اللہ بچائے۔ امپورٹ کے فلڈ گیٹ کھولنے کے بعد اب ممیانے سے کیا حاصل کہ تجارتی خسارہ بے قابو ہوگیا ہے۔ بیس سال کا معاشی ڈیٹا گواہ ہے کہ جب بھی معیشت کی شرح پانچ فی صد ہوتی ہے امپورٹ میں اضافہ کرنٹ اکاؤنٹ کوچَٹ کر جاتا ہے جس کے بعد ادائیگیوں کا توازن درہم برہم ہو جاتا ہے، یوں ہر بار Boom and bust cycle کا سامنا رہا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے بروقت امپورٹ کی باگیں کیوں نہ سنبھالیں؟ اس وقت مرکزی بینک اور حکومت کی معاشی ٹیم کی گورننس حکومت کا سب سے بڑا سر درد بن رہی ہے۔ الیکشن کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے، ہو سکتا ہے یہ جادو ای وی ایم کے بھی قابو نہ آئے، اس لیے بہتر ہوگا کہ حکومت اِدھر اُدھر ملبہ گرانے کے بجائے مہنگائی اور گورننس کو کسی بھی طرح کنٹرول کرے ۔ ورنہ حالات چیخ چیخ کر دُہائی دے رہے ہیں کہ حکومت ہوشیار باش!