سندھ کا بلدیاتی نظام تنزلی کی علامت
سندھ حکومت کے اس بلدیاتی نظام سے سندھ میں کوئی ترقی نہیں ہوگی بلکہ ابتری بڑھے گی۔
لاہور:
الیکشن کمیشن کے مسلسل دباؤ پر سندھ کی حکومت بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں بظاہر سنجیدہ ہوگئی۔ ایک کمزور اور اختیارات سے محروم بلدیاتی نظام کے قیام کے لیے سندھ اسمبلی سے بلدیاتی اداروں کا ترمیمی بل اسی طرح منظور کرایا جیسے وفاقی حکومت نے 33 قوانین پارلیمنٹ سے منظور کروائے تھے۔
پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری اور ان کے ہم نوا تحریک انصاف کی حکومت کی غیر جمہوری حرکت کی مذمت میں مصروف ہیں مگر چیئرمین صاحب سندھ حکومت کی غیر جمہوری حرکتوں پر توجہ نہیں دے رہے۔
اس قانون کے تحت کراچی میں ٹاؤن کی بحالی کا فیصلہ ہوا اور اس فیصلے کے تحت بلدیہ کراچی سے صحت، تعلیم کے فرائض واپس لے لیے گئے حتیٰ کہ پیدائش، شادی اور اموات کی رجسٹریشن کرنے کا بلدیاتی فریضہ اب سندھ حکومت نے خود انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ماضی کی طرح میئر کا انتخاب خفیہ رائے دہی سے ہوگا۔
میئر کو براہ راست منتخب کرنے کا نظریہ سندھ حکومت کو پسند نہیں آیا مگر صوبائی وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ نو منتخب میئر کا کردار صفائی، سالڈ مینجمنٹ، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ وغیرہ میں رہ جائے گا۔
اس قانون میں دفعہ 16میں ایک شق 140-A شامل کی گئی ہے اس نئی ترمیم کے تحت حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ مجاز اتھارٹی اس قانون کی کسی دفعہ کو حذف کرنے، ترمیم کرنے اور نئی اسکیم کو شامل کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے اسے صرف ایک نوٹیفیکیشن کے اجراء کی ضرورت ہوگی۔
بلدیاتی امور کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی نے لکھا ہے کہ 7 صفحات پر مشتمل اس قانون کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ٹاؤن کی بحالی پر تیار ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں مسلسل سوچ بچار کے بعد جو قانون نافذ کیا گیا تھا اس کے تحت 7میونسپل کارپوریشن کی تقسیم ہے۔ جنوبی مشرقی، مغربی، ملیر، کورنگی اور کیماڑی سینٹرل میونسپل کارپوریشن کے نام سے جانی جاتی ہے۔2017 میں ہونے والی متنازعہ مردم شماری کے مطابق کراچی کے حصے میں 20 سے 25 ٹاؤن آتے ہیں جن کی آبادی 5 لاکھ سے ساڑھے سات لاکھ نفوس پر مشتمل ہو سکتی ہے۔
اس وقت ہر میونسپل کارپوریشن میں 3 لاکھ سے 7 لاکھ 50 ہزار افراد پر بن سکتی ہے جب کہ دیہی علاقوں میں قائم ہونے والی یونین کونسل کی آبادی 10ہزار سے لے کر 25 ہزار افراد پر مشتمل ہونے کے امکانات ہیں۔ 2013 میں نافذ ہونے والے قانون کے تحت ایک طرف یونین کمیٹی کا چیئر مین میئر کا انتخاب لڑنے کا اہل قرار دیا گیا تھا اور ایوان میں منتخب اراکین ہاتھ اٹھا کر انھیں اپنے پسندیدہ امیدوار کی حمایت کرتے تھے مگر نئے قانون کے تحت کوئی بھی فرد جس کا نام ووٹر لسٹ میں موجود ہوگا میئر کے انتخاب میں حصہ لینے کا اہل ہوگا۔
اندازہ ہے کہ اس طرح کراچی میں اس قانون کے تحت تمام بڑے اسپتالوں کو حکومت سندھ کی تحویل میں دیا جائے گا جن میں کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، عباسی شہید اسپتال، سوبھراج میٹرنٹی اسپتال 20 سے 25 ٹاؤن قائم ہو جائیں گے۔ جب صنعتی انقلاب کے نتیجے پر برطانیہ میں نئے شہر آباد ہوئے اور شہروں کی آبادی بڑھنے لگی تو لارڈ کرام ویل نے برطانیہ میں بلدیاتی نظام کے قیام کے لیے راہیں ہموار کیں اور برطانیہ میں نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم ہوا۔
اس طرح جمہوری نظام کے ارتقاء کے ساتھ کاؤنٹی کا ادارہ قائم ہوا اور کاؤنٹی کو تمام بلدیاتی امور بشمول صحت اور اعلیٰ تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی کے اختیارات حاصل ہوئے اور اس نظام کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا۔ برطانیہ سمیت یورپی ممالک کے شہر ترقی کرنے لگے اور جدید طرز زندگی کے تصور نے عملی شکل اختیار کرلی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں بلدیاتی نظام نافذ کیا۔ کراچی میونسپل کارپوریشن میں قائم ہوئی۔ انگریز ہندوستانی باشندوں کو اپنے حکمران منتخب کرنے کا حق دینا نہیں چاہتے تھے مگر عوام کو بلدیاتی اداروں کی قیادت کو منتخب کرنے کا اختیار دیا۔
نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کی بنا پر کراچی جیسے چھوٹے شہر کا شمار ہندوستان کے صاف ستھرے شہروں میں ہونے لگا۔ پیپلز پارٹی کے 20 دسمبر 1971 میں پہلی مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی مسلسل کوششوں سے 1973 کا آئین منظور ہوا۔ اس آئین کے تحت بلدیاتی اداروں کے قیام کا فیصلہ ہوا مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلدیاتی نظام کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔
یہ ہی وجہ تھی کہ جنرل ضیا الحق نے بلدیاتی انتخابات کرائے اور ان کے منتخب نمایندوں کو اپنے تحفظ کے لیے استعمال کیا۔ 1988 میں جب پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بے نظیر بھٹو نے انتخابی منشور تیار کرایا تو اس میں برطانیہ کی طرز پر کاؤنٹی نظام قائم کرنے کا عندیہ دیا گیا جسے نئے سوشل کانٹریکٹ کا نام بھی دیا گیا۔ مگر منشور کے اس حصے پر کبھی بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ برطانیہ کی طرز پر کاؤنٹی کا نظام نافذ کرنا تھا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے نچلی سطح کا بلدیاتی نظام قائم کیا جس کے نتیجے میں کراچی اور لاہور میں خاصی ترقی ہوئی۔ جنرل تنویر کے تیار کردہ بلدیاتی نظام کی ایک ہی خامی تھی کہ وہ وفاق سے منسلک تھا اور اس میں صوبوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یہ صورتحال صوبائی خود مختاری کے اصول کو پامال کر رہی تھی۔
2008 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو ایم کیو ایم اس کی اتحادی تھی۔ دونوں جماعتوں نے مہینوں نئے بلدیاتی نظام پر مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں ایک دفعہ ایسا قانون نافذ ہوا جس میں نچلی سطح کے اختیارات کا تصور موجود تھا۔ مگر پیپلز پارٹی نے بڑی مہارت سے سندھی قوم پرستوں کو میدان میں ڈالا، ساری زندگی جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والے سندھی دانشور نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کی مخالفت کرنے لگے پھر جب ایم کیو ایم سندھ کی حکومت سے علیحدہ ہوئی تو پیپلز پارٹی کے اکابرین کو اپنی امتیازی سوچ پر عملدرآمد کا موقع ملا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی سمیت سندھ کے تمام شہر موئنجو ڈارو کے دور میں پہنچ گئے۔
حکومت نے کونسلروں کو بے اختیار کیا اور صفائی کے لیے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ قائم کیا جس میں لاکھوں روپے تنخواہوں پر افسروں کو ملازم رکھا گیا مگر صفائی کا ٹھیکہ چین کی ایک فرم کو دیا گیا۔ کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ میں کوڑے کے پہاڑ بن گئے ہر گلی ہر شہر اور مرکزی شاہراہوں پر سیوریج کے پانی کا بہنا عام سی بات بن گیا۔ پھر میونسپل کمیٹیوں کا کنٹرول کمشنر نے چلایا۔ نامعلوم افراد کو دور دراز علاقوں سے بلا کر میونسپل کمیٹی نے چیئرمین مقرر کیا گیا۔
اس دوران نظام کو نادرہ کے مرکزی ڈیٹا بیس سے منسلک کیا جس کے بعد تمام سرٹیفکیٹ مخصوص میونسپل کمیٹیوں سے جاری ہونے لگے۔ ایک سرٹیفکیٹ کی کم از کم قیمت 5ہزار مقرر ہوئی۔ یورپ، امریکا جانے والے شہریوں سے سرٹیفکیٹ کے حصول کے عوض لاکھوں روپے بٹورنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
مگر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے لائنوں کی مرمت اور نئی پائپ لائنوں کی تنصیب کا کام چھوڑ دیا۔جب شہری ان لائنوں کی تبدیلی کے لیے شکایت کرتے ہیں تو اگست، ستمبر میں بجٹ کے خاتمے کی خبر دی جاتی ہے اور شہریوں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ یہ کام خود اپنے پیسوں سے کروا سکتے ہیں۔
عباسی شہید اسپتال اور کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج وغیرہ اپنے قیام کے بعد سے بلدیہ کراچی کے زیر نگرانی کرتے تھے۔ مگر اب صوبائی حکومت کی تحویل میں جانے کے بعد منفی اثرات برآمد ہوں گے۔ سندھ کی حکومت کوٹہ سسٹم کو پامال کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔
قانون کے تحت ہر ڈسٹرکٹ میں گریڈ 1 سے 15 اسامیوں پر اسی ڈسٹرکٹ کے شہریوں کو ملازمتیں مل سکتی ہیں مگر اب یہ قانون صرف فائلوں میں چھپا ہوا نظر آئے گا۔ سندھ حکومت کے اس بلدیاتی نظام سے سندھ میں کوئی ترقی نہیں ہوگی بلکہ ابتری بڑھے گی اور کوئی معمولی سی چنگاری بھی 80کے دور کی یاد تازہ کر دے گی۔