ڈیڈ لاک
پاکستان کی سیاسی قیادت کو فطری طور پے پھلنے اور پھولنے دیں تاکہ سیاسی پراسس جاری رہے۔
کس طرف برف پگھل جاتی ہے، منظر بدل جاتے ہیں، رنگ، ہوا کا رخ، موسم۔ عمریں بیت جاتی ہیں۔ آدمی بدل جاتا ہے۔ زمانہ ہے ہی نشیب و فراز کا عکس۔ کل بادشاہ آج گداگر۔ کل وصل کی وسعتیں تو آج ہجر سے اوڑھا آنگن، اداس بیل کی شاخیں، کل ہجوم تھا لوگوں کا آج ہے سناٹا پھیلا ہوا۔
'' جب ظلم و ستم کے کوہ گراں روئی کی طرح مٹ جائیں گے'' فیض دور تک دیکھ سکتے تھے جو عام مروج آدمی کو نظر نہیں آتا وہ ایک شاعر کو نظر آرہا تھا کہ اس کی انگلیاں اس قوم کی نبض پر تھیں۔
بہت کچھ بدل گیا ہے اس قرضوں کے پس منظر میں۔ زمین ہل گئی ہے۔ بائیس کروڑ کا یہ ملک پچیس ارب ڈالر کی ایکسپورٹ بھی نہیں کرتا! آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا بڑا یہ ملک ہر لحاظ سے پست در پست ہے۔ ذہنی پسماندہ بچوں کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہمارے پاس، عورتوں کے صحت کا انڈیکیٹر ہو تب بھی دنیا میں ہم چند بدترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ عدل و انصاف کے مروج پیمانے بھی ایسے ہی ہیں۔ تو پھر ایسے میں ہماری افواج دنیا کے دس بہترین افواج میں آتی ہے۔ ہے یہ تو اچھی بات مگر اس سے یہ بھی تو ثابت ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے رگ و جاں، اپنے پیٹ کا نوالہ دے کے، انسانوں کی ترقی کی بجٹ کم کرکے دنیا کی عظیم فوج بنائی ہے۔
جو ہم بھول گئے بات وہ یہ تھی کہ جنگیں صرف فوج نہیں لڑا کرتیں، ایک مضبوط معیشت پے کھڑی قوم اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ بات قرضوں کی نہیں، قرضوں کے پیچھے پڑی کھانی کی ہے۔ جدید نو آبادیاتی سامراج کا ہتھیار تھا ایسے ممالک کو مقروض کرو، ان کو اپنے پائوں پے کھڑا نہیں ہونے دو ۔ وہ یہ کام کیسے کرسکتے تھے بغیر اپنے ایجنٹوں کے۔ انگریز جاتے جاتے وہ شرفا کی نسل وہ بیوروکریسی وغیرہ تو یہیں چھوڑ گیا تھا ۔ جناح چل بسے جب کے نہرو پندرہ سال حکومت میں رہے۔
اکھاڑ باہر پھینکا انگریزوں کی اس شرفا و بیوروکریسی کو، لینڈ ریفارمز لائے۔ ہمارے پاس صحیح طرح کے لینڈ ریفارمز اگر آئے بھی تو مشرقی پاکستان میں آئے۔ سیاسی سوجھ بوجھ کے اعتبار سے وہ ہم سے بہت آگے تھے ۔ چھین کے لی بنگالی زبان کی قومی حیثیت اردو کے برابر۔ وہ جمہوری تحریک ہر اول دستہ تھے۔ جب کہ مغربی پاکستان سیاسی سوجھ بوجھ کے حساب سے بہت ہی پسماندہ تھا۔
مغربی پاکستان کا بیانیہ، بنگالیوں کے شدید خلاف تھا، یہ وہ بیانیہ تھا جسے کوئی اور نہیں بلکہ بھٹو آگے لے کر چل رہے تھے۔ یہ وہ شیخ مجیب تھے جو فاطمہ جناح کی الیکشن میں جنرل ایوب کے خلاف ان کے ساتھ کھڑے تھے، جب کہ بھٹو ایوب کے ساتھ کھڑا تھا۔
آج پنجاب جمہوریت کی جدوجہد کا ہر اول دستہ بن چکا ہے۔ آج جمہوری جدوجہد پنجاب کی گلیوں اور چوراہوں تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان ایک بند گلی میں پھنس گیا ہے ۔ ہماری معیشت دنیا کی چند پست ترین معیشتوں میں اپنا نام رکھتی ہے۔ ہم نے مذہبی کارڈ اتنا کھیلا ہے اب اسے زیادہ کھیل نہیں سکتے۔
کل پشاور میں پیپلز پارٹی کا جلسہ تھا، صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وہ پی ڈی ایم کے ساتھ مل کے اس حکومت کو فارغ نہیں کرنیوالی۔ وہ تو مریم نواز اور اسٹیبلشمنٹ میں بڑھتے ہوئے ٹکرائو والی کیفیت میں وہی کردار ادا کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں جو کل ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب اور اسٹیبلشمنٹ میں بڑھتے ہوئے ٹکرائو کے زمانے میں ادا کیا تھا لیکن بھٹو کے ساتھ اس جنگ میں اس کا ووٹر بھی ساتھ کھڑا تھا۔ کیا بلاول بھٹو کے ساتھ پنجاب کھڑا ہے؟ آج پنجاب کوئی مانے یا نہ مانے مریم نواز کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ پنجاب ہے بنگال یا ایسٹ پاکستان نہیں، جس کا کچھ بھی اسٹیبلشمنٹ میں حصہ نہ تھا، اب کے بار تو پوری اسٹیبلشمنٹ بھی پنجاب سے اور آج کی پاورفل نمایندہ،سیاسی حیثیت رکھنے والی قیادت بھی پنجاب سے ہے۔
اور یہ جنگ ہو بھی چکی۔ عمران خان اس بحران سے یا خود اسٹیبلشمنٹ اس بحران سے تب ہی نکل سکتے ہیں اگر معیشت سنبھل جائے، قرضے کم ہوجائیں۔ جس کی سدھرنے کی خبر دور تک تو کہیں نہیں ہے۔ بھلے نواز شریف یا شہباز شریف یا اسحاق ڈار ہی کیوں نہ آجائے۔ یہ سب ٹھیک ہوگا جب آپ نے جو ستر سالوں سے بیانیہ بنایا ہے اسے الوداع کریں۔ بل خصوص جنرل ضیاء الحق کے بنائے ہوئے بیانیے سے جس نے افغانستان ہمارے گلے میں ڈال دیا ہے۔
اقتدار کی لالچ اتنی ہے کہ اب بھی خان صاحب انھی پتوں پے بھروسہ رکھتے ہیں، جن پتوں نے اس ملک کو دنیا میں تنہا کردیا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی اب بھی نیشنل سیکیورٹی کے پس منظر میں بنی ہے جب کہ نیشنل سیکیورٹی کا پیرا ڈائم خود پاکستان کی معاشی اہمیت، اس کی ترقی کو نیشنل سیکیورٹی کے پس منظر سے نہیں دیکھتا۔
معاشی بحران بہت گہرا ہوتا جارہا ہے۔ اور ہم اب بھی اقتدار پے چپک کے بیٹھے ہیں ۔ انتخابات آج نہیں تو کل ہوں گے۔ اگر ای وی ایم استعمال ہوا، دھاندلی ہوئی تو سول وار ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ خان صاحب جتنا اقتدار پر چپک کر رہیں گے اتنا ہی زیادہ وہ غیر مقبول ہوتے جائیں گے ۔ ایک ایک دن اقتدار پے رہنا اب ان کے لیے اچھا نہیں۔
ایک تھیوری یہ ہے کہ پی ڈی ایم نہیں چاہتی کہ وہ عمران خان کو تحریک کے ذریعے نکال کے سیاسی شہید بنائے۔ وہ خان کی طبعی و فطری رخصت چاہتے ہیں۔ لیکن خان صاحب کا جو حلقہ تھا اس کا اسی فیصد مہنگائی نے ہلا دیا۔ وہ اب واپس نہیں آنے والے۔ نہ کبھی اتنی طاقت رکھیں گے کہ ڈی چوک پے دھاوا بول دیں۔
آیندہ کی دنیا میں نہ طالبان کہیں پیر جما سکتے ہیں نہ طالبان کا افغانستان، یہ تو بات ختم ہوئی اور اب یہ بہت بڑی لائبلٹی بن چکے ہیں۔
ہم اب بھی رسماً خان صاحب کے دور میں رہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب اگلے پانچ سال نکالتے ہوئے کہیں بھی نظر نہیں آ رہے ۔ ان کے گرد بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے اوپر انگلیاں اٹھی ہوئی ہیں۔ آئی ایم ایف COVID-19 کے لیے جو ڈیرہ سو ارب دیے تھے ان کی تفصیل مانگی تو پتا چلا چالیس ارب کا گھپلا ہوا ہے۔ رنگ روڈ والی کہانی الگ۔ بہت سی فائلیں ان کے جانے کے بعد ان کے خلاف کھلیں گی۔
یہ ملک اس طرح ایک تو چل نہیں سکا جو اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کو فطری طور پے پھلنے اور پھولنے دیں تاکہ سیاسی پراسس جاری رہے۔
'' جب ظلم و ستم کے کوہ گراں روئی کی طرح مٹ جائیں گے'' فیض دور تک دیکھ سکتے تھے جو عام مروج آدمی کو نظر نہیں آتا وہ ایک شاعر کو نظر آرہا تھا کہ اس کی انگلیاں اس قوم کی نبض پر تھیں۔
بہت کچھ بدل گیا ہے اس قرضوں کے پس منظر میں۔ زمین ہل گئی ہے۔ بائیس کروڑ کا یہ ملک پچیس ارب ڈالر کی ایکسپورٹ بھی نہیں کرتا! آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا بڑا یہ ملک ہر لحاظ سے پست در پست ہے۔ ذہنی پسماندہ بچوں کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہمارے پاس، عورتوں کے صحت کا انڈیکیٹر ہو تب بھی دنیا میں ہم چند بدترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ عدل و انصاف کے مروج پیمانے بھی ایسے ہی ہیں۔ تو پھر ایسے میں ہماری افواج دنیا کے دس بہترین افواج میں آتی ہے۔ ہے یہ تو اچھی بات مگر اس سے یہ بھی تو ثابت ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے رگ و جاں، اپنے پیٹ کا نوالہ دے کے، انسانوں کی ترقی کی بجٹ کم کرکے دنیا کی عظیم فوج بنائی ہے۔
جو ہم بھول گئے بات وہ یہ تھی کہ جنگیں صرف فوج نہیں لڑا کرتیں، ایک مضبوط معیشت پے کھڑی قوم اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ بات قرضوں کی نہیں، قرضوں کے پیچھے پڑی کھانی کی ہے۔ جدید نو آبادیاتی سامراج کا ہتھیار تھا ایسے ممالک کو مقروض کرو، ان کو اپنے پائوں پے کھڑا نہیں ہونے دو ۔ وہ یہ کام کیسے کرسکتے تھے بغیر اپنے ایجنٹوں کے۔ انگریز جاتے جاتے وہ شرفا کی نسل وہ بیوروکریسی وغیرہ تو یہیں چھوڑ گیا تھا ۔ جناح چل بسے جب کے نہرو پندرہ سال حکومت میں رہے۔
اکھاڑ باہر پھینکا انگریزوں کی اس شرفا و بیوروکریسی کو، لینڈ ریفارمز لائے۔ ہمارے پاس صحیح طرح کے لینڈ ریفارمز اگر آئے بھی تو مشرقی پاکستان میں آئے۔ سیاسی سوجھ بوجھ کے اعتبار سے وہ ہم سے بہت آگے تھے ۔ چھین کے لی بنگالی زبان کی قومی حیثیت اردو کے برابر۔ وہ جمہوری تحریک ہر اول دستہ تھے۔ جب کہ مغربی پاکستان سیاسی سوجھ بوجھ کے حساب سے بہت ہی پسماندہ تھا۔
مغربی پاکستان کا بیانیہ، بنگالیوں کے شدید خلاف تھا، یہ وہ بیانیہ تھا جسے کوئی اور نہیں بلکہ بھٹو آگے لے کر چل رہے تھے۔ یہ وہ شیخ مجیب تھے جو فاطمہ جناح کی الیکشن میں جنرل ایوب کے خلاف ان کے ساتھ کھڑے تھے، جب کہ بھٹو ایوب کے ساتھ کھڑا تھا۔
آج پنجاب جمہوریت کی جدوجہد کا ہر اول دستہ بن چکا ہے۔ آج جمہوری جدوجہد پنجاب کی گلیوں اور چوراہوں تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان ایک بند گلی میں پھنس گیا ہے ۔ ہماری معیشت دنیا کی چند پست ترین معیشتوں میں اپنا نام رکھتی ہے۔ ہم نے مذہبی کارڈ اتنا کھیلا ہے اب اسے زیادہ کھیل نہیں سکتے۔
کل پشاور میں پیپلز پارٹی کا جلسہ تھا، صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وہ پی ڈی ایم کے ساتھ مل کے اس حکومت کو فارغ نہیں کرنیوالی۔ وہ تو مریم نواز اور اسٹیبلشمنٹ میں بڑھتے ہوئے ٹکرائو والی کیفیت میں وہی کردار ادا کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں جو کل ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب اور اسٹیبلشمنٹ میں بڑھتے ہوئے ٹکرائو کے زمانے میں ادا کیا تھا لیکن بھٹو کے ساتھ اس جنگ میں اس کا ووٹر بھی ساتھ کھڑا تھا۔ کیا بلاول بھٹو کے ساتھ پنجاب کھڑا ہے؟ آج پنجاب کوئی مانے یا نہ مانے مریم نواز کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ پنجاب ہے بنگال یا ایسٹ پاکستان نہیں، جس کا کچھ بھی اسٹیبلشمنٹ میں حصہ نہ تھا، اب کے بار تو پوری اسٹیبلشمنٹ بھی پنجاب سے اور آج کی پاورفل نمایندہ،سیاسی حیثیت رکھنے والی قیادت بھی پنجاب سے ہے۔
اور یہ جنگ ہو بھی چکی۔ عمران خان اس بحران سے یا خود اسٹیبلشمنٹ اس بحران سے تب ہی نکل سکتے ہیں اگر معیشت سنبھل جائے، قرضے کم ہوجائیں۔ جس کی سدھرنے کی خبر دور تک تو کہیں نہیں ہے۔ بھلے نواز شریف یا شہباز شریف یا اسحاق ڈار ہی کیوں نہ آجائے۔ یہ سب ٹھیک ہوگا جب آپ نے جو ستر سالوں سے بیانیہ بنایا ہے اسے الوداع کریں۔ بل خصوص جنرل ضیاء الحق کے بنائے ہوئے بیانیے سے جس نے افغانستان ہمارے گلے میں ڈال دیا ہے۔
اقتدار کی لالچ اتنی ہے کہ اب بھی خان صاحب انھی پتوں پے بھروسہ رکھتے ہیں، جن پتوں نے اس ملک کو دنیا میں تنہا کردیا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی اب بھی نیشنل سیکیورٹی کے پس منظر میں بنی ہے جب کہ نیشنل سیکیورٹی کا پیرا ڈائم خود پاکستان کی معاشی اہمیت، اس کی ترقی کو نیشنل سیکیورٹی کے پس منظر سے نہیں دیکھتا۔
معاشی بحران بہت گہرا ہوتا جارہا ہے۔ اور ہم اب بھی اقتدار پے چپک کے بیٹھے ہیں ۔ انتخابات آج نہیں تو کل ہوں گے۔ اگر ای وی ایم استعمال ہوا، دھاندلی ہوئی تو سول وار ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ خان صاحب جتنا اقتدار پر چپک کر رہیں گے اتنا ہی زیادہ وہ غیر مقبول ہوتے جائیں گے ۔ ایک ایک دن اقتدار پے رہنا اب ان کے لیے اچھا نہیں۔
ایک تھیوری یہ ہے کہ پی ڈی ایم نہیں چاہتی کہ وہ عمران خان کو تحریک کے ذریعے نکال کے سیاسی شہید بنائے۔ وہ خان کی طبعی و فطری رخصت چاہتے ہیں۔ لیکن خان صاحب کا جو حلقہ تھا اس کا اسی فیصد مہنگائی نے ہلا دیا۔ وہ اب واپس نہیں آنے والے۔ نہ کبھی اتنی طاقت رکھیں گے کہ ڈی چوک پے دھاوا بول دیں۔
آیندہ کی دنیا میں نہ طالبان کہیں پیر جما سکتے ہیں نہ طالبان کا افغانستان، یہ تو بات ختم ہوئی اور اب یہ بہت بڑی لائبلٹی بن چکے ہیں۔
ہم اب بھی رسماً خان صاحب کے دور میں رہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب اگلے پانچ سال نکالتے ہوئے کہیں بھی نظر نہیں آ رہے ۔ ان کے گرد بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے اوپر انگلیاں اٹھی ہوئی ہیں۔ آئی ایم ایف COVID-19 کے لیے جو ڈیرہ سو ارب دیے تھے ان کی تفصیل مانگی تو پتا چلا چالیس ارب کا گھپلا ہوا ہے۔ رنگ روڈ والی کہانی الگ۔ بہت سی فائلیں ان کے جانے کے بعد ان کے خلاف کھلیں گی۔
یہ ملک اس طرح ایک تو چل نہیں سکا جو اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کو فطری طور پے پھلنے اور پھولنے دیں تاکہ سیاسی پراسس جاری رہے۔