عالمی افراط زر اور پاکستان کی زرعی پیداوار
اگر معاشی حکام تھوڑی سی محنت کرکے یہ تبدیلی لے آئیں کہ اب خوراک کا ذخیرہ نہیں ہوگا۔
HYDERABAD:
اکیسویں صدی کا اکیسواں سال کورونا کا طوق اپنے گلے میں لٹکائے ہوئے اختتامی ایام طے کر رہا ہے۔ اس کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ اس لیے نہیں کہ دنیا بھر میں آئے ہوئے سخت ترین جاڑے میں اس کے پیر ٹھٹھر رہے ہوں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ عالمی پیمانے پر افراط زر کے بڑھتے ہوئے عفریت کے باعث لرزہ براندام ہے۔
جسے دیکھتے ہوئے ہر ملک کے معاشی حکام سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ آخر ایسا کیوں؟ اس کی تفصیل بعد میں لیکن آئیے پہلے نصف صدی کے معاشی حالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ جب دنیا کے بیشتر ملکوں کو آزادی میسر آچکی تھی اور ایک معاشی اکائی کی مانند جڑتے چلے جا رہے تھے۔
1960 کی دہائی کی بات ہے برطانیہ نے اپنی کرنسی کی قیمت میں کمی کردی۔ امریکی خلائی تسخیر کے پروگرام میں تیزی آئی اس کے بعد ویتنام میں امریکا کے ساتھ گھمسان کی جنگ میں ویتنامی امریکا کو ناکوں چنے چبوا رہے تھے پھر معلوم ہوا کہ سونے کی قیمت میں زبردست اضافہ ہو گیا ہے۔
اگلا عشرہ شروع ہوا تھا کہ 1973 میں عربوں نے تیل کا ہتھیار ایسا استعمال کیا کہ تیل کی قیمت دو ڈالر سے بڑھ کر دس ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی۔ ادھر یورپ امریکا جاپان وغیرہ نے اپنی صنعتی اشیا کی قیمت میں زبردست اضافہ کردیا۔ یعنی بارہ تیرہ سال میں ہی دنیا بھر میں افراط زر پھیل گیا۔
پاکستان میں بھی مہنگائی کا طوفان برپا ہوچکا تھا اور اب 2021 میں پھر افراط زر نے دنیا بھر میں شدت اختیار کرلی ہے جسے کم کرنے یا حل کرنے کے لیے دنیا کے ہر ملک کے معاشی حکام سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔ ان میں ایک اہم مسئلہ خوراک کی پیداوار میں اضافے کا ہے تاکہ افراط زر میں کمی لائی جاسکے۔ پاکستان کے تعلق سے آج اسی حوالے سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔
عالمی منڈی میں خوراک کی طلب میں زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کے باعث عالمی منڈی میں چاول، گندم، دالوں، چینی اور دیگر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث کئی ملکوں کی زرعی پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔ لیکن پاکستان میں بعض زرعی پیداواری میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق یہ بتایا جا رہا ہے کہ زرعی شعبہ میں اصلاحات اور سہولتوں کی فراہمی کے باعث رواں سیزن کے دوران چاول کی 9 بلین ٹن کی بھرپور اور ریکارڈ پیداوار حاصل ہوئی ہے۔ چاول ہر شخص کی خوراک کا اہم جز ہے۔چاول کی اہم ترین قسم باسمتی چاول جس کے پیداواری اضلاع لاہور، گوجرانوالہ، حافظ آباد، شیخوپورہ اور دیگر علاقے دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اور دنیا بھر میں اسے بڑی رغبت سے پکایا اور کھایا جاتا ہے اور پاکستان کے لیے زرمبادلہ کا انتہائی اہم ترین ذریعہ بھی ہے۔
حکومتی ذرایع کے مطابق چاول کی برآمدات سے پونے پانچ ارب حاصل ہونے کی توقع ہے۔ کیونکہ اس مرتبہ 11.5 ملین ٹن چاول کا ذخیرہ موجود ہوگا یعنی ایک کروڑ 15 لاکھ ٹن چاول کی موجودگی میں ملک میں چاول کا ذخیرہ کرکے مارکیٹ میں اس کی قلت پیدا کرنے والے عناصر کی کڑی نگرانی کرنا یہ حکومت وقت کا کام ہے۔
اس بات کے بھی مطالبات کیے جا رہے ہیں اور یہ تجاویز سامنے آ رہی ہیں کہ وزیر اعظم کی سربراہی میں قومی سطح پر نگرانی کے لیے ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے تاکہ چاول کی برآمدات یقینی بنائی جاسکے۔ بیرون ملک چاول بھجوانے کی صورت میں ایکسپورٹرز کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ملکی سطح پر بھی چاول کو جب کاشتکار مارکیٹ یا غلہ منڈی وغیرہ میں برائے فروخت لاتا ہے تو اسے بھی کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے دوران گنے کی 87 ملین ٹن ریکارڈ پیداوار حاصل ہوگی جس سے چینی کی بھرپور پیداوار حاصل ہونے کی توقع ہے۔
یہاں پھر وہی مسئلہ آڑے آ جاتا ہے کہ ذخیرہ اندوز اور اسمگلرز فعال ہوجاتے ہیں اور چینی کی قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ اسی طرح کپاس کی بھی اس سال بھرپور پیداوار حاصل ہونے کی توقع ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نومبر2021 کے دوران کپاس کی 6.8 ملین یعنی 68 لاکھ گانٹھیں پیداوار آچکی ہیں اور امید ہے کہ اس سال 85 لاکھ گانٹھوں کا ہدف حاصل ہو جائے گا۔
ان باتوں کو مدنظر رکھیں کہ پونے نو کروڑ ٹن کے قریب گنے کی پیداوار ایک کروڑ ٹن سے زائد چاول کا ذخیرہ اور اس طرح گندم کی بھی اچھی فصل کا ہونا اور اگلے برس کے لیے بھی اس بات کے امکانات نومبر کی بوائی سے واضح ہو چکے ہیں لہٰذا زرعی پیداوار بہتر اور اسے اب مزید بڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی، کاشتکاروں کو مراعات اور دیگر بہت سے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے بہرحال مسئلہ یہ ہے کہ عالمی منڈی میں خوراک کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ پاکستان گزشتہ مالی سال کے دوران 36 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرکے 98 کروڑ ڈالر خرچ کرچکا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ بڑی مقدار میں گندم ادھر اُدھر چھپالی گئی تھی۔ کچھ ایسا ہی چینی کے ساتھ ہوا کہ قیمت 150 روپے فی کلو تک پہنچنے کے بعد حکومت جب دل کی گہرائیوں سے حرکت میں آئی تو بہت سی ذخیرہ گاہوں کا پتا معلوم ہوگیا۔ بہت سے ملکوں میں افراط زر کی شرح تین یا چار فی صد تک رہی۔ پاکستان میں آٹھ، نو، دس، گیارہ، بارہ، تیرہ فی صد یہ حال ہے افراط زر کا۔ اب افراط زر خوراک کے معاملے میں کنٹرول کرنے کے لیے زرعی پیداوار بڑھانے کی خاطر متاثرہ ملکوں کے معاشی حکام سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور حل نکال رہے ہیں۔
پاکستان میں قدرتی طور پر زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر معاشی حکام تھوڑی سی محنت کرکے یہ تبدیلی لے آئیں کہ اب خوراک کا ذخیرہ نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہو جائے تو یقینا تبدیلی کے نام پر آنے والی حکومت جب خوراک کی مارکیٹ میں فراہمی کو یقینی بنا لے گی ایسی صورت میں فوڈ انفلیشن کو بڑھنے سے روکنے میں کامیابی کے باعث معیشت میں یہ بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔ اب یہ حکام پر منحصر ہے کہ بڑھتے ہوئے زرعی پیداوار کے بل بوتے پر فوڈ انفلیشن کو کس طرح کم کرتے ہیں۔
اکیسویں صدی کا اکیسواں سال کورونا کا طوق اپنے گلے میں لٹکائے ہوئے اختتامی ایام طے کر رہا ہے۔ اس کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ اس لیے نہیں کہ دنیا بھر میں آئے ہوئے سخت ترین جاڑے میں اس کے پیر ٹھٹھر رہے ہوں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ عالمی پیمانے پر افراط زر کے بڑھتے ہوئے عفریت کے باعث لرزہ براندام ہے۔
جسے دیکھتے ہوئے ہر ملک کے معاشی حکام سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ آخر ایسا کیوں؟ اس کی تفصیل بعد میں لیکن آئیے پہلے نصف صدی کے معاشی حالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ جب دنیا کے بیشتر ملکوں کو آزادی میسر آچکی تھی اور ایک معاشی اکائی کی مانند جڑتے چلے جا رہے تھے۔
1960 کی دہائی کی بات ہے برطانیہ نے اپنی کرنسی کی قیمت میں کمی کردی۔ امریکی خلائی تسخیر کے پروگرام میں تیزی آئی اس کے بعد ویتنام میں امریکا کے ساتھ گھمسان کی جنگ میں ویتنامی امریکا کو ناکوں چنے چبوا رہے تھے پھر معلوم ہوا کہ سونے کی قیمت میں زبردست اضافہ ہو گیا ہے۔
اگلا عشرہ شروع ہوا تھا کہ 1973 میں عربوں نے تیل کا ہتھیار ایسا استعمال کیا کہ تیل کی قیمت دو ڈالر سے بڑھ کر دس ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی۔ ادھر یورپ امریکا جاپان وغیرہ نے اپنی صنعتی اشیا کی قیمت میں زبردست اضافہ کردیا۔ یعنی بارہ تیرہ سال میں ہی دنیا بھر میں افراط زر پھیل گیا۔
پاکستان میں بھی مہنگائی کا طوفان برپا ہوچکا تھا اور اب 2021 میں پھر افراط زر نے دنیا بھر میں شدت اختیار کرلی ہے جسے کم کرنے یا حل کرنے کے لیے دنیا کے ہر ملک کے معاشی حکام سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔ ان میں ایک اہم مسئلہ خوراک کی پیداوار میں اضافے کا ہے تاکہ افراط زر میں کمی لائی جاسکے۔ پاکستان کے تعلق سے آج اسی حوالے سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔
عالمی منڈی میں خوراک کی طلب میں زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کے باعث عالمی منڈی میں چاول، گندم، دالوں، چینی اور دیگر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث کئی ملکوں کی زرعی پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔ لیکن پاکستان میں بعض زرعی پیداواری میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق یہ بتایا جا رہا ہے کہ زرعی شعبہ میں اصلاحات اور سہولتوں کی فراہمی کے باعث رواں سیزن کے دوران چاول کی 9 بلین ٹن کی بھرپور اور ریکارڈ پیداوار حاصل ہوئی ہے۔ چاول ہر شخص کی خوراک کا اہم جز ہے۔چاول کی اہم ترین قسم باسمتی چاول جس کے پیداواری اضلاع لاہور، گوجرانوالہ، حافظ آباد، شیخوپورہ اور دیگر علاقے دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اور دنیا بھر میں اسے بڑی رغبت سے پکایا اور کھایا جاتا ہے اور پاکستان کے لیے زرمبادلہ کا انتہائی اہم ترین ذریعہ بھی ہے۔
حکومتی ذرایع کے مطابق چاول کی برآمدات سے پونے پانچ ارب حاصل ہونے کی توقع ہے۔ کیونکہ اس مرتبہ 11.5 ملین ٹن چاول کا ذخیرہ موجود ہوگا یعنی ایک کروڑ 15 لاکھ ٹن چاول کی موجودگی میں ملک میں چاول کا ذخیرہ کرکے مارکیٹ میں اس کی قلت پیدا کرنے والے عناصر کی کڑی نگرانی کرنا یہ حکومت وقت کا کام ہے۔
اس بات کے بھی مطالبات کیے جا رہے ہیں اور یہ تجاویز سامنے آ رہی ہیں کہ وزیر اعظم کی سربراہی میں قومی سطح پر نگرانی کے لیے ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے تاکہ چاول کی برآمدات یقینی بنائی جاسکے۔ بیرون ملک چاول بھجوانے کی صورت میں ایکسپورٹرز کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ملکی سطح پر بھی چاول کو جب کاشتکار مارکیٹ یا غلہ منڈی وغیرہ میں برائے فروخت لاتا ہے تو اسے بھی کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے دوران گنے کی 87 ملین ٹن ریکارڈ پیداوار حاصل ہوگی جس سے چینی کی بھرپور پیداوار حاصل ہونے کی توقع ہے۔
یہاں پھر وہی مسئلہ آڑے آ جاتا ہے کہ ذخیرہ اندوز اور اسمگلرز فعال ہوجاتے ہیں اور چینی کی قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ اسی طرح کپاس کی بھی اس سال بھرپور پیداوار حاصل ہونے کی توقع ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نومبر2021 کے دوران کپاس کی 6.8 ملین یعنی 68 لاکھ گانٹھیں پیداوار آچکی ہیں اور امید ہے کہ اس سال 85 لاکھ گانٹھوں کا ہدف حاصل ہو جائے گا۔
ان باتوں کو مدنظر رکھیں کہ پونے نو کروڑ ٹن کے قریب گنے کی پیداوار ایک کروڑ ٹن سے زائد چاول کا ذخیرہ اور اس طرح گندم کی بھی اچھی فصل کا ہونا اور اگلے برس کے لیے بھی اس بات کے امکانات نومبر کی بوائی سے واضح ہو چکے ہیں لہٰذا زرعی پیداوار بہتر اور اسے اب مزید بڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی، کاشتکاروں کو مراعات اور دیگر بہت سے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے بہرحال مسئلہ یہ ہے کہ عالمی منڈی میں خوراک کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ پاکستان گزشتہ مالی سال کے دوران 36 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرکے 98 کروڑ ڈالر خرچ کرچکا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ بڑی مقدار میں گندم ادھر اُدھر چھپالی گئی تھی۔ کچھ ایسا ہی چینی کے ساتھ ہوا کہ قیمت 150 روپے فی کلو تک پہنچنے کے بعد حکومت جب دل کی گہرائیوں سے حرکت میں آئی تو بہت سی ذخیرہ گاہوں کا پتا معلوم ہوگیا۔ بہت سے ملکوں میں افراط زر کی شرح تین یا چار فی صد تک رہی۔ پاکستان میں آٹھ، نو، دس، گیارہ، بارہ، تیرہ فی صد یہ حال ہے افراط زر کا۔ اب افراط زر خوراک کے معاملے میں کنٹرول کرنے کے لیے زرعی پیداوار بڑھانے کی خاطر متاثرہ ملکوں کے معاشی حکام سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور حل نکال رہے ہیں۔
پاکستان میں قدرتی طور پر زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر معاشی حکام تھوڑی سی محنت کرکے یہ تبدیلی لے آئیں کہ اب خوراک کا ذخیرہ نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہو جائے تو یقینا تبدیلی کے نام پر آنے والی حکومت جب خوراک کی مارکیٹ میں فراہمی کو یقینی بنا لے گی ایسی صورت میں فوڈ انفلیشن کو بڑھنے سے روکنے میں کامیابی کے باعث معیشت میں یہ بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔ اب یہ حکام پر منحصر ہے کہ بڑھتے ہوئے زرعی پیداوار کے بل بوتے پر فوڈ انفلیشن کو کس طرح کم کرتے ہیں۔