لاہور کا ضمنی الیکشن اور پیپلز پارٹی
یہ سب عوامل اپنی جگہ لیکن لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ 32ہزار ووٹ چمک کا کمال ہیں۔
RAWALPINDI:
لاہور کے حلقہ 133کے ضمنی انتخابات کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ نتائج کے بعد یہ بحث قابل غور کیا ہے کہ کیا واقعی پیپلزپارٹی لاہور میں اپنا کھویا ہوا ووٹ بینک واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی کو ملنے والے 32ہزار سے زائد ووٹ کیا واقعی اس کے ووٹ بینک کی بحالی کے علمبردار ہیں۔
کیا واقعی تحریک انصاف کی انتخابی عمل سے باہر رہنے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو اس کا کھویا ہوا ووٹ بینک واپس مل گیا ہے۔ کل کو جب تحریک انصاف انتخابی عمل میں موجود ہو گی تو کیا پیپلزپارٹی اپنے ووٹ بینک کو قائم رکھ سکے گی۔ کیا تحریک انصاف کی واپسی کے بعد پیپلزپارٹی پھر چند ہزار اور چند سو پر واپس آجائے گی۔ کیا اگلے کسی ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی وسطیٰ پنجاب میں دوبارہ اتنے ووٹ لے سکے گی۔
سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک کوئی آئیسولیشن میں نہیں ہوتا۔ یہ علاقوں تک محدود ہو سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ انتخابی حلقوں تک محدود نہیں ہوتا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک قومی اسمبلی کے حلقہ 133میں تو بحال ہو گیا ہے۔ لیکن 132اور 134میں بحال نہیں ہوا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے ساتھ والے حلقوں میں تو آپ کا ووٹ بینک زیرو ہے لیکن اس ایک حلقے میں ووٹ بینک بحال ہو گیا ہے۔
پھر حلقہ 133میں امیدوار بھی کوئی ایسا نہیں تھا جس کا انفرادی ووٹ بینک اس قدر مضبوط ہو کہ اس نے پارٹی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی ذاتی طاقت کی وجہ سے اتنے ووٹ لے لیے ہیں۔ پنجاب میں جیتنے والے انتخابی گھوڑوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں اپنے ذاتی ووٹ بینک کی وجہ سے جیت جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک مقبول پارٹی کے محتاج نظر آتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے امیدوار اسلم گل کا اس حلقہ میں ذاتی ووٹ بینک بھی نہیں ہے۔ پارٹی کی موجود ساکھ کے بل بوتے پر وہ تنہا کونسلر کا الیکشن بھی نہیں جیت سکتے۔ ان کا اپنا ذاتی کوئی ووٹ بینک نہیں ہے۔ اس حلقہ میں پیپلزپارٹی کا ایسا کوئی بھی لیڈر نہیں ہے جس کا کوئی ذاتی ووٹ بینک ہو۔ اسی لیے یہ 32ہزار ووٹ کسی کے ذاتی اثرورسوخ یا قبولیت کے ووٹ نہیں ہیں۔ یہ ووٹ پیپلزپارٹی کو ہی ملا ہے جیسے بھی ملا ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا تحریک انصاف کے ووٹر کی اکثریت کی سیکنڈ چوائس پیپلزپارٹی ہے؟ کیا جب بھی تحریک انصاف انتخابی میدان سے آؤٹ ہو گی تو اس کا ووٹر پیپلزپارٹی کو ووٹ دے دے گا۔
کسی حد تک پنجاب میں یہ بات حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک تحریک انصاف نے چرا لیا ہے۔ پیپلزپارٹی سے ہی زیادہ لوگ تحریک انصاف میں گئے ہیں۔ ن لیگ کا مخالف ووٹ بینک پہلے پیپلزپارٹی کے پاس تھا۔ اور اب تحریک انصاف کے پاس ہے۔ کیا یہ تحریک انصاف سے واپس پیپلزپارٹی کو جا سکتا ہے۔کیا پنجاب کے لوگ تحریک انصاف سے اتنے نا امید ہو گئے ہیں کہ وہ واپس پیپلزپارٹی کی طرف جانے کا سوچنا شروع کر دیں۔ کیا پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک واپسی کا سفر شروع کر رہا ہے۔
یہ سب عوامل اپنی جگہ لیکن لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ 32ہزار ووٹ چمک کا کمال ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف کے ٹیکنیکل ناٹ آؤٹ کے بعد اپنے لیے میدان صاف دیکھا۔ ورنہ اس سے قبل خوشاب کے ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی کے صرف اڑھائی سو ووٹ تھے۔ اور پنجاب کے باقی ضمنی انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی کی کارکردگی کوئی قابل قدر نہیں تھی۔ لیکن تحریک انصاف کے آوٹ ہونے کے بعد پیپلزپارٹی نے ضمنی انتخاب حلقہ 133میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا' جہاں پیسے کی ضرورت پڑی وہاں پیسہ بھی کھل کر لگایا۔
لاہور میں رہنے والے اور اس انتخاب کی کوریج کرنے والے سب صحافی جانتے ہیں کہ دو دو ہزار فی ووٹ اور پچاس ہزار میں انتخابی دفتر کا ایک فلیٹ ریٹ مقرر تھا۔ اس لیے میری رائے میں پیپلزپارٹی کے 32ہزار ووٹ اس کے کوئی ووٹ بینک کی بحالی نہیں ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ 32ہزار ووٹ لے کر سیاسی عزت بچا لی گئی ہے۔ جیسے کہ خوشاب کے انتخاب میں 250ووٹ لینے سے خراب ہو گئی تھی۔
لاہور کے حلقہ 133کے ضمنی انتخابات کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ نتائج کے بعد یہ بحث قابل غور کیا ہے کہ کیا واقعی پیپلزپارٹی لاہور میں اپنا کھویا ہوا ووٹ بینک واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی کو ملنے والے 32ہزار سے زائد ووٹ کیا واقعی اس کے ووٹ بینک کی بحالی کے علمبردار ہیں۔
کیا واقعی تحریک انصاف کی انتخابی عمل سے باہر رہنے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو اس کا کھویا ہوا ووٹ بینک واپس مل گیا ہے۔ کل کو جب تحریک انصاف انتخابی عمل میں موجود ہو گی تو کیا پیپلزپارٹی اپنے ووٹ بینک کو قائم رکھ سکے گی۔ کیا تحریک انصاف کی واپسی کے بعد پیپلزپارٹی پھر چند ہزار اور چند سو پر واپس آجائے گی۔ کیا اگلے کسی ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی وسطیٰ پنجاب میں دوبارہ اتنے ووٹ لے سکے گی۔
سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک کوئی آئیسولیشن میں نہیں ہوتا۔ یہ علاقوں تک محدود ہو سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ انتخابی حلقوں تک محدود نہیں ہوتا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک قومی اسمبلی کے حلقہ 133میں تو بحال ہو گیا ہے۔ لیکن 132اور 134میں بحال نہیں ہوا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے ساتھ والے حلقوں میں تو آپ کا ووٹ بینک زیرو ہے لیکن اس ایک حلقے میں ووٹ بینک بحال ہو گیا ہے۔
پھر حلقہ 133میں امیدوار بھی کوئی ایسا نہیں تھا جس کا انفرادی ووٹ بینک اس قدر مضبوط ہو کہ اس نے پارٹی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی ذاتی طاقت کی وجہ سے اتنے ووٹ لے لیے ہیں۔ پنجاب میں جیتنے والے انتخابی گھوڑوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں اپنے ذاتی ووٹ بینک کی وجہ سے جیت جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک مقبول پارٹی کے محتاج نظر آتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے امیدوار اسلم گل کا اس حلقہ میں ذاتی ووٹ بینک بھی نہیں ہے۔ پارٹی کی موجود ساکھ کے بل بوتے پر وہ تنہا کونسلر کا الیکشن بھی نہیں جیت سکتے۔ ان کا اپنا ذاتی کوئی ووٹ بینک نہیں ہے۔ اس حلقہ میں پیپلزپارٹی کا ایسا کوئی بھی لیڈر نہیں ہے جس کا کوئی ذاتی ووٹ بینک ہو۔ اسی لیے یہ 32ہزار ووٹ کسی کے ذاتی اثرورسوخ یا قبولیت کے ووٹ نہیں ہیں۔ یہ ووٹ پیپلزپارٹی کو ہی ملا ہے جیسے بھی ملا ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا تحریک انصاف کے ووٹر کی اکثریت کی سیکنڈ چوائس پیپلزپارٹی ہے؟ کیا جب بھی تحریک انصاف انتخابی میدان سے آؤٹ ہو گی تو اس کا ووٹر پیپلزپارٹی کو ووٹ دے دے گا۔
کسی حد تک پنجاب میں یہ بات حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک تحریک انصاف نے چرا لیا ہے۔ پیپلزپارٹی سے ہی زیادہ لوگ تحریک انصاف میں گئے ہیں۔ ن لیگ کا مخالف ووٹ بینک پہلے پیپلزپارٹی کے پاس تھا۔ اور اب تحریک انصاف کے پاس ہے۔ کیا یہ تحریک انصاف سے واپس پیپلزپارٹی کو جا سکتا ہے۔کیا پنجاب کے لوگ تحریک انصاف سے اتنے نا امید ہو گئے ہیں کہ وہ واپس پیپلزپارٹی کی طرف جانے کا سوچنا شروع کر دیں۔ کیا پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک واپسی کا سفر شروع کر رہا ہے۔
یہ سب عوامل اپنی جگہ لیکن لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ 32ہزار ووٹ چمک کا کمال ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف کے ٹیکنیکل ناٹ آؤٹ کے بعد اپنے لیے میدان صاف دیکھا۔ ورنہ اس سے قبل خوشاب کے ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی کے صرف اڑھائی سو ووٹ تھے۔ اور پنجاب کے باقی ضمنی انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی کی کارکردگی کوئی قابل قدر نہیں تھی۔ لیکن تحریک انصاف کے آوٹ ہونے کے بعد پیپلزپارٹی نے ضمنی انتخاب حلقہ 133میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا' جہاں پیسے کی ضرورت پڑی وہاں پیسہ بھی کھل کر لگایا۔
لاہور میں رہنے والے اور اس انتخاب کی کوریج کرنے والے سب صحافی جانتے ہیں کہ دو دو ہزار فی ووٹ اور پچاس ہزار میں انتخابی دفتر کا ایک فلیٹ ریٹ مقرر تھا۔ اس لیے میری رائے میں پیپلزپارٹی کے 32ہزار ووٹ اس کے کوئی ووٹ بینک کی بحالی نہیں ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ 32ہزار ووٹ لے کر سیاسی عزت بچا لی گئی ہے۔ جیسے کہ خوشاب کے انتخاب میں 250ووٹ لینے سے خراب ہو گئی تھی۔