مولانا محمد علی جوہر تاریخ کا مستقل عنوان

جہاں میں اہل ایماں صورت ِخورشید جیتے ہیں۔


محفوظ النبی خان December 12, 2021
جہاں میں اہل ایماں صورت ِخورشید جیتے ہیں۔فوٹو : فائل

مولانا محمد علی جوہر کی راہ نمائی میں برصغیر جنوبی ایشیا میں چلنے والی تحریک خلافت 20 ویں صدی میں اپنی نوعیت کی منفرد مزاحمتی تحریک تھی، جس کو پر امن طور پر جمہوری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے منظم کیا گیا تھا۔

اس تحریک کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس دور کے انگریز وائسرائے کو برطانوی وزیراعظم لائٹ جارج کو برقی پیغام کے ذریعے کہنا پڑ ا تھا کہ "اگر ترکوں کے حوالے سے برطانوی پالیسی تبدیل نہ ہوئی تو ہندوستان میں ہماری لیے حکومت کرنا مشکل ہوجائے گا"۔

تحریک کی مقبولیت اور عوام کی شرکت کے جائزہ کے لیے تحریک پاکستان کے بے تیغ سپاہی محمود علی کا یہ بیان اہمیت رکھتا ہے کہ تحریک خلافت میں پورے ہندوستان جس میں ان کا صوبہ آسام بھی شامل تھا، کی مسلم آبادی نے اپنے گلیوں کے موڑ پر بکس رکھ دیے تھے جن میں وہ روز انہ ایک مٹھی چاول یا ایک مٹھی آٹا تحریک کے فنڈ میں اپنے حصے کے طور پر شامل کیا کرتے تھے۔

واضح رہے کہ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد خلافت کا ادارہ تحلیل ہوگیا تھا جس کی بنا پر برصغیر میں خلافت کی تحریک ازخود وقتی طور پر غیرضروری ہوگئی تھی لیکن ناکام نہیں ہوئی تھی۔

مولانا محمد علی جوہر کی مقناطیسی شخصیت کی قیادت میں خلافت عثمانیہ کی بقاء کے لیے جدوجہد کو اس طور پر ایک کام یاب کاوش قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس کے دباؤ کے باعث ترکی کا جغرافیائی وجود باقی رہا اور اس ملک کا موجودہ وجود بھی برصغیر کی تحریک خلافت کا ثمر قرار دیا جا سکتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں اس میں شامل مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے بیشتر ممالک میں یا تو مقامی حکومتیں قائم ہوگئیں یا پھر وہ برطانیہ اور فرانس کے زیرنگیں آگئے۔

مولانا محمد علی جوہر کی اعلٰی شخصیت کے خدوخال کے اظہار کے لیے بین الاقوامی شہرت یافتہ برطانوی مورخ کو پورے براعظم یورپ میں کوئی ایک شخصیت بھی ایسی نظر نہ آئی جس کے ذریعے مولانا جوہر کی مثال دی جاسکتی، چناںچہ اس معروف تاریخ داں نے مولانا محمد علی کی خطابت کو "برک" ان کی تحریر کو"میکالے" اور ان کی جرأت و حوصلے کو "نپولین" سے تشبیہ دی تھی۔ بر صغیر میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق اجاگر کرنے اور اس تناظر میں عوام کو بیدار کرنے میں مولانا محمد علی جوہر کا کردار تاریخ میں نمایاں نظر آتا ہے۔

وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر رہے۔ ان کی تحریک نے استعمار کے خلاف عوام میں شعور پیدا کیا۔ ان کی زیرقیادت عوام نے نوآبادیاتی نظام کو چیلینج کیا اور خود مسلمانوں میں مسلم قومیت کی بنیاد پر قومی تشخص کو فروغ حاصل ہوا جو بعد ازآں تحریک پاکستان میں مسلمانوں کے متحرک ہونے کا سبب بنا۔

تحقیق و مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کام یابی میں جہاں ایک جانب قائداعظم محمد علی جناح کے تدبروفراست کا اہم عنصر شامل ہے وہیں دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ کی عوامی مقبولیت اور اس کو ایک نتیجہ خیز تحریک بنانے میں خلافتی راہ نماؤں اور کارکنوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔

1937 کے بعد مسلم لیگ کے احیاء میں نئی روح پیدا ہوئی جب وہ چوہدری خلیق الزماں، عبد اللہ ہارون، مولانا ظفر علی خان، سردار عبدالرب نشتر، مولانا عبدالحمید خاں بھاشانی جیسے متعدد راہ نماؤں اور کارکنوں، جنہوں نے تحریک خلافت میں اپنی جاںفشانی کا لوہا منوایا تھا، نے قائداعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور خود مولانا محمد علی جوہر کی شریک حیات اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی بھی قائد اعظم کی قیادت میں یک جا ہوگئے۔

تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ خلافتی راہ نماؤں اور کارکنوں کی مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل آل انڈیا مسلم لیگ محض اشرافیہ کی حد تک محدود تھی۔ اس حقیقت کا ذکر شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے بھی قائداعظم کے نام اپنے خطوط میں نہایت دردمندی کے ساتھ کیا ہے۔

ان کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کو قائداعظم کی راہ نمائی میں ایک عوامی جماعت بنانے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کے اقتصادی مسائل کے حل کی جانب توجہ کو وہ ناگزیر سمجھتے تھے۔ چناںچہ 1937 کے انتخابات میں ناکامی کے بعد جب آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو مسلمانوں کے مسائل کی جانب بھرپور توجہ دی جس کے نتیجے میں محض 3 سال کے عرصے میں مارچ 1940 میں لاہور کے عام اجلاس میں مسلم لیگ کو برصغیر کے آئینی معاملات اور مسلمانوں کے حقوق کو منظم اور مربوط طور پر برطانوی حکم رانوں کے سامنے اپنے موقف کو اجتماعی طور پر کامیابی کے ساتھ پیش کرنے کا موقع ملا۔

مولانا محمد علی جوہر کی برصغیر میں ذاتی مقبولیت اور شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1937 میں ہندوستان کے مختلف شہروں میں قائد اعظم کی آمد کے موقع پر جو پوسٹرز آویزاں کئے گئے تھے ان پر قائد اعظم کے ساتھ مولانا محمد علی جوہر کی تصویر اس تحریر کے ساتھ موجود تھی "ملا تخت سیاست۔ محمد علی سے محمد علی کو۔"

بزم بانیان پاکستان کے ایک شریک چوہدری خلیق الزماں کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ سے مولانا محمد علی جوہر کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ جب وہ خود ذکرِنبیؐ کرتے یا ان کے سامنے کوئی اور رسالت مآب ﷺ کا تذکرہ کرتا تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے، جس کا سلسلہ تادیر جاری رہتا تھا۔ چوہدری صاحب نے مولانا کی جرأت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ وہ چتوڑ کے قلعے میں نظربند تھے اس موقع پر ملاقات میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اس امر کا تند ہی سے جائزہ لینا چاہیے کہ ہندوستان سے برطانوی راج کے خاتمے کے لیے ہم کس طرح طاقت کا استعمال کرسکتے ہیں۔

مولانا محمد علی جوہر کی آزادی و حریت سے والہانہ وابستگی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ آزادی کے علم بردار ہیں خواں وہ کسی اسلامی ملک کی ہو یا کفرستان کے کسی خطے کی۔ جمہور کی رائے کا احترام ان کی سرشت میں شامل تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اگر جمہور کی اکثریت یہ اعلان کرے کہ دو جمع دو تین ہوتے ہیں تو میں ان کی رائے کا احترام کروں گا حالاںکہ علم ریاضی کا کوئی کلیہ اس جواب کو تسلیم نہیں کر تا۔

علامہ اقبال کی طرح مولانا جوہر بھی نوجوانوں میں عقابی روح کی بیداری اور اس کے ذریعے اپنی منزل آسمانوں کی بلندیوں پر دیکھنے کے آرزومند تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ نوجوانوں میں اس انقلابی روح کی بیداری کے لیے ایک انقلابی درس گاہ کی ضرورت ہوتی ہے، چناںچہ انہوں نے ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں "جامعہ ملیہ" کے نام سے یونیورسٹی قائم کی تھی۔ دنیا نے دیکھا کہ گذشتہ سال جامعہ ملیہ کے طلبہ نے کس حوصلے اور جرأت سے سیاسی جبر کا مقابلہ کیا۔ یہ مولانا محمد علی جوہر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے مترادف ہے۔

مسلمانوں کے اتحاد "پین اسلامزم" کے حوالے سے خصوصاً 19ویں اور 20 ویں صدی میں علامہ سید جمال الدین افغانی کے ساتھ مولانا کا نام اور ان کے کارنامے تاریخ کے اوراق پر درخشاں ستارے کی طرح جگمگاتے رہیں گے۔ مولانا محمد علی "حجاز مقدس" کے تحفظ اور خدمت کو پورے عالم اسلام کا فریضہ سمجھتے تھے اور اسی لیے معتمر عالم اسلامی کے قیام کے موقع پر سعودی سلطنت کے بانی عبد العزیز ابن سعود اور عالم اسلام کے دیگر اکابرین کے روبرو انہوں نے اپنے اس موقف کا اظہار کیا تھا جو تاریخ میں رقم ہے۔

مولانا محمد علی جوہر 4 جنوری1931 کو برطانوی حکومت کی جانب سے منعقدہ گول میز کانفرنس میں یہ اعلان کرنے کے بعد کہ وہ"آزادی کا پروانہ حاصل کیے بغیر غلام ملک میں جانا پسند نہیں کریں گے۔" اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور ارض فلسطین میں واقع مسلمانوں کے تیسرے بڑے مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ کے جلو میں اور نبیوں کے جھرمٹ میں ابدی نیند سوگئے۔

ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر

یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں