معذوری عیب نہیں ملکی ترقی کیلئے خصوصی افراد کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہوگا
ایک رپورٹ کے مطابق اگر خصوصی افراد روزگار کمائیں تو ہماری جی ڈی پی میں سالانہ 6 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔
HYDERABAD:
خصوصی افراد معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں جن کا خیال رکھنا ، سہولیات فراہم کرنا، معاشرے کا ایک کارآمد شہری بنانا اور زندگی گزارنے کے برابر مواقع دینا جہاں ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے وہیں معاشرتی رویہ اور کردار بھی انتہائی اہم ہوتا ہے۔
خصوصی افراد کے مسائل ، ان کا حل اور ان سے منسلک بیشتر اہم معاملات کے بارے میں آگاہی دینے اور عملی اقدامات کی ترغیب دینے کے حوالے سے ہر سال 3 دسمبر کو دنیا بھر ''خصوصی افراد کا عالمی دن'' منایا جاتا ہے۔
ہر سال کی طرح اس عالمی دن کے موقع پر بھی ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، شعبہ صحت اور خصوصی افراد کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
چودھری محمد اخلاق
(وزیر برائے سپیشل ایجوکیشن پنجاب)
خصوصی افراد سے منسلک ادارے آپس میں مل کر کام کر رہے ہیں۔ اس میں محکمہ سپیشل ایجوکیشن کا کردار انتہائی اہم ہے۔ہم نہ صرف اپنا کام کر رہے ہیں بلکہ خصوصی افراد کی بہتری کیلئے دیگر اداروں کو تجاویز بھی فراہم کرتے ہیں۔ خصوصی افراد کیلئے عمارتوں میں ریمپ کی تعمیر ہمارے دائرہ کار میں نہیں ہے۔
جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ 1982 ء میں ایل ڈی اے کا ایک قانون ہے جس پر عملدرآمد کے مسائل ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کو سمری بھیجی ہے، اس پر جلد کام کا آغاز ہوجائے گا۔ پاکستان میں سماعت سے محروم افراد کے ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنتے جس کی وجہ سے ان بچے، بچیوںکو آمد و رفت کیلئے والدین کی مدد درکار ہوتی ہے۔
اس حوالے سے ہم نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کو نوٹ بھیجا ہے لہٰذا جلد سماعت سے محروم افراد کو ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء ہوجائے گا۔ میرے محکمہ نے بہت زیادہ محنت کی ہے جس کی وجہ سے ہم 2 سالہ کارکردگی میں 36 محکموں میں سے پہلے 20 محکموں میں آگئے ہیں اور خود وزیراعلیٰ پنجاب نے ہماری کارکردگی کو سراہا ہے۔ میرے نزدیک خصوصی افراد کا سب سے بڑا مسئلہ آگاہی ہے ، انہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کیلئے کیا کام ہورہا ہے اور وہ اس سے کس طرح مستفید ہوسکتے ہیں۔
ہم انہیں آگاہی دینے پر کام کر رہے ہیں۔ کرونا کے چیلنج کی وجہ سے بہت سارے معاملات میں تاخیر ہوئی تاہم اب بہتری آرہی ہے۔ گزشتہ 2 ماہ میں ہم نے اپنے سکولوں میں 3 ہزار نئے بچے داخل کیے ہیں۔ میں نے تمام ''ڈی اوز' کو ہدایت کی تھی کہ بچوں کی انرولمنٹ میں اضافہ یقینی بنائیں۔ پہلے ہمارے پاس 34 ہزار بچے زیر تعلیم تھے جو اب 37 ہزار سے زائد ہوچکے ہیں، اس تعداد میں ا ضافے کیلئے مزید کام جاری ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے بچوں کی ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے کیلئے مشکل حالات کے باجود ہمیں 36 نئی بسیںدیں جو کرونا کے دوران ہی سکولوں کو فراہم کر دی گئی تھی، ان سے بچوں کے پک اینڈ ڈراپ میں بہت فائدہ ہوا ہے۔ موٹر وے کے قریب شرقپور میں محکمہ سپیشل ایجوکیشن کی 104 کنال زمین تھی جس پر 40 برس سے مقامی افراد کا قبضہ تھا، ہم نے اسے واگزار کرایا۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے فوری طور پر 2 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کیے جس سے ہم نے چار دیواری بنوائی تاکہ دوبارہ قبضہ نہ ہوسکے۔ نارمل بچے شمالی علاقہ جات و دیگر علاقوں میں چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں لیکن خصوصی بچوں کیلئے ایسی کوئی جگہ نہیں ہے۔
میں نے سوچا کہ ان بچوں کیلئے کوئی خصوصی جگہ ہونی چاہیے جہاں یہ اپنی چھٹیاں گزاریں، ایک دوسرے سے ملیں تاکہ ان کی تنہائی دوراور دکھ کم ہو۔واگزار کی گئی زمین پر ہم خصوصی بچوں کیلئے ''سپیشل ویلج'' بنا رہے ہیں جہاں سٹیٹ آف دی آرٹ آڈیٹوریم اور تھیٹر ہوگا، کھیل کی گراؤنڈ، سامان و تفریح کیلئے بے شمار چیزیں ہوگی۔
خصوصی بچوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ویلج کو فرینڈلی بنایا جائے گا، اس میںخصوصی بچوں کی انٹری، بورڈنگ، کھانا، پینا ہر چیز مفت ہوگی اوروہ یہاں 10 سے 15 دن تک چھٹیاں گزار سکیں گے، اس سے ان کی ماؤں کو بھی ریلیف ملے گا۔ مجھے امید ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد دیگر صوبے بھی اس کی تقلید کریں گے۔ میں نے جب بجٹ سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کو اس کی بریفنگ دی تو انہوں نے نہ صرف اسے سراہا بلکہ اس کی منظوری بھی دی۔ یہ 800ملین کا منصوبہ ہے جس میں سے 2 کروڑ جاری ہوچکے ہیں۔ یہ منصوبہ ڈیزائننگ کے مراحل میں ہے، اس پر مشاورت جاری ہے۔
یہ پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا منصوبہ ہوگا جسے خود انحصار بنایا جا رہا ہے۔ ہم مختلف اداروں کو میٹنگز، سیمینارز، سپورٹس گالہ کیلئے آڈیٹوریم ، گراؤنڈز رینٹ پر دیں گے جس سے ریونیو حاصل ہوگا اور اس منصوبے کے اخراجات پورے کیے جائیں گے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے ہدایت کی ہے کہ اس ویلج میں ہاسٹل بھی بنائیں تاکہ دیگر شہروں سے آئے ہوئے بچے یہاں رہ سکیں گے۔ یہ منصوبہ آئندہ 2 برسوں میں مکمل ہوجائے گا۔سپیشل ایجوکیشن کے اداروں میں بچے نہیں آتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان سے مکرامے، بانس کا فرنیچر وایسی اشیاء بنوائی جاتی تھی جن کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
میں نے اپنے محکمہ کو ہدایت دی کہ ان کا نصاب تبدیل کر دیا جائے۔ اس حوالے سے ہم نے دو پائلٹ پراجیکٹ کامیابی سے مکمل کر لیے ہیں، جوہر ٹاؤن اور گلبرگ لاہور میں موجود سینٹرز میں آئی ٹی لیبز قائم کر دی گئی ہیں جہاں بچوں کو آئی ٹی کی تعلیم دی جارہی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ یہ بچے شارٹ کورسز کریں اور جدید دنیا میں اپنا روزگار خود کمائیں تاکہ انہیں ملازمت کیلئے کوٹہ کی ضرورت نہ پڑے۔
میری کوشش ہے کہ خصوصی بچوں کو فرانزک سائنس کے کورسز کروائے جائیں، اس پر پلاننگ جاری ہے۔ حکومت کا کامیاب جوان پروگرام بہترین ہے۔ خصوصی افراد کو اس کے بارے میں آگاہی دی جائے۔ اس منصوبے کے تحت انہیں 10 لاکھ تک میرٹ پر قرض مل سکتا ہے لہٰذا وہ درخواست دیں اور اپنا بزنس کریں۔
ڈاکٹر خالد جمیل
(بگ برادر)
گزشتہ برس کی نسبت رواں برس خصوصی افرادکے حوالے سے کافی کام ہوا ہے اور بیشتر منصوبے مکمل ہوئے ہیں۔ کرونا وائرس کے چیلنج کی وجہ سے رواں برس خصوصی افراد کے عالمی دن کو 'لیڈر شپ' سے جوڑا گیا ہے۔
کرونا وباء کے دوران 5 طرح کی معذوری والے افراد جن میں muscular dystrophy، spinal cord injuries، polyneuropathies، cerebral palsy یا stroke کا شکار بچے شامل ہیں، کی شرح اموات زیادہ تھی۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ دیرینہ امراض کی وجہ سے ان کی قوت مدافعت کم ہوچکی تھی جبکہ دوسری وجہ ویکسین کے حوالے سے ابہام تھا کہ وہ لگوا سکتے ہیں یا نہیں۔
اس اہم معاملے پر کہیں بات نہیں کی گئی اور نہ ہی خصوصی افراد کو آگاہی دی گئی کہ وہ ویکسین لگواسکتے ہیں۔ معذوری کا شکار افراد نے ویکسین نہیں لگوائی جس کی وجہ سے بیشتر اموات ہوئیں۔اب کرونا وائرس کی نئی لہر آگئی ہے لہٰذا اس معاملے پر خصوصی طور پر آگاہی دی جائے اور خصوصی افراد کو ویکسین لگوانے کی طرف مائل کیاجائے۔ خصوصی افراد کی مالی حالت عام لوگوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے، کرونا وباء کی وجہ سے یہ مزید متاثر ہوئی اور ان کی ضروریات زندگی کا پوری ہونا مشکل ہوگیا۔
انہیں علاج معالجہ، ٹرانسپورٹ و دیگر معاملات بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ کرونا میں ہنگامی حالات اور اقدامات کی وجہ سے بھی خصوصی افراد کو شدید مسائل کا سامنا رہا۔ میو ہسپتال لاہور میں ایک سال تک کرونا کے مریضوں کے علاوہ کسی دوسرے مریض کا علاج نہیں کیا گیا۔ خصوصی افراد کے علاج معالجے سے منسلک شعبے بند رہے، مصنوعی اعضاء نہیں بنے، مریضوں کی فزیکل تھراپی نہیں ہوئی ، جس کے باعث ان کی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوا۔حکومت کو چاہیے کہ کرونا کی ویکسین کے حوالے سے خصوصی افراد کو آگاہی دے، اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی وبائی چیلنج یا نارمل حالات کی صورت میں خصوصی افراد کی ہسپتال اور علاج معالجے تک رسائی یقینی بنائی جائے۔
کرونا وباء کے دوران لوگوں میں لیڈر شپ کی صلاحیت ابھری ہے۔ لاک ڈاؤن میں گھروں میں محصور رہنے کی وجہ سے لوگوں کے درمیان آن لائن روابط میں اضافہ ہوا۔ مشکل صورتحال میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کمیونٹی بیسڈ رری ہیبلی ٹیشن سمیت بے شمار کام کیا۔ میں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ معذوری کے شکار افراد کو این جی اوز بنا کر کام کرنے کی ترغیب دی جس کے بعد کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاورمیں بے شمار این جی اوز بنیں جنہوں نے زلزلوں سے لیکر کرونا تک کے ہنگامی حالات میںبہترین کام کیا۔ دنیا کے ہر معاشرے میں بہتری کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔
میرے نزدیک احتجاج نہیں بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ میں اپنی کمیونٹی کو خصوصی طور پر یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں، احتجاج سے حاصل ہونے والی چیز دیرپا نہیں ہوتی بلکہ وقتی ہوتی ہے جو مظاہرین کو گھر بھیجے کیلئے کی جاتی ہے، بعدازاں مسائل درپیش رہتے ہیں۔
عمارتوں میں ریمپ نہ ہونے کی وجہ سے خصوصی افراد کومسائل درپیش ہیں۔ رواں سال جون میں گورنر پنجاب سے ہماری میٹنگ ہوئی جس میں خصوصی افراد کیلئے 'ریمپ' بنانے کے حوالے سے بات ہوئی۔ ہم نے پی ٹی وی سٹیشن سمیت پبلک ڈیلنگ کے بیشتر دفاتر میں ریمپ بنوائے ہیں، اس پر مزید کام جاری ہے۔
ڈاکٹر اظہار ہاشمی
(پراجیکٹ ڈائریکٹر پنجاب ویلفیئر ٹرسٹ فار دی ڈس ایببل)
میں ہمیشہ سے ہی محکمہ سپیشل ایجوکیشن کے اقدامات کا ناقد رہا ہوں مگر موجودہ دور میں خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت اور تحفظ کیلئے اس محکمے کا کام قابل ستائش ہے۔ محکمہ کی جانب سے خصوصی بچوں کے نئے سکول بنائے گئے، انہیں سہولیات مہیا کی گئی جو انتہائی اہم ہیں۔
ہمارا ٹرسٹ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں خودمختار ادارہ ہے جس سے سالانہ 26 لاکھ افراد مستفید ہورہے ہیں۔ ہم 120 این جی اوز کو فنڈز مہیا کرکے ان کی کپیسٹی بلڈنگ کرتے ہیں اور ان کی مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن بھی کی جاتی ہے۔کرونا وباء کے دوران بھی ہم نے اپنا دفتر بند نہیں کیا۔ ہمیں ادراک تھا کہ اگراین جی اوز تک بروقت فنڈز نہ پہنچے تو 40 کے قریب ادارے بند ہوجائیں گے۔
لہٰذا ہم نے نہ صرف انہیں بروقت فنڈز جاری کیے بلکہ انہیں کمیونٹی کے ساتھ بھی جوڑا۔ ہم نے اپنی پارٹنر این جی اوز اور مخیر حضرات کی مدد سے خصوصی افراد میں 30 ہزار راشن تقسیم کیے۔ خاص کر جنوبی پنجاب کی این جی اوزنے اس پر نے بہترین کام کیا۔ کرونا وباء کے دوران حکومت نے 12 ملین افراد کو امداد فراہم کی جن میں خصوصی افراد بھی شامل تھے۔
عالمی ڈونر ایجنسیوں نے بھی مقامی این جی اوز کے ساتھ مل کر خصوصی افراد کو ہرممکن امداد فراہم کی۔ گزشتہ پانچ برسوں میں اخوت اور پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی نے مل کر 20 ہزار خصوصی افراد کوچھوٹے کاروبار کیلئے چھوٹے قرضے فراہم کیے، جن کی ریکوری کی شرح 100 فیصد ہے ۔ خصوصی افراد کو سہولت دینے کیلئے ریمپ اورٹائلٹ کو عمارتوں کا لازمی حصہ بنا یا جا رہا ہے۔
ان کے بغیر کسی عمارت کو تکمیل کا سرٹیفکیٹ نہیں ملے گا،کرونا کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی تاہم اب اس پر تیزی سے کام جا ری ہے۔ پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی، پنجاب سکلز ڈویلپمنٹ فنڈز، ٹیوٹا، سپیشل ایجوکیشن اور سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ مل کر خصوصی افراد کیلئے ایک نئی دنیا بنا رہے ہیں جس میں اخوت اور اس جیسے ادارے ٹیکنیکل سکلز حاصل کرنے والوں کو بلاسود چھوٹے کاروباری قرضے فراہم کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔
اس میں ویژن یہ ہے کہ خصوصی افراد اپنے 3 فیصد کوٹہ کے علاوہ کاروبار کے ذریعے اپنا روزگار کماسکیں گے۔ عالمی سطح پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر دنیا کے خصوصی افراد کام شروع کر دیں تو دنیا کی جی ڈی پی میں 6 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں برٹش کونسل اور ورلڈ بینک نے تحقیق کی جس کے مطابق اگر ہمارے ملک کے خصوصی افراد کام شروع کر دیں تو جی ڈی پی میں 4.6 سے 6.1 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں 33ملین خصوصی افراد ہیں،اگر ان پر کام نہ کیا گیا تو 2050ء میں یہ تعداد 84 ملین ہوجائے گی۔ہمیں خصوصی افراد کے حوالے سے مل کر کام کرنا ہوگا، اگر کر لیا تو ہمارا مستقبل تابناک ہے۔
لالہ جی سعید اقبال مرزا
(چیئرمین پاکستان سپیشل پرسنز اسلام آباد، ممبر ڈویژنل امن کمیٹی گوجرانوالہ، قائد اعظم گولڈ میڈلسٹ)
حکومت کی جانب سے بلدیاتی قوانین میں ترمیم کی جارہی ہے جو خوش آئند ہے۔ میرے دیرینہ مطالبے پر ڈسٹرکٹ اور تحصیل کی سطح پر خصوصی افراد کیلئے نشستیں مختص کر دی گئی ہیںجس پر میں سپیکر پنجاب اسمبلی، وزیر اعلیٰ پنجاب، صوبائی حکومت ، صوبائی وزیر چودھری اخلاق اور قانون بنانے کیلئے قائم کردہ سپیشل پرسنز کی کمیٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
ہمارے علاقے میں خصوصی بچوں کو تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ گزشتہ 10 برس سے ہمارا مطالبہ ہے کہ گورنمنٹ سپیشل سینٹر لالہ موسیٰ کو مڈل سکول سے ہائی سکول کا درجہ دیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سینٹر ایئرپورٹ چوک جو کہ پرائمری سکول ہے اسے بھی مڈل سکول کا درجہ دیا جائے۔
خصوصی افراد کی آواز کو مضبوط کرنے کیلئے انہیں سیاسی اداروں اور فیصلہ ساز اداروں میں نمائندگی دینا ہوگی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میںخصوصی افرادکیلئے ایک ایک نشست مختص کی جائے۔ خصوصی افراد معاشرے کا حصہ ہے، معذوری عیب نہیں خدا کی حکمت ہے لہٰذا ا ن سے نفرت نہ کی جائے۔ پنجاب میں 50 لاکھ سے زائد خصوصی افراد ہیں جن کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
احساس پروگرام میں معذوری کے حامل تمام افراد کو ایک ہی کیٹگری میں شامل کر دیا گیا ہے، میرے نزدیک یہ بھیک کی جدید شکل ہے۔ جو افراد معذوری کی وجہ سے بالکل کام نہیں کرسکتے انہیں 10 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جائے اور جو ہنر مند ہیں انہیں 5 لاکھ روپیہ قرض حسنہ دیا جائے۔ سرکاری محکموں میںتعلیم یافتہ خصوصی افراد کی ملازمت یقینی بنائی جائے، ملازمت کا کوٹہ 5 فیصد کیا جائے اورا س پر عملدرآمد میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔
خصوصی افراد معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں جن کا خیال رکھنا ، سہولیات فراہم کرنا، معاشرے کا ایک کارآمد شہری بنانا اور زندگی گزارنے کے برابر مواقع دینا جہاں ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے وہیں معاشرتی رویہ اور کردار بھی انتہائی اہم ہوتا ہے۔
خصوصی افراد کے مسائل ، ان کا حل اور ان سے منسلک بیشتر اہم معاملات کے بارے میں آگاہی دینے اور عملی اقدامات کی ترغیب دینے کے حوالے سے ہر سال 3 دسمبر کو دنیا بھر ''خصوصی افراد کا عالمی دن'' منایا جاتا ہے۔
ہر سال کی طرح اس عالمی دن کے موقع پر بھی ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، شعبہ صحت اور خصوصی افراد کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
چودھری محمد اخلاق
(وزیر برائے سپیشل ایجوکیشن پنجاب)
خصوصی افراد سے منسلک ادارے آپس میں مل کر کام کر رہے ہیں۔ اس میں محکمہ سپیشل ایجوکیشن کا کردار انتہائی اہم ہے۔ہم نہ صرف اپنا کام کر رہے ہیں بلکہ خصوصی افراد کی بہتری کیلئے دیگر اداروں کو تجاویز بھی فراہم کرتے ہیں۔ خصوصی افراد کیلئے عمارتوں میں ریمپ کی تعمیر ہمارے دائرہ کار میں نہیں ہے۔
جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ 1982 ء میں ایل ڈی اے کا ایک قانون ہے جس پر عملدرآمد کے مسائل ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کو سمری بھیجی ہے، اس پر جلد کام کا آغاز ہوجائے گا۔ پاکستان میں سماعت سے محروم افراد کے ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنتے جس کی وجہ سے ان بچے، بچیوںکو آمد و رفت کیلئے والدین کی مدد درکار ہوتی ہے۔
اس حوالے سے ہم نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کو نوٹ بھیجا ہے لہٰذا جلد سماعت سے محروم افراد کو ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء ہوجائے گا۔ میرے محکمہ نے بہت زیادہ محنت کی ہے جس کی وجہ سے ہم 2 سالہ کارکردگی میں 36 محکموں میں سے پہلے 20 محکموں میں آگئے ہیں اور خود وزیراعلیٰ پنجاب نے ہماری کارکردگی کو سراہا ہے۔ میرے نزدیک خصوصی افراد کا سب سے بڑا مسئلہ آگاہی ہے ، انہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کیلئے کیا کام ہورہا ہے اور وہ اس سے کس طرح مستفید ہوسکتے ہیں۔
ہم انہیں آگاہی دینے پر کام کر رہے ہیں۔ کرونا کے چیلنج کی وجہ سے بہت سارے معاملات میں تاخیر ہوئی تاہم اب بہتری آرہی ہے۔ گزشتہ 2 ماہ میں ہم نے اپنے سکولوں میں 3 ہزار نئے بچے داخل کیے ہیں۔ میں نے تمام ''ڈی اوز' کو ہدایت کی تھی کہ بچوں کی انرولمنٹ میں اضافہ یقینی بنائیں۔ پہلے ہمارے پاس 34 ہزار بچے زیر تعلیم تھے جو اب 37 ہزار سے زائد ہوچکے ہیں، اس تعداد میں ا ضافے کیلئے مزید کام جاری ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے بچوں کی ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے کیلئے مشکل حالات کے باجود ہمیں 36 نئی بسیںدیں جو کرونا کے دوران ہی سکولوں کو فراہم کر دی گئی تھی، ان سے بچوں کے پک اینڈ ڈراپ میں بہت فائدہ ہوا ہے۔ موٹر وے کے قریب شرقپور میں محکمہ سپیشل ایجوکیشن کی 104 کنال زمین تھی جس پر 40 برس سے مقامی افراد کا قبضہ تھا، ہم نے اسے واگزار کرایا۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے فوری طور پر 2 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کیے جس سے ہم نے چار دیواری بنوائی تاکہ دوبارہ قبضہ نہ ہوسکے۔ نارمل بچے شمالی علاقہ جات و دیگر علاقوں میں چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں لیکن خصوصی بچوں کیلئے ایسی کوئی جگہ نہیں ہے۔
میں نے سوچا کہ ان بچوں کیلئے کوئی خصوصی جگہ ہونی چاہیے جہاں یہ اپنی چھٹیاں گزاریں، ایک دوسرے سے ملیں تاکہ ان کی تنہائی دوراور دکھ کم ہو۔واگزار کی گئی زمین پر ہم خصوصی بچوں کیلئے ''سپیشل ویلج'' بنا رہے ہیں جہاں سٹیٹ آف دی آرٹ آڈیٹوریم اور تھیٹر ہوگا، کھیل کی گراؤنڈ، سامان و تفریح کیلئے بے شمار چیزیں ہوگی۔
خصوصی بچوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ویلج کو فرینڈلی بنایا جائے گا، اس میںخصوصی بچوں کی انٹری، بورڈنگ، کھانا، پینا ہر چیز مفت ہوگی اوروہ یہاں 10 سے 15 دن تک چھٹیاں گزار سکیں گے، اس سے ان کی ماؤں کو بھی ریلیف ملے گا۔ مجھے امید ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد دیگر صوبے بھی اس کی تقلید کریں گے۔ میں نے جب بجٹ سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کو اس کی بریفنگ دی تو انہوں نے نہ صرف اسے سراہا بلکہ اس کی منظوری بھی دی۔ یہ 800ملین کا منصوبہ ہے جس میں سے 2 کروڑ جاری ہوچکے ہیں۔ یہ منصوبہ ڈیزائننگ کے مراحل میں ہے، اس پر مشاورت جاری ہے۔
یہ پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا منصوبہ ہوگا جسے خود انحصار بنایا جا رہا ہے۔ ہم مختلف اداروں کو میٹنگز، سیمینارز، سپورٹس گالہ کیلئے آڈیٹوریم ، گراؤنڈز رینٹ پر دیں گے جس سے ریونیو حاصل ہوگا اور اس منصوبے کے اخراجات پورے کیے جائیں گے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے ہدایت کی ہے کہ اس ویلج میں ہاسٹل بھی بنائیں تاکہ دیگر شہروں سے آئے ہوئے بچے یہاں رہ سکیں گے۔ یہ منصوبہ آئندہ 2 برسوں میں مکمل ہوجائے گا۔سپیشل ایجوکیشن کے اداروں میں بچے نہیں آتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان سے مکرامے، بانس کا فرنیچر وایسی اشیاء بنوائی جاتی تھی جن کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
میں نے اپنے محکمہ کو ہدایت دی کہ ان کا نصاب تبدیل کر دیا جائے۔ اس حوالے سے ہم نے دو پائلٹ پراجیکٹ کامیابی سے مکمل کر لیے ہیں، جوہر ٹاؤن اور گلبرگ لاہور میں موجود سینٹرز میں آئی ٹی لیبز قائم کر دی گئی ہیں جہاں بچوں کو آئی ٹی کی تعلیم دی جارہی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ یہ بچے شارٹ کورسز کریں اور جدید دنیا میں اپنا روزگار خود کمائیں تاکہ انہیں ملازمت کیلئے کوٹہ کی ضرورت نہ پڑے۔
میری کوشش ہے کہ خصوصی بچوں کو فرانزک سائنس کے کورسز کروائے جائیں، اس پر پلاننگ جاری ہے۔ حکومت کا کامیاب جوان پروگرام بہترین ہے۔ خصوصی افراد کو اس کے بارے میں آگاہی دی جائے۔ اس منصوبے کے تحت انہیں 10 لاکھ تک میرٹ پر قرض مل سکتا ہے لہٰذا وہ درخواست دیں اور اپنا بزنس کریں۔
ڈاکٹر خالد جمیل
(بگ برادر)
گزشتہ برس کی نسبت رواں برس خصوصی افرادکے حوالے سے کافی کام ہوا ہے اور بیشتر منصوبے مکمل ہوئے ہیں۔ کرونا وائرس کے چیلنج کی وجہ سے رواں برس خصوصی افراد کے عالمی دن کو 'لیڈر شپ' سے جوڑا گیا ہے۔
کرونا وباء کے دوران 5 طرح کی معذوری والے افراد جن میں muscular dystrophy، spinal cord injuries، polyneuropathies، cerebral palsy یا stroke کا شکار بچے شامل ہیں، کی شرح اموات زیادہ تھی۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ دیرینہ امراض کی وجہ سے ان کی قوت مدافعت کم ہوچکی تھی جبکہ دوسری وجہ ویکسین کے حوالے سے ابہام تھا کہ وہ لگوا سکتے ہیں یا نہیں۔
اس اہم معاملے پر کہیں بات نہیں کی گئی اور نہ ہی خصوصی افراد کو آگاہی دی گئی کہ وہ ویکسین لگواسکتے ہیں۔ معذوری کا شکار افراد نے ویکسین نہیں لگوائی جس کی وجہ سے بیشتر اموات ہوئیں۔اب کرونا وائرس کی نئی لہر آگئی ہے لہٰذا اس معاملے پر خصوصی طور پر آگاہی دی جائے اور خصوصی افراد کو ویکسین لگوانے کی طرف مائل کیاجائے۔ خصوصی افراد کی مالی حالت عام لوگوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے، کرونا وباء کی وجہ سے یہ مزید متاثر ہوئی اور ان کی ضروریات زندگی کا پوری ہونا مشکل ہوگیا۔
انہیں علاج معالجہ، ٹرانسپورٹ و دیگر معاملات بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ کرونا میں ہنگامی حالات اور اقدامات کی وجہ سے بھی خصوصی افراد کو شدید مسائل کا سامنا رہا۔ میو ہسپتال لاہور میں ایک سال تک کرونا کے مریضوں کے علاوہ کسی دوسرے مریض کا علاج نہیں کیا گیا۔ خصوصی افراد کے علاج معالجے سے منسلک شعبے بند رہے، مصنوعی اعضاء نہیں بنے، مریضوں کی فزیکل تھراپی نہیں ہوئی ، جس کے باعث ان کی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوا۔حکومت کو چاہیے کہ کرونا کی ویکسین کے حوالے سے خصوصی افراد کو آگاہی دے، اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی وبائی چیلنج یا نارمل حالات کی صورت میں خصوصی افراد کی ہسپتال اور علاج معالجے تک رسائی یقینی بنائی جائے۔
کرونا وباء کے دوران لوگوں میں لیڈر شپ کی صلاحیت ابھری ہے۔ لاک ڈاؤن میں گھروں میں محصور رہنے کی وجہ سے لوگوں کے درمیان آن لائن روابط میں اضافہ ہوا۔ مشکل صورتحال میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کمیونٹی بیسڈ رری ہیبلی ٹیشن سمیت بے شمار کام کیا۔ میں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ معذوری کے شکار افراد کو این جی اوز بنا کر کام کرنے کی ترغیب دی جس کے بعد کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاورمیں بے شمار این جی اوز بنیں جنہوں نے زلزلوں سے لیکر کرونا تک کے ہنگامی حالات میںبہترین کام کیا۔ دنیا کے ہر معاشرے میں بہتری کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔
میرے نزدیک احتجاج نہیں بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ میں اپنی کمیونٹی کو خصوصی طور پر یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں، احتجاج سے حاصل ہونے والی چیز دیرپا نہیں ہوتی بلکہ وقتی ہوتی ہے جو مظاہرین کو گھر بھیجے کیلئے کی جاتی ہے، بعدازاں مسائل درپیش رہتے ہیں۔
عمارتوں میں ریمپ نہ ہونے کی وجہ سے خصوصی افراد کومسائل درپیش ہیں۔ رواں سال جون میں گورنر پنجاب سے ہماری میٹنگ ہوئی جس میں خصوصی افراد کیلئے 'ریمپ' بنانے کے حوالے سے بات ہوئی۔ ہم نے پی ٹی وی سٹیشن سمیت پبلک ڈیلنگ کے بیشتر دفاتر میں ریمپ بنوائے ہیں، اس پر مزید کام جاری ہے۔
ڈاکٹر اظہار ہاشمی
(پراجیکٹ ڈائریکٹر پنجاب ویلفیئر ٹرسٹ فار دی ڈس ایببل)
میں ہمیشہ سے ہی محکمہ سپیشل ایجوکیشن کے اقدامات کا ناقد رہا ہوں مگر موجودہ دور میں خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت اور تحفظ کیلئے اس محکمے کا کام قابل ستائش ہے۔ محکمہ کی جانب سے خصوصی بچوں کے نئے سکول بنائے گئے، انہیں سہولیات مہیا کی گئی جو انتہائی اہم ہیں۔
ہمارا ٹرسٹ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں خودمختار ادارہ ہے جس سے سالانہ 26 لاکھ افراد مستفید ہورہے ہیں۔ ہم 120 این جی اوز کو فنڈز مہیا کرکے ان کی کپیسٹی بلڈنگ کرتے ہیں اور ان کی مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن بھی کی جاتی ہے۔کرونا وباء کے دوران بھی ہم نے اپنا دفتر بند نہیں کیا۔ ہمیں ادراک تھا کہ اگراین جی اوز تک بروقت فنڈز نہ پہنچے تو 40 کے قریب ادارے بند ہوجائیں گے۔
لہٰذا ہم نے نہ صرف انہیں بروقت فنڈز جاری کیے بلکہ انہیں کمیونٹی کے ساتھ بھی جوڑا۔ ہم نے اپنی پارٹنر این جی اوز اور مخیر حضرات کی مدد سے خصوصی افراد میں 30 ہزار راشن تقسیم کیے۔ خاص کر جنوبی پنجاب کی این جی اوزنے اس پر نے بہترین کام کیا۔ کرونا وباء کے دوران حکومت نے 12 ملین افراد کو امداد فراہم کی جن میں خصوصی افراد بھی شامل تھے۔
عالمی ڈونر ایجنسیوں نے بھی مقامی این جی اوز کے ساتھ مل کر خصوصی افراد کو ہرممکن امداد فراہم کی۔ گزشتہ پانچ برسوں میں اخوت اور پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی نے مل کر 20 ہزار خصوصی افراد کوچھوٹے کاروبار کیلئے چھوٹے قرضے فراہم کیے، جن کی ریکوری کی شرح 100 فیصد ہے ۔ خصوصی افراد کو سہولت دینے کیلئے ریمپ اورٹائلٹ کو عمارتوں کا لازمی حصہ بنا یا جا رہا ہے۔
ان کے بغیر کسی عمارت کو تکمیل کا سرٹیفکیٹ نہیں ملے گا،کرونا کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی تاہم اب اس پر تیزی سے کام جا ری ہے۔ پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی، پنجاب سکلز ڈویلپمنٹ فنڈز، ٹیوٹا، سپیشل ایجوکیشن اور سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ مل کر خصوصی افراد کیلئے ایک نئی دنیا بنا رہے ہیں جس میں اخوت اور اس جیسے ادارے ٹیکنیکل سکلز حاصل کرنے والوں کو بلاسود چھوٹے کاروباری قرضے فراہم کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔
اس میں ویژن یہ ہے کہ خصوصی افراد اپنے 3 فیصد کوٹہ کے علاوہ کاروبار کے ذریعے اپنا روزگار کماسکیں گے۔ عالمی سطح پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر دنیا کے خصوصی افراد کام شروع کر دیں تو دنیا کی جی ڈی پی میں 6 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں برٹش کونسل اور ورلڈ بینک نے تحقیق کی جس کے مطابق اگر ہمارے ملک کے خصوصی افراد کام شروع کر دیں تو جی ڈی پی میں 4.6 سے 6.1 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں 33ملین خصوصی افراد ہیں،اگر ان پر کام نہ کیا گیا تو 2050ء میں یہ تعداد 84 ملین ہوجائے گی۔ہمیں خصوصی افراد کے حوالے سے مل کر کام کرنا ہوگا، اگر کر لیا تو ہمارا مستقبل تابناک ہے۔
لالہ جی سعید اقبال مرزا
(چیئرمین پاکستان سپیشل پرسنز اسلام آباد، ممبر ڈویژنل امن کمیٹی گوجرانوالہ، قائد اعظم گولڈ میڈلسٹ)
حکومت کی جانب سے بلدیاتی قوانین میں ترمیم کی جارہی ہے جو خوش آئند ہے۔ میرے دیرینہ مطالبے پر ڈسٹرکٹ اور تحصیل کی سطح پر خصوصی افراد کیلئے نشستیں مختص کر دی گئی ہیںجس پر میں سپیکر پنجاب اسمبلی، وزیر اعلیٰ پنجاب، صوبائی حکومت ، صوبائی وزیر چودھری اخلاق اور قانون بنانے کیلئے قائم کردہ سپیشل پرسنز کی کمیٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
ہمارے علاقے میں خصوصی بچوں کو تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ گزشتہ 10 برس سے ہمارا مطالبہ ہے کہ گورنمنٹ سپیشل سینٹر لالہ موسیٰ کو مڈل سکول سے ہائی سکول کا درجہ دیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سینٹر ایئرپورٹ چوک جو کہ پرائمری سکول ہے اسے بھی مڈل سکول کا درجہ دیا جائے۔
خصوصی افراد کی آواز کو مضبوط کرنے کیلئے انہیں سیاسی اداروں اور فیصلہ ساز اداروں میں نمائندگی دینا ہوگی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میںخصوصی افرادکیلئے ایک ایک نشست مختص کی جائے۔ خصوصی افراد معاشرے کا حصہ ہے، معذوری عیب نہیں خدا کی حکمت ہے لہٰذا ا ن سے نفرت نہ کی جائے۔ پنجاب میں 50 لاکھ سے زائد خصوصی افراد ہیں جن کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
احساس پروگرام میں معذوری کے حامل تمام افراد کو ایک ہی کیٹگری میں شامل کر دیا گیا ہے، میرے نزدیک یہ بھیک کی جدید شکل ہے۔ جو افراد معذوری کی وجہ سے بالکل کام نہیں کرسکتے انہیں 10 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جائے اور جو ہنر مند ہیں انہیں 5 لاکھ روپیہ قرض حسنہ دیا جائے۔ سرکاری محکموں میںتعلیم یافتہ خصوصی افراد کی ملازمت یقینی بنائی جائے، ملازمت کا کوٹہ 5 فیصد کیا جائے اورا س پر عملدرآمد میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔