گِل صاحب تُسی تے کمال کر دِتا اے

اسلم گل کی جیت وسطی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی ’بغیر ڈرائنگ روم والی‘ نئی سیاسی مہم کی بنیاد بنے گی


منصور ریاض December 07, 2021
اسلم گل کی جیت وسطی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی نئی سیاسی مہم کی بنیاد بنے گی۔ (فوٹو: فائل)

منہ میں خاک! مبادا، عنوان سے کہیں آپ موقع بے موقع اسکرینوں کی بے نور رونق اور پیراشوٹرز کی لڑی میں پروئے ایک اور دانے شہباز گِل کو نہ سمجھ لیں، تو سیدھی بات اس دور میں بچے کچھے جیالوں کے سرخیل اسلم گِل کی ہوجائے، جنہوں نے لاہور کے ضمنی الیکشن میں اپنی جیالانہ کیمپین اور اس کے بعد آنے والے نتیجے سے وسطی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی ہے۔ وہی تنِ بے جاں جس کی قبر پر چوٹی کے تجزیہ کار مٹی ڈال کر فاتحہ بھی پڑھ چکے تھے، اور جس کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط اور اپنی اہلیہ کے ووٹ دیکھ کر اعتزاز احسن جیسے دانشوروں کے حواس خبط ہوجایا کرتے تھے، وہاں سے مسلم لیگ ن کی آسان اور ہمدردی والی سیٹ سے ایک کلوز فائٹ دے کر ثابت کیا ہے کہ سیاسی انہونی آج بھی نظریاتی کارکن اور گلی محلے کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔

2012 کے سینیٹ الیکشن تھے اور گیلانی کی حکومت۔ جیسا کہ پیپلزپارٹی، چاہے منہ دکھائی کےلیے ہی کیوں نہ، دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں کارکنوں کو اکاموڈیٹ کرتی رہی ہے، تو اس الیکشن میں بھی پنجاب کے سینیٹ انتخابات میں ایک جیالے اسلم گِل کو لے کر آئے، جس کا جیتنا نمبر گیم کے حساب سے بالکل یقینی تھا۔ لیکن جب نتیجہ آیا تو حساب کتاب کے ماہر آغے اور سردارے تو جیت گئے اور نظریاتی کارکن سمجھا جانے والا منہ دیکھتا رہ گیا۔ میڈیا کے طفیل جب حکومتی اور 'کارکنوں' کی جماعت پر طعن ہوئی، تو گیلانی نے اسلم گِل کو حکومتی مشیر بنادیا۔ یہیں سے پارٹی کے کارکنوں کےلیے اسلم گِل مثال بن گئے۔ اس کے بعد پنجاب میں طوفانی جھکڑوں کےبعد جماعت کی ٹوٹل صفائی میں بھی کھمبا نہیں چھوڑا اور پھر نئی تنظیم سازی میں صوبائی اہم عہدہ بھی پایا۔

اگرچہ نتیجے کے اعتبار سے لاہور کے ضمنی انتخاب میں بڑا اپ سیٹ تو نہیں ہوا، لیکن پارٹی کے اندر اور باہر سب لوگ اس بات پر متفق ہوں گے کہ گِل نے اپنی جماعت کو ایسا بریک تھرو لے کر دیا ہے، جس پر اوپر سے نیچے پوری جماعت کی نظریں تھیں، اور یہی اب وسطی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی 'بغیر ڈرائنگ روم والی' نئی سیاسی مہم کی بنیاد بنے گا۔

اگرچہ یہ مبہم سی امید ہوچلی تھی کہ قریباً دس سال پہلے کی 'بجلی کش' زرداری حکومت کو پنجاب کے عوام بھلا کر اور موجودہ دور کی 'مہنگائی پلس' حکومت کو یاد (کوس) کرکے لیفٹسٹ قومی جماعت کی یہاں سانس تو بحال کروا سکتے ہیں، لیکن اتنی سرعت اور خاص کر مسلم لیگ ن لاہور کے صدر کے انتقال سے خالی ہوئی نشست پر ضمنی الیکشن میں یہ امید بروئے کار آنا نہ ہونے کے برابر ہی تھا، جس کو گِل نے ایک اچھی مستند سینٹرل پالیسی ڈور ٹو ڈور مہم، قیمے والے نانوں کو گھی کا تڑکا لگاتے ہوئے دکھا کر کافی حد تک پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

قیمے والے نانوں کے مقابلے میں جیالوں کی طرف سے آلو والے نان تو یقیناً پیش کیے ہوں گے اور ساتھ میں مولویوں کو حلوہ بھی، اور ادھر حکومت بھی اپنا چیمہ آؤٹ کروا چکی تھی۔ لیکن اپنے ہی گڑھ میں مسلم لیگ ن کے ووٹوں کا اتنا کم ہونا اور پیپلز پارٹی کے اتنے ووٹ بڑھ جانا ان کےلیے سوچنے کا مقام ہے کہ انتقال پر خالی ہونے والی، حکومت کے ٹیکنیکل ناک آؤٹ اور محفوظ نشست کے باوجود نتائج ان کی توقع کے مطابق نہیں آئے۔ اس سے پہلے سیالکوٹ میں بھی ہمدردی والی سیٹ تحریک انصاف سے ہار چکے ہیں۔ اوپر سے نیچے خاندانوں کی سیاست پارٹی میں اب کم فائدہ دیتی نظر آرہی ہے۔ جس طرح لیڈرز ایک ہی خاندان کے ہوتے ہیں، اسی طرح نشستیں بھی ایک ہی خاندان میں گھومتی پھرتی ہیں، اور نظریاتی بیانیے والے لوگ اس پر 'چوہٹے' لیتے رہتے ہیں۔

اب یقیناً 'پنجاب میں پیپلز پارٹی کی واپسی' کے عنوان پر تجزیہ کاروں کے منہ کھل جائیں گے، ٹاک شوز میں بحث ہوگی۔ پارٹی کے اندر بھی ایک نئے سرے اور ایک نئی توانائی کے ساتھ بلاول تلے جارحانہ پنجاب مہم کی حمایت کی جائے گی۔ یہ بھی سمجھا جارہا ہے کہ حکومتی جماعت بزدار اور مہنگائی کے ہاتھوں اصل میں غیر تکنیکی ناک آؤٹ ہونے جارہی ہے، تو خالی جگہ پر جہاں لبیک کی 'گونج' ہی سنائی دے رہی ہے، اس کو کسی طرح پُر کیا جائے۔

یہ تو خیر آنے والے دنوں میں پتا چلے گا لیکن گِل نے اس بات کی یاددہانی ضرور کروائی ہے کہ کوڑے کھانے، جیل جانے اور گلی کوچے میں لڑنے والے، اسکرینوں پر جھاگ اُڑاتے، گالیاں دیتے، سوٹ ٹائی پہنے بیٹھنے والوں سے ایک قدم آگے جاسکتے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں میدان کے کھلاڑی، جس کو گِل نے سادہ نان کے ساتھ لسی پی کر اور مونچھوں پر ہاتھ پھیر کر ثابت کیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں