سیاسی مفادات
پنجاب کے اقتدار کی خاطر تحریک انصاف اپنی اتحادی جماعت کی ہر بات ماننے پر مجبور ہے۔
PESHAWAR:
ایک سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کو اپنا باس قرار دیا کرتے تھے۔ ملک میں تین غیر جمہوری صدور نے اپنی اپنی جتنی طویل اقتداری مدت پوری کی وہ اب تک ملک کے کسی ایک وزیر اعظم نے پوری نہیں کی اور کوئی بھی اپنی دو تہائی اکثریت کے باوجود اپنی مقررہ 5 سالہ مدت پوری نہ کرسکا۔
جنرل پرویز مشرف نو سال، جنرل ایوب خان دس سال اور جنرل ضیا الحق 11سال سے زائد سالوں تک برسر اقتدار رہے مگر کسی نے بھی سیاستدانوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو ایک موجودہ سیاسی حکمران نے اپنے مخالف سیاستدانوں کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی منتخب وزیر اعظم کو مقتدر قوتوں کی اتنی حمایت نہیں ملی جتنی موجودہ حکمران کو ملی۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ 2018ء میں تحریک انصاف کو سب سے زیادہ نشستیں نہیں ملی تھیں بلکہ انھیں ان کی حمایتی قوتیں اتنی اکثریت نہیں دلا سکی تھیں کہ وہ تنہا حکومت بنا سکتے جس کی وجہ سے انھیں دیگر سیاسی جماعتوں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) کی حمایت حاصل کرنا پڑی تھی جب کہ مسلم لیگ (ن) اور شیخ رشید نے ایک ایک وزارت کے لیے عمران خان کا ساتھ دیا تھا اور بی این پی مینگل واحد پارٹی تھی جس نے کوئی وزارت نہیں لی تھی بلکہ بلوچستان کے حقیقی مسائل حل کرانے کے لیے تحریک انصاف حکومت سے معاہدہ کیا تھا۔
معاہدہ تو کراچی کے مسائل اور اقتدار لے کر تحریک انصاف کی حکومت نے دونوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر عمل نہیں کیا جس پر بی این پی مینگل نے دو سال انتظار کرکے حکومت کی حمایت چھوڑ دی تھی کیونکہ وہ اصول پرست تھے مگر ایم کیو ایم اصولی سیاست کے ہر کام میں ان کا ساتھ دیتی رہی جب کہ قومی اسمبلی کی صرف 5 نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ (ق) نے بھی دو وفاقی وزارتیں لے کر بھی پنجاب میں سیاسی فوائد حاصل کیے اور چھ اکتوبر کے بعد اس نے شکوہ کیا کہ پنجاب میں اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
(ق) لیگ پنجاب میں صرف دس نشستوں پر پنجاب کی اسپیکر شپ اور دو وزارتیں لیے ہوئے ہے۔ تحریک انصاف کی مجبوری پنجاب حکومت ہے جہاں صرف دس نشستوں پر پی ٹی آئی حکومت قائم ہے اور پی ٹی آئی اپنے سیاسی مفاد اور پنجاب کے اقتدار کے لیے اپنے اصولوں کو بھلا چکی ہے اور اتحادی جماعت کی ہر بات ماننے پر مجبور ہے۔ مسلم لیگ ق جی ڈی اے کی شکل میں اور سابق ایم کیو ایم اپنے نام میں پاکستان کا اضافہ کرکے بھی اپنی پرانی تنخواہ پر موجودہ حکومت میں رہنے پر مجبور ہے۔
تحریک انصاف حکومت نے ایک نشست رکھنے والے شیخ رشید کو داخلہ جیسی اہم وزارت اور جمہوری وطن پارٹی کی واحد نشست پر انھیں بھی معاون خصوصی کا عہدہ دے رکھا ہے۔ ماضی میں 18 وفاقی وزارتیں رکھنے کی دعویدار تحریک انصاف کی قیادت نے تقریباً ساٹھ اہم عہدے اور وزارتیں اپنی پارٹی والوں کو دے رکھی ہیں اور اندرون ملک ہی نہیں باہر سے آنے والے اپنے دوستوں کو بھی اہم عہدے دے رکھے ہیں جن پر ماہانہ کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔
عدلیہ اور بالاتر بھی ان پر مہربان ہیں۔ بیڈ گورننس، ملکی معیشت کی تباہی، اپنے سابقہ دعوؤں سے انحراف، ملک میں مہنگائی و بے روزگاری کے سب سے بڑے ریکارڈ اور نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے اپنے تمام سیاسی مخالفین کو بھی سالوں قید میں رکھنے پر بھی ان کے سیاسی حلیفوں نے انھیں من مانیاں کرنے سے منع نہیں کیا اور انھیں ان کے غیر قانونی اقدامات سے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی اور وہ سب کچھ کرنے دیا جو ماضی میں نہیں ہوا تھا۔
پنجاب کے اقتدار کی خاطر تحریک انصاف اپنی اتحادی جماعت کی ہر بات ماننے پر مجبور ہے مگر سندھ و بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایم کیو ایم جی ڈی اے اور بی این پی مینگل کو اس نے نظرانداز کیا کہ دونوں صوبائی اقتدار کے لیے پی ٹی آئی کی ضرورت نہیں اور یہ دونوں وفاق میں اس کی ضرورت نہیں مجبوری ہیں مگر پھر بھی ان دونوں حلیفوں سے وفاقی حکومت نے اپنے وعدے نہیں نبھائے جس کی وجہ سے اختر مینگل الگ ہوگئے مگر ایم کیو ایم اور جی ڈی اے جو مریم نواز کے بقول یہ اتحادی نہیں حکومت کے قیدی ہیں حکومت اپنے ان حلیفوں سے کیے گئے وعدے نہیں نبھا رہی جس کی وجہ سے وہ بھی موقعہ دیکھ کر حکومت پر تنقید کر لیتے ہیں مگر عوام کے مفاد کے لیے حکومت سے کوئی فیصلے نہیں کرا پا رہے اور حکومت انھیں صرف مطلب پر اہمیت دیتی ہے اور مطلب نکل جانے پر ان کے ساتھ مسلسل طوطا چشمی کرتی آ رہی ہے۔