روہنگیا پناہ گزینوں کا فیس بک کیخلاف 150 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ

فیس بک روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز مواد کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام رہا جو اشتعال کا باعث بنا


ویب ڈیسک December 07, 2021
ہرجانے کا دعویٰ کیلی فورنیا کی عدالت میں دائر کیا گیا ہے، فوٹو: فائل

ISLAMABAD: میانمار کے روہنگیا پناہ گزینوں نے فیس بک پر 1 کھرب 50 ارب ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق میانمار کے روہنگیا پناہ گزینوں نے کیلی فورنیا کی عدالت میں فیس بک کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فیس بک پر نفرت انگیز مواد اور منافرت پر مبنی پوسٹوں کی وجہ سے روہنگیا برادری کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

روہنگیا پناہ گزینوں کی جانب سے قانون دان فرموں ایڈلسن پی سی اور فیلڈز پی ایل ایل کی درخواست میں استدلال کیا گیا ہے کہ سماجی رابطے ویب سائٹ نفرت آمیز پروپیگنڈے کو روکنے میں بری طرح بری طرح ناکام رہی جس کا خمیازہ معصوم جانوں کو بھگتنا پڑا۔

قانونی فرموں نے شکایت میں مزید کہا ہے کہ اگر فیس بک امریکی قانون کی سیکشن 230 کو اپنے دفاع کے طور پر استعمال کرتی ہے تو ہم اپنے مقدمے میں میانمار کے قانون کے اطلاق کی کوشش کریں گے۔

دوسری جانب دیگر قانونی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ امریکی عدالتیں ایسے معاملات پر غیر ملکی قانون کا اطلاق کر سکتی ہیں جہاں کمپنیوں کی طرف سے مبینہ نقصانات اور سرگرمیاں دوسرے ممالک میں ہوئیں۔

ادھر فیس بک انتظامیہ نے رائٹرز کو بتایا کہ میانمار میں غلط معلومات اور نفرت کو روکنے میں سست روی ضرور ہے تاہم فیس بک کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزیوں پر اکاؤنٹس کو معطل کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

فیس بک کا مزید کہنا تھا کہ یکم فروری کو فوجی بغاوت کے نتیجے میں شہریوں پر تشدد کے بعد فوجی قیادت کے فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹس پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے مزید کہا کہ امریکی انٹرنیٹ قوانین کی سیکشن 230 کے باعث صارفین کے پوسٹ کیے گئے مواد کی ذمہ داری ہم پر نہیں کیوں کہ یہ قانون کہتا ہے کہ آن لائن پلیٹ فارم تیسرے فریق کے ذریعے پوسٹ کیے گئے مواد کا ذمہ دار نہیں۔

خیال رہے کہ عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی تحقیقاتی رپورٹ میں بھی اس بات کا حوالہ دیا گیا ہے کہ امریکی شکایت میں فیس بک پر روہنگیا اور دیگر مسلمانوں پر حملہ کرنے والی پوسٹیں، تبصروں اور تصاویر کی ایک ہزار سے زائد مثالیں ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں