اور میں گونگا ہو گیا

ایک نہیں بلکہ کئی ناگہانی آفتیں ہمیں بیٹھے بٹھائے گھیر لیتی ہیں

atharqhasan@gmail.com

ایک نہیں بلکہ کئی ناگہانی آفتیں ہمیں بیٹھے بٹھائے گھیر لیتی ہیں یا ہم ازخودان میں گھر جاتے ہیں ۔ شاید ہماری قسمت میں یہی لکھا ہے کہ ہم پر آفتیں نازل ہوتی رہیں کیونکہ من حیث القوم ہمارے اعمال اسی قابل ہیں۔ میں عموماً ایسی تحریر نہیں لکھتا جس میں مایوسی ہو لیکن کیا کیا جائے، ہم نہ چاہتے ہوئے بھی مایوسیوں اور اندھیروں کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

دنیا میں ہماری شہرت پہلے سے ہی ایک شدت پسند ملک کی ہے جس کو ہم اکثر ثابت بھی کرتے رہتے ہیں۔ چند ماہ نہیں گزرتے کہ ہم اپنی شدت پسند شہرت کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ انسانیت سوز واقعات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ اور کھیل ایک مدت سے اس ملک میں جاری ہے اور اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہر مکتبہ فکر نے اس میں اپنا حصہ بقدر جسہ ضرور ڈالا ہے۔ اسلام روداری اور مساوات کا دین ہے جس میں شدت کا دور دور تک نام و نشان تک نہیں ہے بلکہ ہر جگہ برداشت کی تلقین کی گئی ہے، دوسرے مذاہب کا احترام اسلام کا وہ بنیادی وصف ہے جس کی غیر اسلامی دنیا ہمیشہ معترف رہی ہے ۔

ہر ریاست اور اس کے شہریوں کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے پاکستانی عوام بھی ایک الگ اور جداگانہ مزاج رکھتی ہیں، ہم نے ایک علیحدہ وطن کے لیے بہت قربانیاں بھی دی ہیں لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ برصغیر کی مسلمان آبادی جو ایک نئے ملک پاکستان کی صورت میں آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوئی وہ آزادی کے بعد ایسے لوگوں کا شکار بن گئی جن کی سوچ و فکر پر تشدد پسندی غالب تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا ۔ غیر محسوس طور پر عوام کو ایک ایسی سمت میں دھکیل دیا گیا جو خیر کے بجائے شر کا راستہ تھا اور یہی شر آج کا سب سے بڑا فتنہ بن چکا ہے۔

ہم دنیا کی نظروں میں ایک ایسی ریاست کا روپ دھار چکے ہیں جو دنیا میں دہشت گردی پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ہمارے حکمران لاکھ وضاحتیں دیتے پھریں اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے اقدامات کرتے رہیں لیکن ہماری باتوں اور اقدامات پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ ہمارے قول اور فعل کا تضاد واضح ہے جس کو دنیا دیکھ اور سمجھ رہی ہے۔ ایک طرف تو ایک مدت سے ہم امریکا کے اتحادی ہیں لیکن دوسری طرف وہی امریکا ہم پر اعتبار نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ افغانستان میں پاکستان نے ہماری مدد نہیں کی۔حالانکہ اس پرائی جنگ میں ہم نے ہزاروں شہیدوں کے خون سے اپنی سر زمین کو رنگین کیاہے مگر ہماری بد قسمتی ہے کہ ہماری قربانیوں کا صلہ دینے کو بیرونی دنیا تیار نہیں ہے۔


سیالکوٹ میں ہونے والے دل سوز اور دل خراش سانحہ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ تجریہ نگاروں نے اپنے اپنے انداز فکر کے مطابق اس پر بحث کی ہے۔ حکومتی نمایندوں اور عہدیداروں نے اس ماروائے عدالت قتل کے مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے کیے ہیں۔ سری لنکا کا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شہری جو روزگار کے سلسلے میں پاکستان میں مقیم تھا، اسے جس بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا اور پھر اس کی لاش کو سر عام جلایا گیا اس منظر کو دیکھ کر روح کانپ اٹھی ہے۔

ٹیلی فون پراس واقعہ کی بے شمار وڈیوز موصول ہوئی ہیں لیکن کسی ایک کو بھی دیکھنے کی ہمت نہ ہو سکی اور دیکھے بغیر پیغام کو ڈیلیٹ کر دیا۔ سر ی لنکن امن پسند اور ملنسار لوگ ہیں جنھوں نے اپنے ملک میں خانہ جنگی کا ایک طویل دور دیکھا ہے اور اس خانہ جنگی کے خاتمے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے سری لنکن شہری پاکستانیوں کو قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن آج کا حال مجھے معلوم نہیں کیونکہ جو سلوک ہم نے ان کے ایک شہری کے ساتھ کیا ہے، اس کے بعد خدشہ ہے کہ وہ شاید ہماری مہربانیوں کو بھول نہ جائیں۔ مجھے سن دو ہزار نومیں اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے سلسلے میں اخبار نویسوں کے ایک وفد کے ہمراہ سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا ۔

سری لنکا میں ہمارا قیام چند روزہ تھا جس کے دوران کولمبو سے سیاحتی مقام کینڈی کا سفر بھی شامل تھا، اس کے علاوہ ہمن ٹوٹا وغیرہ دوسرے شہروں میں بھی جانے کا اتفاق ہوا ۔ سری لنکا میں بھی سڑکوںکا حال ہمارے ملک جیسا ہی ہے لیکن قانون کی زبردست پابندی ہے۔ ایک مقررہ رفتار سے زیادہ تیزگاڑی چلانے پر ہماری تمام تر کوششوں اور بے صبرے پن کے باوجودڈرائیو رآمادہ نہ ہوا، اگر ہم میں سے کسی نے چلتی گاڑی میں سگریٹ سلگا لی تو اس نے فوراً گاڑی روک کر گاڑی سے باہر جا کر سگریٹ پینے کا اشارہ کیا۔

راستے میںبنے ڈھابوں پر ہم چائے پانی کے لیے گاڑی روکتے ،اول تو اس ڈھابے کا مالک پاکستانی تعارف کے بعد پیسے لینے سے انکار کر دیتا اور اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتاتا کہ پاکستان نے خانہ جنگی سے چھٹکارا پانے میں جس طرح ان کی مدد کی ہے، یہ چائے پانی اس کا ازالہ تو نہیں کر سکتامگر اس بات کا اظہار ضرور ہے کہ ہم پاکستان کو اپنا دوست سمجھتے ہیں اور پاکستانیوں کو اپنا بھائی۔ لیکن ہم نے اپنے سری لنکن بھائی کے ساتھ دن دیہاڑے اور بیچ چوراہے جو سلوک کیا ہے اس پر دنیا بھر میں ہمیں ملامت کا سامنا ہے ۔ برادرم عارف انیس لندن میں مقیم ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ میں لندن میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شریک تھا جس میں دو سری لنکن بھی شامل تھے ۔

آدھا گھنٹہ پاکستان کے شاندار کلچر، ثقافت اور وادیٔ سندھ کی تہذیب پر بولنے کے بعد ان میں سے ایک صاحب نے کھڑے ہو کر سیالکوٹ کے واقعے کی تصویر دکھائی اور میں گونگا ہو گیا۔ سارے الفاظ ختم ہو گئے اور منہ چھپا کے وہاں سے نکلنا پڑا۔ لگتا ہے دنیا میں دو چار قومیں جو ہمیں جوتے مارنے سے رہ گئی تھیں، اب ان کا وقت بھی آنے والا ہے۔ میں سر تا پا شرمندہ ہوں۔ جتنے مرضی پوچے لگا لیں ،خون کے دھبے دھلیں گے کئی برساتوں کے بعد۔
Load Next Story