بھارت میں دلتوں کی حالت زار

جو لوگ یونیورسٹیوں اور اچھی ملازمتوں میں جگہ بناتے ہیں انھیں بھی امتیازی سلوک کے خلاف لڑنا پڑتا ہے۔

لاہور:
چوں کہ دلت ہندومت کے چار ورنوں پر مشتمل نظام سے خارج ہیں اور انھیں ''اوارن'' کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اس لیے ان کا یہاں الگ سے جائزہ لیا گیا ہے۔ دلت (جس کا مطلب ہے ٹوٹا ہوا، سنسکرت میں بکھرا ہوا) ان لوگوں کا نام ہے جو انڈیا میں سب سے نچلی جاتی (پیشہ ورانہ ذات) سے تعلق رکھتے تھے۔

انھیں ''اچھوت'' کہا جاتا ہے کیوں کہ انھیں مذہبی طور پر ناپاک سمجھا جاتا ہے، اور دلتوں کے ساتھ جسمانی لمس یا سماجی میل جول ایک ہندو شخص کی ذات کی پاکیزگی کو آلودہ کرتا ہے۔ دلتوں کے لیے ایک اور اصطلاح، جسے مہاتما گاندھی نے وضع کیا اور اسے فروغ دیا، ہریجن ہے۔ ہری ہندو دیوتا کرشن کا دوسرا نام ہے اور اس طرح گاندھی دلتوں کو کرشنا کے عقیدت مندوں میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ماہر اقتصادیات، سیاست دان اور سماجی مصلح بی آر امبیدکر (1891-1956)، جو خود ایک دلت پس منظر رکھتے تھے، اور عام طور پر بابا صاحب کے نام سے جانے جاتے ہیں، نے کہا تھا کہ اچھوت ہونے کا تصور ہندوستانی سماج میں 400 عیسوی کے آس پاس آیا، اور اس کی وجہ بدھ مت اور برہمنوں کی زبردست طاقت (جسے برہمنیت کہتے ہیں) کے درمیان بالا دستی کی جدوجہد تھی۔ امبیدکر، جنھوں نے ہندوستان کے پہلے وزیر قانون و انصاف کے طور پر خدمات انجام دیں اور ہندوستان کے آئین کے معمارِ اعلیٰ مانے جاتے ہیں، نے اپنی موت سے عین قبل دلتوں کے بڑے پیمانے پر بدھ مت میں منتقلی کی قیادت کی۔

بھارت 20 کروڑ سے زیادہ دلتوں کا گھر ہے، دلت برادری نہ صرف کسی بھی ہندو ورن سے بلکہ بھارت میں مسلم کمیونٹی سے بھی بڑی ہے۔ وہ پورے بھارت میں رہتے ہیں، عام طور پر دیہات اور قصبات کے مضافات میں الگ الگ محلوں کی صورت میں۔ بھارت کی 2011 کی مردم شماری کے مطابق دلت برادریاں ملک کی آبادی کا 16.6 فی صد پر مشتمل ہیں۔

اتر پردیش (21 فی صد)، مغربی بنگال (11 فی صد)، بہار (8 فی صد) اور تامل ناڈو (7 فی صد) ملک کی کُل دلت آبادی کا تقریباً نصف ہیں۔ ان کی شرح شمال مشرقی بھارت میں سب سے کم ہے کیوں کہ وہاں کی مقامی آبادی ہندو نہیں ہے، اور وہ ذات پات کے نظام کی پیروی نہیں کرتے۔ بنگالی تارکین وطن نے دلتوں کی قلیل تعداد کو اپنی سوسائٹی میں متعارف کرایا ہے۔ اسی طرح کے گروہ بقیہ برصغیر پاک و ہند میں بھی پائے جاتے ہیں؛ پاکستان کی 2 فی صد سے بھی کم آبادی ہندو ہے، جن میں 70-75 فی صد دلت ہیں۔ بنگلا دیش میں 2010 میں 50 لاکھ دلت تھے، جن میں اکثریت بے زمین اور دائمی غربت میں تھی۔

دلت اپنے پیشے کے لحاظ سے اپنے اندر بھی مختلف جاتیوں میں بہت زیادہ تقسیم ہیں۔ دلتوں کے مختلف گروہوں کے درمیان سماجی تفریق بھی بہت ہے، کچھ اپنے آپ کو سماجی طور پر دوسروں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ بھارت میں دلت صفائی ستھرائی کے کارکنوں کے طور پر کام کرتے رہتے ہیں: خاک روب (بھنگی)، نالیوں کی صفائی کرنے والے، کوڑا اٹھانے والے، اور سڑکوں کی صفائی کرنے والے۔ دیگر پیشوں میں لیدر ورکر، ٹینرز (چمڑا رنگنے والے)، چمڑا اتارنے والے، موچی، زرعی مزدور اور ڈھول پیٹنے والے شامل ہیں۔


برہمنوں نے اپنی حکمرانی کو سہارا دینے اور اسے دوام بخشنے کے لیے پاکیزگی اور نجاست کے تصور کا استعمال کیا۔ اس عمل میں، مقامی غیر آریائی آبادی (اکثر سیاہ جلد والے قبائلی لوگ) کو ورن نظام میں شامل نہیں کیا گیا اور صدیوں کے دوران وہ اچھوت بن گئے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ورن ہندوؤں کو ان سے جسمانی طور پر رابطہ کرنے، ان کا تیار کردہ کھانا لینے، اور ان سے پانی لینے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ خیال کہ چمڑے کے جوتے نجس ہوتے ہیں (خواہ ان پر کیچڑ نہ بھی ہو) اس تصور سے آیا کہ چمڑا، یعنی گائے کی کھال اور جس نے جوتے بنائے ہیں وہ بھی نجس ہیں۔ چناں چہ بے عزتی یا نفرت کے اظہار کے لیے ایک دوسرے پر جوتے پھینکنے کا تعلق ہندو مت کے اسی باب سے ہے۔

انسانوں میں عدم مساوات کی طرح چھوت چھات کی سماجی حقیقت اور اس کے تصور پر سب سے پہلے بدھ مت اور جین مت دونوں نے تنقید کی۔ اسلام اور عیسائیت جیسے ابراہیمی مذاہب بھی اصولی طور پر انسانوں کی عدم مساوات کو مسترد کرتے ہیں لیکن برصغیر میں یہ تصور ہندوؤں کے اثر سے بگڑ چکا ہے۔ جب انگریز ہندوستان آئے تو انھوں نے اچھوت پرستی، ستی (بیوہ کو جلانے)، بچوں کی شادی اور دیگر سماجی رسومات پر تنقید شروع کر دی۔

اس سے ہندوؤں میں 'خود تنقیدی' نگاہ پیدا ہوئی، اور ہندو اصلاحی تحریکوں نے جنم لیا، جیسا کہ برہمو سماج اور انیسویں صدی میں بنگالی نشاۃ ثانیہ کے بانئین، جنھوں نے ذات پات کے نظام کو مسترد کر دیا، لیکن جب بات ان کی اپنی بیٹیوں کی شادی کی آتی تو انھیں اسے قبول کرنا پڑتا۔ اس لیے سماجی اصلاح کی تحریکیں کامیاب نہ ہو سکیں۔آزاد بھارت میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز ممنوع ہے اور چھوت چھات کو بھارتی آئین نے ختم کر دیا ہے۔ اس کے فوراً بعد بھارت نے دلتوں کی صلاحیت بڑھانے کے لیے بھی ریزرویشن سسٹم متعارف کرایا، تاکہ وہ سیاسی نمایندگی، سرکاری ملازمتیں اور تعلیم حاصل کر سکیں۔

''شیڈولڈ کاسٹ'' میں نام کی تبدیلی کے بعد دلتوں کے لیے تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں نشستیں محفوظ ہیں۔ اصولی طور پر اس سے دلتوں کے لیے تعلیم اور نوکری حاصل کرنا ممکن ہو گیا ہے لیکن اس سے امتیازی سلوک برائے نام ہی کم ہوا ہے۔

اپنے پیدائشی حالات اور غربت کی وجہ سے مجبور، دلت بھارت میں صفائی ستھرائی کے کارکنوں اور دیگر ''نجس'' ملازمتوں میں کام کرتے رہتے ہیں۔ 2019 تک، ایک اندازے کے مطابق 60 لاکھ دلت گھرانوں میں سے 40 سے 60 فی صد لوگ صفائی ستھرائی اور اسی طرح کی دیگر ملازمتوں میں مصروف تھے۔ حتیٰ کہ جو لوگ یونیورسٹیوں اور اچھی ملازمتوں میں جگہ بناتے ہیں انھیں بھی امتیازی سلوک کے خلاف لڑنا پڑتا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے اپنے چیمبرز کو گنگا کے مقدس پانی سے ''پاک'' کیا تھا، کیوں کہ ان میں پہلے ایک دلت جج رہا تھا۔

(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔)
Load Next Story