وینزویلا کے علاقائی اور مقامی انتخابات
وینزویلا میں پہلے صدارتی انتخابات کا دور 2 فروری 1999 تا 10 جنوری 2001 کا تھا۔
کراچی:
ویسے تو آج میرا موضوع تبصرہ وینزویلا کے بلدیاتی انتخابات کا ہے مگر وینزویلا کے بارے میں کچھ لکھنے سے قبل لاطینی امریکا کے پس منظر پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔
جنوبی امریکا کے ساحل سمندر کے جزیروں کا ایک ملک بارباڈوس کو30 نومبر 2021 کو برطانیہ کی علم برداری سے آزادی ملی جب کہ اس ملک کو 30 نومبر 1966 میں جزوی آزادی ملی تھی مگر تاج برطانیہ کے ماتحت تھا جیساکہ آج بھی کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور مارشل آئی لینڈ سمیت 29 ممالک برطانیہ کی نوآبادیاں ہیں۔ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ کیریبین ممالک امریکی سرزمین پر افریقی لوگ آباد ہیں۔ مقامی آبادی ''کیرب'' قبیلے کے عوام کا قتل عام کرکے برطانیہ نے افریقہ سے غلاموں کو لاکر گنا اور کیلے کی کاشت شروع کروائی۔
1494 میں اسپین کے بادشاہ کی سرپرستی میں کولمبس نے لاطینی امریکا پر حملہ کیا اور لاکھوں عوام کا قتل عام کیا، وہاں سے لاکھوں میٹرک ٹنوں کا سونا لوٹا، زندہ مقامی لوگوں کو آگ لگا کر مارا، سونا نہ دینے پر ہاتھ کاٹے، سب سے زیادہ ظلم کی انتہا میکسیکو میں کی گئی جوکہ اسپینش تو بولتے ہیں لیکن براعظم شمالی امریکا کا ملک ہے۔ وینزویلا نے انھی مظالم تسلط اور جبر میں صدیاں گزاریں۔ مگر ہوگوشاویز کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک حد تک عوام جینے کے لیے سانس لے پائے۔
وینزویلا میں پہلے صدارتی انتخابات کا دور 2 فروری 1999 تا 10 جنوری 2001 کا تھا۔ انھوں نے اپنے فوجی رفیقوں سے مل کر متبادل حکومت چلانا شروع کردی۔ ہوگوشاویز نے 2000 میں لاطینی امریکا کے جمہوری تحریک کے بانی ''جیسس اردا نتھارا'' کو اپنانے کا اعادہ کیا اور انقلابی بولوین تحریک کی جانب گامزن ہوئے۔ شروع میں انھوں نے سینٹر لیفٹ کی راہ اپنائی۔ انھوں نے برازیل کے صدر ''لولاڈی سلوا'' کی طرح معیشت کو چلانے کی بات کی۔ انھوں نے اس وقت یہ سمجھا تھا کہ سرمایہ داری میں یہ سکت ہے کہ اب بھی اصلاحات کے ذریعے بہتری لائی جاسکتی ہے۔
1992 میں وفاقی حکومتی علاقہ کراکس میں ناکام فوجی بغاوت ہوئی۔ پھر شاویز نے امریکی اسٹاک ایکسچینج کا دورہ کیا، آئی ایم ایف اور امریکی سرمایہ داروں کو وینزویلا میں سرمایہ کاری کرنے پر زور دیتے رہے۔ اس وقت وینزویلا کی 70,000 فوج تھی۔ شاویز نے 2000 میں ''سن ڈے مورننگ'' اور ''ہیلو پریسیڈنٹ'' نامی ریاستی ریڈیو نیٹ ورک شروع کیا۔ جولائی میں ''دی پریسیڈنٹ پوسٹ'' نام سے روزنامہ اخبار جاری کیا، اس طرح ''سوال'' رسالہ اور ''وائیو'' ٹی وی کی نشریات جاری کیں۔ لاطینی امریکا اور عالمی پیمانے پر خبروں کا سلسلہ شروع کردیا۔ انھوں نے کہا کہ وینزویلا میں ایک سوشلسٹ انقلاب جاری ہے جس کی مصوری، مصر کر رہا ہے۔ پھر 25 اپریل 1999 کے ریفرنڈم میں شاویز کے موقف کی حمایت میں 88 فیصد ووٹ پڑے۔
انھوں نے نیشنل اسمبلی کے انتخابات کروائے جس میں ان کے حامیوں کو 95 فیصد ووٹ پڑے۔ 125 نشستیں حاصل کیں اور مخالفین صرف 6 نشستیں حاصل کر پائے۔ منتخب اسمبلی نے فیصلہ کیا کہ فوج سول حکومت کے ماتحت فیصلوں کی پابند ہوگی۔ دوسرا دور 10 جنوری 2001 سے 10 جنوری 2007تک کا تھا۔ ان صدارتی انتخابات میں 60 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ 1998 کے مقابلے میں زیادہ ووٹ لیے۔ فیدل کاسترو نے 53000 بیرل تیل روزانہ کی بنیاد پر وینزویلا سے لینے کا معاہدہ کیا جوکہ بڑھ کر بعد میں 90000 بیرل تک جا پہنچا۔ اس کے بدلے کیوبا سے 40000 ڈاکٹرز اور استادوں کا تبادلہ ہوا۔ شاویز نے 2001 میں افغانستان میں امریکی مداخلت کی مذمت کی، خاص کر بچوں کی اموات پر۔ 2000 کے الیکشن میں نیشنل اسمبلی میں 165 میں سے 101 نشستیں ہوگو شاویز کے حامیوں نے حاصل کیں۔
وینزویلا اکیسویں صدی کا پانچواں بڑا تیل کا سپلائر بن گیا۔ انھوں نے تیل کی کمپنی بنائی جس کا نام ''پیٹرولوس دی وینزویلا'' رکھا، اسی دوران اپنی پارٹی کا نام سوشلسٹ موومنٹ رکھا۔ اسی دوران فوج کے ایک حصے نے شاویز کے خلاف بغاوت کردی اور صدارتی محل میں شاویز کو قید کردیا۔ باغیوں نے ہوگوشاویز کے نام سے بیان جاری کیا کہ عوام اس بغاوت کو تسلیم کریں اور ردعمل نہ کریں۔ بعدازاں شاویز نے کسی طرح اپنے ہاتھ کی رکھی ہوئی ایک پرچی عوام تک پہنچائی کہ ایسا نہیں ہے ہم قید میں ہیں۔ عوام اس بغاوت کو ناکام بنا دیں۔ پھر اس خط کو پڑھ کر لاکھوں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور باغی ہوگو شاویز کو رہا کرنے پر مجبور ہوگئے۔
وہ جب رہا ہوئے تو عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عوام کی طاقت کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔ 2005 میں وہ کھلے عام سوشلسٹ نظریات کی بات کرنے لگے۔ انھوں نے اپنے طریقے سے ڈیموکریٹک سوشلزم کا لفظ استعمال کرنا شروع کیا۔ شاویز نے روس اور چین کی طرح سوشلزم سے ہٹ کر اپنے نظریے کا پرچار شروع کیا۔ 2006 میں یورپ کا دورہ کیا اور محنت کشوں کے لیے سستا تیل فراہم کرنے کی بات کی۔ تیسرا صدارتی انتخابات 10 جنوری 2007 سے 10 جنوری 2013 کا دور تھا۔ شاویز نے 63 فیصد ووٹ لے کر جیتے اور 74 فیصد عوام نے ووٹ کاسٹ کیا۔ بعد میں ہوگو شاویز نے یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا بنائی۔ 5.7 ملین لوگ اس کے ممبر بنے۔ حالیہ وینزویلا کا علاقائی اور مقامی انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں یورپی یونین کے نمایندے مبصر کے طور پر موجود تھے۔
یورپی یونین نے یہ اظہار خیال کیا کہ بہتر صورت حال میں انتخابات منعقد ہوئے۔ وینزویلا کی حکمران سوشلسٹ پارٹی نے علاقائی انتخابات میں بازی مار لی۔ گزشتہ چار سالوں میں یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا نے بہتر پوزیشن سے انتخابات جیت لیے۔ جنوبی امریکا کے بیشتر ملکوں میں اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے معاشی صورت حال خراب ہے۔ اس لیے یورپی یونین کی نگہبانی میں انتخابات ہوئے۔ گورنرز اور میئرز کے بیشتر امیدوار حکمران جماعت سوشلسٹ پارٹی کے جیتے ہیں۔ 23 گورنرز کے عہدوں میں سے 20 عہدوں پر سوشلسٹ پارٹی جیتی ہے۔ حالیہ ایک جائزے میں کہا گیا کہ 4 میں 3 آدمی وینزویلا میں افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے E4 کو دعوت دی تھی۔ وینزویلا کے موجودہ صدر نکولس مادورو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہمارے آئین میں مقامی انتخابات میں بیرون ملک کے مبصرین کو دعوت دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس کے باوجود ہم نے ان کا خیرمقدم کیا۔ 2013 کے صدارتی انتخابات میں نیکولس مادورو نے فتح یابی حاصل کی تھی۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے گورنرز اور میئرز کا محنت کش طبقے سے تعلق ہے یا امیرزادوں سے۔ اگر یہ محنت کش ہوں اور مقامی و علاقائی خودمختار میونسپلٹی کمیٹیاں تشکیل دے کر صحت، تعلیم، رہائش اور روزگار فراہم کریں تو حقیقی کامیابی ہوگی ورنہ عوام کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
ویسے تو آج میرا موضوع تبصرہ وینزویلا کے بلدیاتی انتخابات کا ہے مگر وینزویلا کے بارے میں کچھ لکھنے سے قبل لاطینی امریکا کے پس منظر پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔
جنوبی امریکا کے ساحل سمندر کے جزیروں کا ایک ملک بارباڈوس کو30 نومبر 2021 کو برطانیہ کی علم برداری سے آزادی ملی جب کہ اس ملک کو 30 نومبر 1966 میں جزوی آزادی ملی تھی مگر تاج برطانیہ کے ماتحت تھا جیساکہ آج بھی کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور مارشل آئی لینڈ سمیت 29 ممالک برطانیہ کی نوآبادیاں ہیں۔ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ کیریبین ممالک امریکی سرزمین پر افریقی لوگ آباد ہیں۔ مقامی آبادی ''کیرب'' قبیلے کے عوام کا قتل عام کرکے برطانیہ نے افریقہ سے غلاموں کو لاکر گنا اور کیلے کی کاشت شروع کروائی۔
1494 میں اسپین کے بادشاہ کی سرپرستی میں کولمبس نے لاطینی امریکا پر حملہ کیا اور لاکھوں عوام کا قتل عام کیا، وہاں سے لاکھوں میٹرک ٹنوں کا سونا لوٹا، زندہ مقامی لوگوں کو آگ لگا کر مارا، سونا نہ دینے پر ہاتھ کاٹے، سب سے زیادہ ظلم کی انتہا میکسیکو میں کی گئی جوکہ اسپینش تو بولتے ہیں لیکن براعظم شمالی امریکا کا ملک ہے۔ وینزویلا نے انھی مظالم تسلط اور جبر میں صدیاں گزاریں۔ مگر ہوگوشاویز کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک حد تک عوام جینے کے لیے سانس لے پائے۔
وینزویلا میں پہلے صدارتی انتخابات کا دور 2 فروری 1999 تا 10 جنوری 2001 کا تھا۔ انھوں نے اپنے فوجی رفیقوں سے مل کر متبادل حکومت چلانا شروع کردی۔ ہوگوشاویز نے 2000 میں لاطینی امریکا کے جمہوری تحریک کے بانی ''جیسس اردا نتھارا'' کو اپنانے کا اعادہ کیا اور انقلابی بولوین تحریک کی جانب گامزن ہوئے۔ شروع میں انھوں نے سینٹر لیفٹ کی راہ اپنائی۔ انھوں نے برازیل کے صدر ''لولاڈی سلوا'' کی طرح معیشت کو چلانے کی بات کی۔ انھوں نے اس وقت یہ سمجھا تھا کہ سرمایہ داری میں یہ سکت ہے کہ اب بھی اصلاحات کے ذریعے بہتری لائی جاسکتی ہے۔
1992 میں وفاقی حکومتی علاقہ کراکس میں ناکام فوجی بغاوت ہوئی۔ پھر شاویز نے امریکی اسٹاک ایکسچینج کا دورہ کیا، آئی ایم ایف اور امریکی سرمایہ داروں کو وینزویلا میں سرمایہ کاری کرنے پر زور دیتے رہے۔ اس وقت وینزویلا کی 70,000 فوج تھی۔ شاویز نے 2000 میں ''سن ڈے مورننگ'' اور ''ہیلو پریسیڈنٹ'' نامی ریاستی ریڈیو نیٹ ورک شروع کیا۔ جولائی میں ''دی پریسیڈنٹ پوسٹ'' نام سے روزنامہ اخبار جاری کیا، اس طرح ''سوال'' رسالہ اور ''وائیو'' ٹی وی کی نشریات جاری کیں۔ لاطینی امریکا اور عالمی پیمانے پر خبروں کا سلسلہ شروع کردیا۔ انھوں نے کہا کہ وینزویلا میں ایک سوشلسٹ انقلاب جاری ہے جس کی مصوری، مصر کر رہا ہے۔ پھر 25 اپریل 1999 کے ریفرنڈم میں شاویز کے موقف کی حمایت میں 88 فیصد ووٹ پڑے۔
انھوں نے نیشنل اسمبلی کے انتخابات کروائے جس میں ان کے حامیوں کو 95 فیصد ووٹ پڑے۔ 125 نشستیں حاصل کیں اور مخالفین صرف 6 نشستیں حاصل کر پائے۔ منتخب اسمبلی نے فیصلہ کیا کہ فوج سول حکومت کے ماتحت فیصلوں کی پابند ہوگی۔ دوسرا دور 10 جنوری 2001 سے 10 جنوری 2007تک کا تھا۔ ان صدارتی انتخابات میں 60 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ 1998 کے مقابلے میں زیادہ ووٹ لیے۔ فیدل کاسترو نے 53000 بیرل تیل روزانہ کی بنیاد پر وینزویلا سے لینے کا معاہدہ کیا جوکہ بڑھ کر بعد میں 90000 بیرل تک جا پہنچا۔ اس کے بدلے کیوبا سے 40000 ڈاکٹرز اور استادوں کا تبادلہ ہوا۔ شاویز نے 2001 میں افغانستان میں امریکی مداخلت کی مذمت کی، خاص کر بچوں کی اموات پر۔ 2000 کے الیکشن میں نیشنل اسمبلی میں 165 میں سے 101 نشستیں ہوگو شاویز کے حامیوں نے حاصل کیں۔
وینزویلا اکیسویں صدی کا پانچواں بڑا تیل کا سپلائر بن گیا۔ انھوں نے تیل کی کمپنی بنائی جس کا نام ''پیٹرولوس دی وینزویلا'' رکھا، اسی دوران اپنی پارٹی کا نام سوشلسٹ موومنٹ رکھا۔ اسی دوران فوج کے ایک حصے نے شاویز کے خلاف بغاوت کردی اور صدارتی محل میں شاویز کو قید کردیا۔ باغیوں نے ہوگوشاویز کے نام سے بیان جاری کیا کہ عوام اس بغاوت کو تسلیم کریں اور ردعمل نہ کریں۔ بعدازاں شاویز نے کسی طرح اپنے ہاتھ کی رکھی ہوئی ایک پرچی عوام تک پہنچائی کہ ایسا نہیں ہے ہم قید میں ہیں۔ عوام اس بغاوت کو ناکام بنا دیں۔ پھر اس خط کو پڑھ کر لاکھوں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور باغی ہوگو شاویز کو رہا کرنے پر مجبور ہوگئے۔
وہ جب رہا ہوئے تو عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عوام کی طاقت کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔ 2005 میں وہ کھلے عام سوشلسٹ نظریات کی بات کرنے لگے۔ انھوں نے اپنے طریقے سے ڈیموکریٹک سوشلزم کا لفظ استعمال کرنا شروع کیا۔ شاویز نے روس اور چین کی طرح سوشلزم سے ہٹ کر اپنے نظریے کا پرچار شروع کیا۔ 2006 میں یورپ کا دورہ کیا اور محنت کشوں کے لیے سستا تیل فراہم کرنے کی بات کی۔ تیسرا صدارتی انتخابات 10 جنوری 2007 سے 10 جنوری 2013 کا دور تھا۔ شاویز نے 63 فیصد ووٹ لے کر جیتے اور 74 فیصد عوام نے ووٹ کاسٹ کیا۔ بعد میں ہوگو شاویز نے یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا بنائی۔ 5.7 ملین لوگ اس کے ممبر بنے۔ حالیہ وینزویلا کا علاقائی اور مقامی انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں یورپی یونین کے نمایندے مبصر کے طور پر موجود تھے۔
یورپی یونین نے یہ اظہار خیال کیا کہ بہتر صورت حال میں انتخابات منعقد ہوئے۔ وینزویلا کی حکمران سوشلسٹ پارٹی نے علاقائی انتخابات میں بازی مار لی۔ گزشتہ چار سالوں میں یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا نے بہتر پوزیشن سے انتخابات جیت لیے۔ جنوبی امریکا کے بیشتر ملکوں میں اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے معاشی صورت حال خراب ہے۔ اس لیے یورپی یونین کی نگہبانی میں انتخابات ہوئے۔ گورنرز اور میئرز کے بیشتر امیدوار حکمران جماعت سوشلسٹ پارٹی کے جیتے ہیں۔ 23 گورنرز کے عہدوں میں سے 20 عہدوں پر سوشلسٹ پارٹی جیتی ہے۔ حالیہ ایک جائزے میں کہا گیا کہ 4 میں 3 آدمی وینزویلا میں افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے E4 کو دعوت دی تھی۔ وینزویلا کے موجودہ صدر نکولس مادورو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہمارے آئین میں مقامی انتخابات میں بیرون ملک کے مبصرین کو دعوت دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس کے باوجود ہم نے ان کا خیرمقدم کیا۔ 2013 کے صدارتی انتخابات میں نیکولس مادورو نے فتح یابی حاصل کی تھی۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے گورنرز اور میئرز کا محنت کش طبقے سے تعلق ہے یا امیرزادوں سے۔ اگر یہ محنت کش ہوں اور مقامی و علاقائی خودمختار میونسپلٹی کمیٹیاں تشکیل دے کر صحت، تعلیم، رہائش اور روزگار فراہم کریں تو حقیقی کامیابی ہوگی ورنہ عوام کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔