سانحہ سیالکوٹ اور عدلیہ
سانحہ سیالکوٹ پر پوری قوم شرمندہ ہے
سانحہ سیالکوٹ پر پوری قوم شرمندہ ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کی بہت بدنامی ہوئی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پوری قوم نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔ تا ہم اب سوال یہ ہے کہ اس سانحہ سے پاکستان کو جونقصان ہوا ہے، اس کا ازالہ کیسے کیا جائے کہ نقصان کم سے کم ہو اور عالمی سطح پر یہ کیسے باور کرایا جائے کہ ہم ایک پر امن اور قانون پسند قوم ہیں۔ پاکستان میں انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رحجانات کو روکنے کے لیے بھی اقدمات کرنے چاہیے۔
ملک میں ایک عجیب بحث شروع ہو چکی ہے کہ انتہا پسندی کیسے شروع ہوئی۔ اس کا ذمے د ار کون ہے۔ لوگ 1953کے واقعات کا حوالہ دے رہے ہیں۔ کچھ 1974 کا حوالہ دے رہے ہیں۔ کچھ 1977کا حوالہ دے رہے ہیں۔ فیض آباد دھرنے کی بھی بات کر رہے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ بیج پاکستان کی اسٹبلشمنٹ نے اپنی سیاسی بالا دستی کے لیے بوئے ہیں اور آج پوری قوم اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ بہرحال میرے لیے یہ بحث اہم ضرور ہے لیکن اس کی فوری اہمیت نہیں ہے۔ فوری اہمیت اس بات کی ہے کہ اب انتہاپسندی سے باہر کیسے آیا جائے؟ اس رحجان کو روکا کیسے جائے؟
میری نظر میں انتہاپسندی کو ختم کرنے اور موجودہ بحران سے ہمیں صرف عدلیہ ہی نکال سکتی ہے۔ سیالکوٹ میں جو ہوا ہے ،اس سے باہر ہمیں صرف عدلیہ ہی نکال سکتی ہے۔ عالمی سطح پر ہماری جو بدنامی ہوئی ہے اس سے ہمیں باہر صرف عدلیہ ہی نکال سکتی ہے۔ اس وقت عدلیہ ہی ہماری نجات دہندہ بن سکتی ہے۔ ایسے واقعات آیندہ نہ ہوں اس کا سدباب بھی عدلیہ ہی کر سکتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ساری ذمے داری عدلیہ پر ہی آگئی ہے۔ حکومت کے پاس ان ملزمان کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ سزا تو عدلیہ نے ہی دینی ہے۔
عدلیہ کے ذمے داران کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر سانحہ سیالکوٹ کے ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت تشکیل دیں اور مقدمہ کا ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر ہو۔ اس کی نظیر بھی موجود ہے۔ قصور کی بچی زینب کا جب واقعہ ہوا تھا تو چیف جسٹس نے ا یسے ہی احکامات جاری کیے تھے۔ جیل میں ٹرائل ہوا تھا اور سات دن میں سزا ہو گئی تھی۔
اس مقدمہ میں ایک ہی ملزم تھا اس لیے سات دن میں سزا ہو گئی تھی۔ لیکن یہاں ملزمان کی تعداد ایک سو سے زائد ہے۔ اس لیے وقت لگ سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ او ر چیف جسٹس پاکستان کو اس مقدمہ کے فوری ٹرائل کے لیے اقدمات کرنا ہوںگے۔
اس مقدمہ کو پاکستان کے معمول کے عدالتی نظام کے حو الے نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تاریخ پر تاریخ کا کلچر موجود ہے اورعدالتیں ہڑتال پر بھی رہتی ہیں۔ ویسے بھی ایسی اطلاعات آنا شروع ہو گئی ہیں کہ ملزمان کا کیس لڑنے کے لیے چندہ جمع ہونا شروع ہو گیاہے۔ ان کی جیل میں دیکھ بھال کے لیے کمبل اور دیگر اشیا بھی جمع ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ اس لیے عام اور کھلی عدالت میں ان کا ٹرائل کئی مسائل کا باعث بن سکتا ہے ۔ ویسے تو ان کی حمایت بھی جرم ہونا چاہیے۔ لیکن پاکستان میں مذہبی جذبات کی روشنی میں ایسا ممکن نہیں، کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ یہ ملزمان جب کھلی عدالتوں میں پیش ہو رہے ہوں اور لوگ ان پر پھول پھینک رہے ہوں تو ذرا سوچیں دنیا کیا پیغام لے گی۔
اس لیے ان ملزمان کا جیل میں ہی ٹرائل ہونا چاہیے اور ایک ماہ میں ان کی سزاؤں کو یقینی بنانا چاہیے۔ ان کو سخت سزائیں ہی دنیا کو یہ پیغام دیں گی کہ پاکستان میں ایسے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں اور ہم ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرتے۔ اس لیے جب تک انصاف نہیں ہوتا، پاکستان عالمی سطح پر کٹہرے میں ہی کھڑا رہے گا۔
کسی عدنان ملک کو تمغہ شجاعت دینے سے عالمی سطح پر پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہم بے شک عدنان کو ہیرو مان لیں لیکن دنیا اس کو ہیرو نہیں مانے گی۔ دنیا عدنان کو بھی تب ہی ہیرو مانے گی جب وہ عدالت میں گواہ کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر ملزمان کے خلاف گواہی دے گا اوراس کی گواہی پر ملزمان کو سخت سزائیں ہوں گی۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس واقعہ میں جہاں ایک طرف ملزمان ہیں وہاں موقع سے کتنے لوگ گواہی دینے کے لیے تیار ہیں۔ اگر کوئی گواہ ہی نہیں ملا تو یہ عدالت انھیں سزا کیسے دے گی ۔
سانحہ سیالکوٹ کے ملزمان کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ اس کیس میں جب انصاف ہوگا تب ہی معاشرے میں ڈر پیدا ہوگا۔ لیکن اگر ملزمان ہمارے روایتی عدالتی و قانونی نظام کی کمزوری کی وجہ سے بچ گئے یا مقدمات التوا کا شکار ہو گئے تو یہ بھی ایک طرح سے انتہاپسندوں کی حمایت ہوگی۔آج ملک میں اس سانحہ کے ذمے داروں کے خلاف ایک رائے عامہ موجود ہے۔ تحریک لبیک نے بھی ان کی مذمت کی ہے اور ملزمان سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں موجودہ صو رتحال میں اعلان لا تعلقی ہی کافی ہے۔ اس کا عملی اظہار بھی ہونا چاہیے۔
بہر حال میری چیف جسٹس پاکستان سے درخواست ہے کہ انھوں نے جیسے کراچی میں نسلہ ٹاور گرانے کے نہ صرف احکامات دیے ہیں بلکہ ان احکامات پر عملد رآمد بھی کرایا ہے اور نسلہ ٹاور کو ایک مثال بنایا ہے۔ آج سانحہ سیالکوٹ کے ملزمان کو فوری سزائیں دینے کے لیے بھی ایسے جیوڈیشل ایکٹوزم کی ضرورت ہے۔ اس معاملہ میں تاخیر پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی۔ ان ملزمان کے بچ جانے سے پاکستان میں قانون ہاتھ میں لینے اور مذہبی رحجان کی خطرناک حوصلہ افزائی ہوگی۔
شکر ہے پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان کو عدالت میں پیش بھی کر دیا ہے۔ قومی سطح پر اجلاس ہو رہے ہیں۔ ایک پریشانی نظر آرہی ہے۔ لیکن کیا حکومت ایسے سخت قوانین بنا سکتی ہے جہاں ایسے ملزمان کو فوری سزائیں مل سکیں۔ یہ درست ہے کہ حکومت نے ان کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن وہاں بھی مقدمات سالوں چلتے رہتے ہیں۔ اس لیے ایسی مذہبی انتہا پسندی کے لیے بھی خصوصی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ یہی وقت کی ضرورت ہے جہاں اس بات کو یقینی بنایا جا سکے نہ صرف ملزمان کو فوری سزائیں ملیں گی بلکہ اپیلوں کا بھی فوری فیصلہ ہوگا ورنہ ایسے مقدمات کی اپیلیں بھی برسوں تک زیر التوا رہی ہیں۔
ملک میں ایک عجیب بحث شروع ہو چکی ہے کہ انتہا پسندی کیسے شروع ہوئی۔ اس کا ذمے د ار کون ہے۔ لوگ 1953کے واقعات کا حوالہ دے رہے ہیں۔ کچھ 1974 کا حوالہ دے رہے ہیں۔ کچھ 1977کا حوالہ دے رہے ہیں۔ فیض آباد دھرنے کی بھی بات کر رہے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ بیج پاکستان کی اسٹبلشمنٹ نے اپنی سیاسی بالا دستی کے لیے بوئے ہیں اور آج پوری قوم اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ بہرحال میرے لیے یہ بحث اہم ضرور ہے لیکن اس کی فوری اہمیت نہیں ہے۔ فوری اہمیت اس بات کی ہے کہ اب انتہاپسندی سے باہر کیسے آیا جائے؟ اس رحجان کو روکا کیسے جائے؟
میری نظر میں انتہاپسندی کو ختم کرنے اور موجودہ بحران سے ہمیں صرف عدلیہ ہی نکال سکتی ہے۔ سیالکوٹ میں جو ہوا ہے ،اس سے باہر ہمیں صرف عدلیہ ہی نکال سکتی ہے۔ عالمی سطح پر ہماری جو بدنامی ہوئی ہے اس سے ہمیں باہر صرف عدلیہ ہی نکال سکتی ہے۔ اس وقت عدلیہ ہی ہماری نجات دہندہ بن سکتی ہے۔ ایسے واقعات آیندہ نہ ہوں اس کا سدباب بھی عدلیہ ہی کر سکتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ساری ذمے داری عدلیہ پر ہی آگئی ہے۔ حکومت کے پاس ان ملزمان کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ سزا تو عدلیہ نے ہی دینی ہے۔
عدلیہ کے ذمے داران کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر سانحہ سیالکوٹ کے ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت تشکیل دیں اور مقدمہ کا ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر ہو۔ اس کی نظیر بھی موجود ہے۔ قصور کی بچی زینب کا جب واقعہ ہوا تھا تو چیف جسٹس نے ا یسے ہی احکامات جاری کیے تھے۔ جیل میں ٹرائل ہوا تھا اور سات دن میں سزا ہو گئی تھی۔
اس مقدمہ میں ایک ہی ملزم تھا اس لیے سات دن میں سزا ہو گئی تھی۔ لیکن یہاں ملزمان کی تعداد ایک سو سے زائد ہے۔ اس لیے وقت لگ سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ او ر چیف جسٹس پاکستان کو اس مقدمہ کے فوری ٹرائل کے لیے اقدمات کرنا ہوںگے۔
اس مقدمہ کو پاکستان کے معمول کے عدالتی نظام کے حو الے نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تاریخ پر تاریخ کا کلچر موجود ہے اورعدالتیں ہڑتال پر بھی رہتی ہیں۔ ویسے بھی ایسی اطلاعات آنا شروع ہو گئی ہیں کہ ملزمان کا کیس لڑنے کے لیے چندہ جمع ہونا شروع ہو گیاہے۔ ان کی جیل میں دیکھ بھال کے لیے کمبل اور دیگر اشیا بھی جمع ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ اس لیے عام اور کھلی عدالت میں ان کا ٹرائل کئی مسائل کا باعث بن سکتا ہے ۔ ویسے تو ان کی حمایت بھی جرم ہونا چاہیے۔ لیکن پاکستان میں مذہبی جذبات کی روشنی میں ایسا ممکن نہیں، کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ یہ ملزمان جب کھلی عدالتوں میں پیش ہو رہے ہوں اور لوگ ان پر پھول پھینک رہے ہوں تو ذرا سوچیں دنیا کیا پیغام لے گی۔
اس لیے ان ملزمان کا جیل میں ہی ٹرائل ہونا چاہیے اور ایک ماہ میں ان کی سزاؤں کو یقینی بنانا چاہیے۔ ان کو سخت سزائیں ہی دنیا کو یہ پیغام دیں گی کہ پاکستان میں ایسے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں اور ہم ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرتے۔ اس لیے جب تک انصاف نہیں ہوتا، پاکستان عالمی سطح پر کٹہرے میں ہی کھڑا رہے گا۔
کسی عدنان ملک کو تمغہ شجاعت دینے سے عالمی سطح پر پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہم بے شک عدنان کو ہیرو مان لیں لیکن دنیا اس کو ہیرو نہیں مانے گی۔ دنیا عدنان کو بھی تب ہی ہیرو مانے گی جب وہ عدالت میں گواہ کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر ملزمان کے خلاف گواہی دے گا اوراس کی گواہی پر ملزمان کو سخت سزائیں ہوں گی۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس واقعہ میں جہاں ایک طرف ملزمان ہیں وہاں موقع سے کتنے لوگ گواہی دینے کے لیے تیار ہیں۔ اگر کوئی گواہ ہی نہیں ملا تو یہ عدالت انھیں سزا کیسے دے گی ۔
سانحہ سیالکوٹ کے ملزمان کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ اس کیس میں جب انصاف ہوگا تب ہی معاشرے میں ڈر پیدا ہوگا۔ لیکن اگر ملزمان ہمارے روایتی عدالتی و قانونی نظام کی کمزوری کی وجہ سے بچ گئے یا مقدمات التوا کا شکار ہو گئے تو یہ بھی ایک طرح سے انتہاپسندوں کی حمایت ہوگی۔آج ملک میں اس سانحہ کے ذمے داروں کے خلاف ایک رائے عامہ موجود ہے۔ تحریک لبیک نے بھی ان کی مذمت کی ہے اور ملزمان سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں موجودہ صو رتحال میں اعلان لا تعلقی ہی کافی ہے۔ اس کا عملی اظہار بھی ہونا چاہیے۔
بہر حال میری چیف جسٹس پاکستان سے درخواست ہے کہ انھوں نے جیسے کراچی میں نسلہ ٹاور گرانے کے نہ صرف احکامات دیے ہیں بلکہ ان احکامات پر عملد رآمد بھی کرایا ہے اور نسلہ ٹاور کو ایک مثال بنایا ہے۔ آج سانحہ سیالکوٹ کے ملزمان کو فوری سزائیں دینے کے لیے بھی ایسے جیوڈیشل ایکٹوزم کی ضرورت ہے۔ اس معاملہ میں تاخیر پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی۔ ان ملزمان کے بچ جانے سے پاکستان میں قانون ہاتھ میں لینے اور مذہبی رحجان کی خطرناک حوصلہ افزائی ہوگی۔
شکر ہے پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان کو عدالت میں پیش بھی کر دیا ہے۔ قومی سطح پر اجلاس ہو رہے ہیں۔ ایک پریشانی نظر آرہی ہے۔ لیکن کیا حکومت ایسے سخت قوانین بنا سکتی ہے جہاں ایسے ملزمان کو فوری سزائیں مل سکیں۔ یہ درست ہے کہ حکومت نے ان کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن وہاں بھی مقدمات سالوں چلتے رہتے ہیں۔ اس لیے ایسی مذہبی انتہا پسندی کے لیے بھی خصوصی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ یہی وقت کی ضرورت ہے جہاں اس بات کو یقینی بنایا جا سکے نہ صرف ملزمان کو فوری سزائیں ملیں گی بلکہ اپیلوں کا بھی فوری فیصلہ ہوگا ورنہ ایسے مقدمات کی اپیلیں بھی برسوں تک زیر التوا رہی ہیں۔