نتیجہ خیز مذاکرات حکومت کا افغان طالبان سے تعاون حاصل کرنے پر غور
حکومتی نکات پرمثبت ردعمل آیا توحقانی نیٹ ورک سے بھی اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کے لیے رابطہ کیا جاسکتا ہے.
حکومت پاکستان اس بات پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کیساتھ مذاکرات نتیجہ خیز اور کامیاب بنانے کے لیے افغان طالبان کا تعاون حاصل کیا جائے، اس کے ساتھ ہی مذاکراتی عمل کے سلسلے میں حقانی نیٹ ورک سے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان اس وقت منتظر ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے ابتدائی ردعمل کیا سامنے آتا ہے، طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تشکیل کردہ حکومتی کمیٹی کے ذریعے چند اہم نکات تحریک طالبان کی قیادت کے سامنے رکھے جا رہے ہیں جیسا کہ ان مذاکرات کاآئین پاکستان کے دائرے میں ہونا اوربات چیت اور مذاکراتی عمل کا اطلاق شورش زدہ علاقوں پرہونا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے حکومت دیکھے گی کہ طالبان کی قیادت ان اہم نکات پرکس طرح کا ردعمل ظاہر کرتی ہے، اگر یہ ردعمل مثبت ہوتا ہے تو اس بات کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ ملا عمر کی قیادت میں افغان طالبان سے رجوع کیا جائے تاکہ وہ پاکستانی طالبان پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کر سکیں اور ان کو اپنے موقف میں نرمی اور امن کے قیام کے حوالے سے سنجیدہ طرز عمل اختیار کرنے کے لیے کہا جائے۔
طالبان کے حلقوں میں حقانی نیٹ ورک جس کی قیادت اس وقت سراج حقانی کے ہاتھ میں ہے،کو بھی خاصا اثرو رسوخ حاصل ہے اور افغان طالبان کیساتھ ساتھ اس نیٹ ورک کو بھی تحریک طالبان پاکستان کیساتھ کامیاب مذاکرات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حقانی نیٹ ورک امریکا کے نزدیک افغانستان کی سب سے خطرناک عسکری تنظیم ہے جبکہ حقانی نیٹ ورک کی قیادت خود کو افغان طالبان کا حصہ سمجھتی ہے تاہم اس کی اپنی ایک جداگانہ حیثیت بھی ہے۔ ذرائع کے مطابق ماضی میں بھی پاکستانی قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کیساتھ ہونیوالے کچھ امن معاہدوں میں افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک اپنا کردار ادا کرچکے ہیں، ایک ایسا ہی معاہدہ شمالی وزیرستان کے اہم طالبان رہنما حافظ گل بہادر اورشمالی وزیرستان کی انتظامیہ کے درمیان ہوا۔
باخبر ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان اس وقت منتظر ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے ابتدائی ردعمل کیا سامنے آتا ہے، طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تشکیل کردہ حکومتی کمیٹی کے ذریعے چند اہم نکات تحریک طالبان کی قیادت کے سامنے رکھے جا رہے ہیں جیسا کہ ان مذاکرات کاآئین پاکستان کے دائرے میں ہونا اوربات چیت اور مذاکراتی عمل کا اطلاق شورش زدہ علاقوں پرہونا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے حکومت دیکھے گی کہ طالبان کی قیادت ان اہم نکات پرکس طرح کا ردعمل ظاہر کرتی ہے، اگر یہ ردعمل مثبت ہوتا ہے تو اس بات کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ ملا عمر کی قیادت میں افغان طالبان سے رجوع کیا جائے تاکہ وہ پاکستانی طالبان پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کر سکیں اور ان کو اپنے موقف میں نرمی اور امن کے قیام کے حوالے سے سنجیدہ طرز عمل اختیار کرنے کے لیے کہا جائے۔
طالبان کے حلقوں میں حقانی نیٹ ورک جس کی قیادت اس وقت سراج حقانی کے ہاتھ میں ہے،کو بھی خاصا اثرو رسوخ حاصل ہے اور افغان طالبان کیساتھ ساتھ اس نیٹ ورک کو بھی تحریک طالبان پاکستان کیساتھ کامیاب مذاکرات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حقانی نیٹ ورک امریکا کے نزدیک افغانستان کی سب سے خطرناک عسکری تنظیم ہے جبکہ حقانی نیٹ ورک کی قیادت خود کو افغان طالبان کا حصہ سمجھتی ہے تاہم اس کی اپنی ایک جداگانہ حیثیت بھی ہے۔ ذرائع کے مطابق ماضی میں بھی پاکستانی قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کیساتھ ہونیوالے کچھ امن معاہدوں میں افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک اپنا کردار ادا کرچکے ہیں، ایک ایسا ہی معاہدہ شمالی وزیرستان کے اہم طالبان رہنما حافظ گل بہادر اورشمالی وزیرستان کی انتظامیہ کے درمیان ہوا۔