آئی ایم ایف سے مذاکرات

حکومت کو توقع تھی کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت بہت سے لوگ اپنی چھپائی گئی جائیدادوں کا اندراج کرائیں گے


Editorial February 09, 2014
حکومت کو توقع تھی کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت بہت سے لوگ اپنی چھپائی گئی جائیدادوں کا اندراج کرائیں گے. فوٹو: فائل

دبئی میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب رہے' پاکستانی حکومت کی کارکردگی سے عالمی ادارہ مطمئن ہے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان طے پانے والے بعض اہداف پورے نہ ہونے کے حوالے سے پیدا ہونے والے اختلافات کے باعث پاکستان اور آئی ایم ایف جائزہ مشن کے درمیان دبئی میں تکنیکی سطح کے مذاکرات کا پہلا دور ختم ہونے کے بعد پالیسی سطح کے مذاکرات ہوئے۔ آئی ایم ایف نے وزیراعظم کی طرف سے گرین انویسٹمنٹ اسکیم کے تحت اعلان کردہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ایمانداری سے ٹیکس ادا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کے لیے رکاوٹ قرار دیا ہے۔ چند ماہ قبل وفاقی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ افراد جنہوں نے اپنی جائیداد اور دولت کو ظاہر نہیں کیا اور ٹیکس ادا نہیں کر رہے، وہ اپنی اس جائیداد کا اندراج کرایں' ایسی صورت میں ان سے ان کی آمدن کے ذرایع کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی اور نہ ان سے اس حوالے سے ٹیکس جرمانے وصول کیے جائیں گے۔

حکومت کو توقع تھی کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت بہت سے لوگ اپنی چھپائی گئی جائیدادوں کا اندراج کرائیں گے اور اس طرح ان کے ٹیکس نیٹ میں آنے سے مستقبل میں حکومت کی ٹیکس آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ بادی النظر میں آمدن بڑھانے کے لیے حکومت کا یہ طریقہ کار درست معلوم ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں ٹیکس چوری کا کلچر بہت مضبوط ہو چکا ہے۔ لازمی امر ہے کہ جن لوگوں نے اپنی جائیدادیں چھپا رکھی ہیں اور ٹیکس سے بچنے کے لیے انھیں اپنے نام سے ظاہر نہیں کرتے ان کا شمار امراء میں ہوتا ہے ان میں سے بہت سے بااثر افراد ہوں گے جس کے باعث سرکاری اہلکار ان پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ دوسری جانب کرپشن اور رشوت کے کلچر کی جڑیں بھی بہت مضبوط ہو چکی ہیں۔ سرکاری اہلکار رشوت لے کر ٹیکس چوری کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں اس طرح وہ دولت جو حکومت کے خزانے میں جانی چاہیے' سرکاری اہلکاروں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ سرکاری اہلکار اور قانونی مشیر ہی کسی فرد کو ٹیکس چوری کے رستوں سے آگاہ کرتے اور انھیں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ دوسری جانب جاگیردار' بااثر سیاسی افراد' قبائلی سردار اور وڈیرے ٹیکس ادا نہیں کرتے جب کہ ان لوگوں کا لائف اسٹائل کسی شاہانہ انداز سے کم معلوم نہیں ہوتا۔

ان کے پاس بڑی بڑی کوٹھیاں' درجنوں گاڑیاں موجود اور آئے دن وہ غیر ملکی دورے کرتے رہتے ہیں۔ اگر حکومت بلا امتیاز ان بااثر افراد کی جائیدادوں کی چھان بین کریں اور ان سے ٹیکس وصول کرے تو اس سے حکومت کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ سرکاری تنخواہ دار طبقہ حکومت کو ٹیکس ادا کر رہا ہے جس کی آمدن اس کی ضروریات کے مقابل پہلے ہی کم ہے ۔ عوامی حلقوں کے مطابق اعلی عہدوں پر فائز سرکاری اور سیاسی افراد رشوت اور کرپشن سے کمائی ہوئی دولت کو بیرون ملک بینکوں میں مختلف ناموں سے جمع کرا دیتے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق بیرون ملک بینکوں میں پاکستانیوں کا اربوں ڈالر کا کالا دھن پڑا ہے۔ حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے اگر یہ دولت ملک واپس لائی جا سکے تو اس سے جہاں حکومت کی آمدن میں اضافہ ہو گا وہاں ملک میں ترقی اور خوشحالی کے نئے در وا ہو سکتے ہیں۔ اس تناظر میں آئی ایم ایف کا یہ اعتراض درست معلوم ہوتا ہے کہ ٹیکس چوروں کو معافی دینے سے ایمانداری سے ٹیکس ادا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

دبئی میں ہونے والے حالیہ مذاکرات میں آئی ایم ایف جائزہ مشن نے وزیر خزانہ پر زور دیا کہ ٹیکس مراعات اور چھوٹ کے ایس آر اوز مارچ سے واپس لینا شروع کیے جائیں جب کہ پاکستانی ٹیم کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں میں چھوٹ کے ایس آر اوز واپس لینے کا سلسلہ نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ کے ذریعے جولائی 2014ء سے شروع کیا جائے گا اور تین سال کے دوران بتدریج ان ایس آر اوز کو واپس لیا جائے گا۔ معاشی ماہرین کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں کالا دھن سفید دھن سے کئی گنا زیادہ ہے اور یہ حکومت اور ملک کے کسی کام نہیں آ رہا۔ اگر اس کالے دھن کو سفید دھن میں تبدیل کر کے ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تو حکومت کی آمدن میں اتنا اضافہ ہو جائے گا کہ اسے غیر ملکی قرضہ لینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ دوسری جانب کچھ معاشی ماہرین سخت موقف اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت اس کالے دھن کو ضبط کرے اور ان چور راستوں کا انسداد کرے جس سے کالا دھن کمایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ٹیکس نیٹ کا دائرہ امرا اور بااثر افراد تک وسیع کرے اور ان سے ایمانداری سے ٹیکس وصول کیا جائے تو حکومت کو اس سے بھی اربوں روپے حاصل ہو سکتے ہیں۔

یہاں بظاہر قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں مگر عملاً صورتحال اس سے مختلف ہے، بااثر سیاسی افراد ہر قسم کی حکومتی رعایت اور سہولت سے مستفیض ہو رہے ہیں مگر اس کے صلے میں وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے ۔ معاشی ماہرین بھی اب حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف سے قرض مانگنے کے بجائے ٹیکس کا دائرہ کار امرا' جاگیردار اور بااثر سیاسی طبقے تک وسیع کرے۔ حکومت اپنی آمدن میں اضافے کے لیے نجکاری کا رستہ اپنا رہی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کو بتایا کہ حکومت نجکاری سے 170 ارب روپے کا نان ٹیکس ریونیو حاصل کرے گی۔ اب تو حکومت بعض اداروں کی نجکاری سے رقم حاصل کرلے گی مگر کیا ہر سال اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت اسی طرح باری باری تمام اداروں کو فروخت کرتی چلی جائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ نجکاری کے بجائے حکومت ان سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنا کر انھیں منافع بخش بنائے اور نجی شعبے کو مراعات دے کر ایسے شعبوں میں سرمایہ کاری پر راضی کیا جائے جن میں حکومت سرمایہ کاری نہیں کر رہی ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق دبئی میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب بنانے کے لیے وفاقی کابینہ کی اکنامک کوارڈینیشن کمیٹی نے بجلی صارفین کے لیے ہر قسم کی سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ کیا اس سے حکومت کو دو کھرب روپے سے زائد کی بچت ہو گی۔ سبسڈی ختم ہونے سے گھریلو صارفین کے علاوہ زرعی' کمرشل اور صنعتی شعبے پر بھی مالی دبائو بڑھے گا اور اس سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہو گا۔ حکومت بجلی صارفین کے لیے سبسڈی ختم کرنے کے بجائے اپنے غیر ضروری اخراجات میں کمی کرکے اس مسئلے کو حل کر سکتی ہے۔ حکومت سرکاری اداروں میں جاری کرپشن' بجلی اور ٹیکس چوری ہی کا انسداد کر لے تو اس کی آمدن میں اتنا اضافہ ہو سکتا ہے کہ نہ اسے سبسڈی ختم کرنے کی ضرورت درپیش آئے گی اور نہ آئی ایم ایف سے قرضہ مانگنے کی نوبت۔ مسئلہ جاری نظام میں موجود سقم کو دور کرنے اور ایمانداری کے کلچر کو مضبوط بنانے کا ہے' حکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں