بلدیاتی ترمیمی ایکٹ بلدیہ عظمیٰ کراچی سے اسپتالوں کا اختیار بھی چھن گیا
کراچی میڈیکل اینڈڈینٹل کالج،عباسی شہید اسپتال سمیت دیگر ہیلتھ انسٹی ٹیوٹس کا انتظام صوبائی حکومت کے سپردکردیا جائے گا۔
ISLAMABAD:
سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیم ایکٹ 2021ء میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے175سال پرانے اختیارات بھی چھین لیے گئے ہیں جب کہ اس قانون کے تحت کراچی کے بلدیاتی ادارے سے طبی خدمات کے وہ اختیارات سلب کر لیے گئے ہیں جو انگریزوں نے 1846ء میں تفویض کیے تھے۔
سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی نے اپنی عددی اکثریت کی بدولت کراچی سمیت سندھ کے تمام شہروں کے لیے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں نئی ترامیم منظور کرلی ہیں اور سندھ لوکل گورنمنٹ(ترامیم) ایکٹ 2021 متعارف کرادیا ہے جس سے ایک نیا سیاسی بحران پیدا کردیا ہے۔ تحریک انصاف، ایم کیوایم، جماعت اسلامی، پی ایس پی، مہاجر قومی موومنٹ سمیت دیگر جماعتوں نے اس بل کو مسترد کردیا ہے۔
واضح رہے کہ 2013ء میں سندھ حکومت نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ منظور کرکے سندھ کے بلدیاتی اداروں سے بیشتر اختیارات چھین لیے تھے، سابق صدرجنرل مشرف کے متعارف کردہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2001ء کے تحت شہری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا جو بڑی حد تک آئین کے آرٹیکل 140-Aسے مطابقت رکھتا تھا، آئین کی اس شق میں بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کی ہدایت کی گئی ہے اور صوبوں کو پابند کیا گیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندوں کو سیاسی و مالی اختیارات منتقل کیے جائیں لیکن اس کے برعکس گذشہ 50سال میں آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں سے وہ اختیارات بھی چھینے جارہے ہیں جو آزادی سے قبل ان کے پاس انگریزوں کی جانب سے تفویض کردہ تھے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے نافذ کردہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2001ء کے تحت کراچی سمیت ملک بھر میں منتخب بلدیاتی نمائندوں نے گراس روٹ لیول پر مثالی خدمات انجام دیں۔ اس ایکٹ کے تحت ملک کے سب سے بڑے اور دنیا کے ساتویں بڑے شہرکے بلدیاتی ادارے شہری حکومت کراچی کے پاس لوکل ٹیکس، ماس ٹرانزٹ، ماسٹر پلان، تعلیم وصحت، واٹر بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، ادارہ ترقیات کراچی اور دیگر اہم ترین محکمے تھے۔
سندھ حکومت نے 2010ء میں شہری حکومت کراچی کے منتخب نمائندوں کو تحلیل کردیا اور2013ء میں سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ سندھ اسمبلی سے منظور کراکے نیا بلدیاتی نظام نافذ کیا جس کے تحت ماس ٹرانزٹ، ماسٹر پلان، تعلیم وصحت، واٹر بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، ادارہ ترقیات کراچی اور دیگر اہم ترین ادارے سندھ حکومت کے کنٹرول میں دیدیے گئے۔
صفائی ستھرائی کا نظام بھی بلدیہ عظمیٰ کراچی اور دیگر بلدیاتی اداروں سے چھین کر سندھ حکومت کے ادارے سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو دیدیا گیا۔ 2013ء میں بلدیہ عظمی کراچی کے پاس محکمہ انجیئنر نگ، کچی آبادی، محکمہ تعلیم اوراسپتال کا انتظام چلانے کا اختیار رہ گیا۔
سندھ حکومت نے گزشتہ ہفتے بلدیاتی ترمیمی ایکٹ 2021 منظور کرکے بلدیہ عظمیٰ کراچی سے اسپتالوں کا اختیار بھی چھین لیا ہے، اس ایکٹ کے تحت بلدیہ عظمیٰ کراچی سے طبی خدمات چھین کر سندھ حکومت کے حوالے کردی گئی ہیں، اس ترمیم کے تحت بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر کنٹرول میڈیکل کالج اینڈ ٹیچنگ اسپشلائزڈ اسپتال، کراچی میڈیکل اینڈڈینٹل کالج(کے ایم ڈی سی)، عباسی شہید اسپتال، سرفراز شہید اسپتال، سوبھراج اسپتال، اسپنسر آئی اسپتال سمیت دیگر ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کا انتظام سندھ حکومت کے سپرد کردیا جائے گا۔
بلدیاتی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے قوانین کو منظور کرکے سندھ حکومت نے ایک بار پھر گراس روٹ لیول کی سطح پر اختیارات کی منتقلی اور آئین پاکستان کی شق 140-Aکو مجروح کیا ہے جس میں بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ طبی امور کی خدمات بلدیاتی اداروں سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا بہ شرط یہ کہ انھیں فنڈز، وسائل اور اختیارات دیے جائیں۔
سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیم ایکٹ 2021ء میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے175سال پرانے اختیارات بھی چھین لیے گئے ہیں جب کہ اس قانون کے تحت کراچی کے بلدیاتی ادارے سے طبی خدمات کے وہ اختیارات سلب کر لیے گئے ہیں جو انگریزوں نے 1846ء میں تفویض کیے تھے۔
سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی نے اپنی عددی اکثریت کی بدولت کراچی سمیت سندھ کے تمام شہروں کے لیے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں نئی ترامیم منظور کرلی ہیں اور سندھ لوکل گورنمنٹ(ترامیم) ایکٹ 2021 متعارف کرادیا ہے جس سے ایک نیا سیاسی بحران پیدا کردیا ہے۔ تحریک انصاف، ایم کیوایم، جماعت اسلامی، پی ایس پی، مہاجر قومی موومنٹ سمیت دیگر جماعتوں نے اس بل کو مسترد کردیا ہے۔
واضح رہے کہ 2013ء میں سندھ حکومت نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ منظور کرکے سندھ کے بلدیاتی اداروں سے بیشتر اختیارات چھین لیے تھے، سابق صدرجنرل مشرف کے متعارف کردہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2001ء کے تحت شہری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا جو بڑی حد تک آئین کے آرٹیکل 140-Aسے مطابقت رکھتا تھا، آئین کی اس شق میں بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کی ہدایت کی گئی ہے اور صوبوں کو پابند کیا گیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندوں کو سیاسی و مالی اختیارات منتقل کیے جائیں لیکن اس کے برعکس گذشہ 50سال میں آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں سے وہ اختیارات بھی چھینے جارہے ہیں جو آزادی سے قبل ان کے پاس انگریزوں کی جانب سے تفویض کردہ تھے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے نافذ کردہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2001ء کے تحت کراچی سمیت ملک بھر میں منتخب بلدیاتی نمائندوں نے گراس روٹ لیول پر مثالی خدمات انجام دیں۔ اس ایکٹ کے تحت ملک کے سب سے بڑے اور دنیا کے ساتویں بڑے شہرکے بلدیاتی ادارے شہری حکومت کراچی کے پاس لوکل ٹیکس، ماس ٹرانزٹ، ماسٹر پلان، تعلیم وصحت، واٹر بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، ادارہ ترقیات کراچی اور دیگر اہم ترین محکمے تھے۔
سندھ حکومت نے 2010ء میں شہری حکومت کراچی کے منتخب نمائندوں کو تحلیل کردیا اور2013ء میں سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ سندھ اسمبلی سے منظور کراکے نیا بلدیاتی نظام نافذ کیا جس کے تحت ماس ٹرانزٹ، ماسٹر پلان، تعلیم وصحت، واٹر بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، ادارہ ترقیات کراچی اور دیگر اہم ترین ادارے سندھ حکومت کے کنٹرول میں دیدیے گئے۔
صفائی ستھرائی کا نظام بھی بلدیہ عظمیٰ کراچی اور دیگر بلدیاتی اداروں سے چھین کر سندھ حکومت کے ادارے سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو دیدیا گیا۔ 2013ء میں بلدیہ عظمی کراچی کے پاس محکمہ انجیئنر نگ، کچی آبادی، محکمہ تعلیم اوراسپتال کا انتظام چلانے کا اختیار رہ گیا۔
سندھ حکومت نے گزشتہ ہفتے بلدیاتی ترمیمی ایکٹ 2021 منظور کرکے بلدیہ عظمیٰ کراچی سے اسپتالوں کا اختیار بھی چھین لیا ہے، اس ایکٹ کے تحت بلدیہ عظمیٰ کراچی سے طبی خدمات چھین کر سندھ حکومت کے حوالے کردی گئی ہیں، اس ترمیم کے تحت بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر کنٹرول میڈیکل کالج اینڈ ٹیچنگ اسپشلائزڈ اسپتال، کراچی میڈیکل اینڈڈینٹل کالج(کے ایم ڈی سی)، عباسی شہید اسپتال، سرفراز شہید اسپتال، سوبھراج اسپتال، اسپنسر آئی اسپتال سمیت دیگر ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کا انتظام سندھ حکومت کے سپرد کردیا جائے گا۔
بلدیاتی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے قوانین کو منظور کرکے سندھ حکومت نے ایک بار پھر گراس روٹ لیول کی سطح پر اختیارات کی منتقلی اور آئین پاکستان کی شق 140-Aکو مجروح کیا ہے جس میں بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ طبی امور کی خدمات بلدیاتی اداروں سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا بہ شرط یہ کہ انھیں فنڈز، وسائل اور اختیارات دیے جائیں۔