پیسہ اور پیار
پیسہ کتنا اہم ہوتاہے کسی بھی پیار میں؟ یہ بڑا اہم سوال ہے۔ ایک محاورہ ہے کہ ’’باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیا‘‘
پارک میں ایک وکیل صاحب ملے تو ایک مقدمہ یاد آگیا۔ ہم لڑکے والے تھے اور وہ لڑکی والے، خلع کا مقدمہ ہمارے موکل کے خلاف داخل ہوا تھا۔ نکاح ہوچکا تھا لیکن رخصتی نہ ہوئی تھی۔ لڑکا چارٹرڈ اکائونٹنٹ بن رہا تھا جو ایک مشکل امتحان ہوتاہے۔ فیملی مقدمات میں جواب دعویٰ داخل ہونے کے بعد جج کے رو برو دونوں پیش ہوتے ہیں۔ صرف دونوں یعنی لڑکا اور لڑکی۔ نہ ماں باپ نہ بھائی بہن اور نہ وکلاء۔ جج صاحب یا صاحبہ دونوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پچھلی صدی تک اگر مصالحت کامیاب نہ ہو تو معاملہ گواہی پر چلا جاتا تھا اب ترمیم کے بعد اگر بیوی اپنا گھر بسانے پر راضی نہ ہو تو فوراً خلع کا فیصلہ صادر ہو جاتا ہے۔ بیوی کو شوہر کی جانب سے لیا گیا حق مہر واپس کرنا ہوتا ہے۔ چوںکہ یہ بیسویں صدی کی بات ہے لہٰذا معاملہ کچھ طول پکڑ گیا۔ لڑکی کا کہنا تھا کہ ہماری منگنی تین سال رہی اور اب نکاح کو دوسال گزرچکے ہیں۔ چوںکہ میرا صرف نکاح ہوا ہے اور رخصتی نہیں ہوئی اب نہ جانے کب یہ امتحان پاس کرے؟ ہمارا موکل اپنی پوری توجہ پڑھائی کی جانب دے رہا تھا۔
اگر وہ کوئی ملازمت کرلیتا تو کچھ نہ کچھ کماتا۔ لڑکی کے والد اور بھائی کا کہنا تھا کہ ہم ایسے لڑکے کے حوالے اپنی بیٹی کیسے کردیں جس کے مستقبل کا کوئی پتہ ہی نہیں؟ لڑکے نے مجھے بتایا کہ اس کے چند پرچے رہ گئے ہیں۔ وہ کامیاب ہوگیا تو اچھی کمپنی میں عمدہ تنخواہ اور سہولتوں کے ساتھ اس کی آئو بھگت ہوگی۔ سی اے کرنے والوں کو یہ مراعات اس لیے ملتی ہیں کہ انھیں بیلنس شیٹ کو منظور کرنے کا اختیار ہوتا تھا۔ ڈائریکٹرزگھپلے کرتے ہیں اور شیئرز ہولڈز کے کروڑوں روپے جیب میں رکھ لیتے ہیں۔ یہ ہمارا موضوع نہیں اس لیے ہم مقدمے کی طرف آتے ہیں۔ جب جج صاحبہ نے دونوں کو سمجھایا تو لڑکے کی دلیل تھی کہ چند ماہ کی بات ہے۔ آخری امتحان میں کامیابی کے بعد اس کی تنگ دستی دور ہوجائے گی اور فراوانی دروازے کھول دے گی۔ لڑکی مزید انتظار کو تیار نہ تھی اور مقدمہ گواہی پر آگیا۔
بیوی نے اپنے بیان میں شوہر پر کنجوسی کا الزام لگایا۔ متوسط طبقے کا 30سال کی عمر تک صرف پڑھائی کرنے والا اور ماں باپ پر انحصار کرنے والا شخص کہاں سے قیمتی تحفے لاتا۔ لڑکی کی گواہی کے بعد ہماری باری تھی۔ ایک دن لڑکے کا فون آیا کہ اس نے آخری پرچہ پاس کرلیا ہے اور اب وہ ایک کوالیفائیڈ اکائونٹنٹ ہے۔ یہ بات خاندان میں پھیل گئی۔ اب اگلی تاریخ پر لڑکی والوں کا رویہ بدل گیا تھا۔ اس کی فرم کے علاوہ لڑکے کو کئی کمپنیوں میں ملازمت کرنے کے مواقعے حاصل ہوگئے تھے۔ لڑکی نے خلع کا مقدمہ واپس لے لیا۔ رخصتی بھی ہوئی اور ولیمہ بھی۔ دعوتوں میں خاتون کے وہ وکیل صاحب بھی شریک تھے جو پارک میں ملے۔ اس ہم پیشہ ور نئے پڑوسی کو دیکھ کر پورا مقدمہ پھر یاد آگیا اور یہ سوال بھی کہ پیار کیا ہوتا ہے اور پیسہ اس کے لیے کتنا اہم ہوتاہے؟ صرف ہماری زندگیوں میں یا کرکٹ کے میدانوں میں بھی؟
کالج کے زمانے میں انگریزی بہتر بنانے کے لیے ایک ادارے میں داخلہ لیا۔ مسز ولیم ٹیچر تھیں اور پیسے کی اہمیت پر گفتگو ہورہی تھی۔ انھوںنے تعریف پوچھی تو بتایا کہ پرچیزنگ پاور، کوئی چیز کتنی مہنگی یا سستی ہے؟ سوال یہ نہیں ہوتا۔ اصل سوال ہوتاہے کہ آپ کی جیب میں رقم کتنی ہے؟ جتنی زیادہ جیب بھری ہوگی اس کا مطلب ہے کہ آپ کی قوت خرید اتنی ہی زیادہ ہے۔ اب کلاس میں گفتگو شروع ہوئی۔ چند طالب علموں کی رائے تھی کہ پیسہ سب کچھ ہوتاہے۔ کچھ کا کہناہے کہ پیسہ کچھ نہیں ہوتا۔ بظاہر جی ہاں بظاہر دونوں طرف کے دلائل زوردار تھے۔ جب لوگ بات کررہے تھے وہ بھی مطمئن نہ تھے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سو فیصد درست ہے۔ چند منٹوں بعد طے ہوا کہ پیسہ سب کچھ نہیں اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ حتمی طور پر طالب علموں نے طے کیا کہ اسے کچھ نہ کچھ یا Something کہا جاسکتا ہے۔
''عدلیہ تاریخ کے کٹہرے میں'' نامی کتاب 2003 میں شایع ہوئی تھی۔ یہ وہ کالم تھے جو عدلیہ سے متعلق تھے اور ''ایکسپریس'' میں شایع ہوچکے تھے۔ ''پسند کی شادی اور عدالتیں'' والا کالم جھوٹ اور چاندی کی دیوار کی کشمکش لیے ہوئے تھا۔ ایک صاحب کسی جاننے والے کی معرفت اپنی بیٹی کے ساتھ دفتر میں آئے اور کہاکہ اس نے اپنی پسند سے گھر کے سامنے دکان پر کام کرنے والے لڑکے سے شادی کرلی ہے۔ لڑکی سے پوچھا کہ اب کیا چاہتی ہو تو اس نے کہاکہ میں خلع چاہتی ہوں۔ لڑکے نے لڑکی کو سبز باغ دکھائے تھے کہ گائوں میں اس کی زمینیں ہیں۔ باپ اپنے ساتھیوں کی مدد سے پسند کی شادی کرنے والی بیٹی کو گھر واپس لے آیا تھا۔ خلع کا مقدمہ داخل ہوا۔ اب ہم لڑکی والے تھے۔ ڈر تھا کہ سماعت سے پہلے عدالت کی مصالحتی کوشش کے دوران جب جج صاحبہ دونوں کو سمجھائیںگی تو لڑکی واپس نہ چلی جائے۔ لڑکی کے والد نے میری رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہاکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ لڑکی کو دفتر کے باہر انتظار گاہ سے بلواکر اس کے والد کے سامنے کہاکہ دیکھو اگر تم اپنے شوہر کے ساتھ جانا چاہتی ہو تو ابھی سے بتادو۔
ایسا نہ ہو کہ کل عدالت میں تمہارے والد کو عجیب و غریب صورت حال کا سامنا کرنا پڑے۔ لڑکی نے کہا وکیل صاحب آپ اطمینان رکھیں۔ میں دوسری مرتبہ غلطی نہیں کروںگی۔ فیملی جج کوثر سلطانہ صاحبہ نے ایک مرحلے پر لڑکی سے پوچھا کہ تم نے پہلے پسند کی شادی کی ہے اب علیحدگی کیوں چاہتی ہو؟ لڑکی نے جواب دیا کہ میرا شوہر غریب ہے۔ اس نے کہا تھا کہ گائوں میں اس کی زمینیں ہیں اور وہ گھر والوں سے ناراض ہوکر شہر میں آیا ہے۔ جج صاحبہ چیمبر سے عدالت میں آئیں اور مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ وکیل صاحب! بیوی تو شوہر کی غربت کی وجہ سے خلع چاہتی ہے، بتایا گیا کہ دنیا کا کوئی قانون عورت کو اس کی پسند اور مرضی سے ہٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور نہیں کرتا۔ مزید یہ کہ شوہر نے مقدمہ دائر کرنے کے بعد دلچسپی نہیں لی۔ جس رشتے کی بنیاد جھوٹ پر رکھی گئی ہو وہ کس طرح تادیر قائم رہ سکتاہے۔ اب اگر لڑکا فرار کے راستے پر ہے اور لڑکی غربت کی پگڈنڈی پر نہیں چلنا چاہتی تو کوئی کیا کرسکتاہے؟
پیسہ کتنا اہم ہوتاہے کسی بھی پیار میں؟ یہ بڑا اہم سوال ہے۔ ایک محاورہ ہے کہ ''باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیا'' ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنے والد اور بھائی سے زیادہ اہمیت پیسے کو دیتا ہو۔ ماں کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اس کا پیار بڑا خالص ہوتا ہے اس بات پر کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا کہ اگر کہیں سچے پیار کی جھلک دیکھنی ہو تو ماں کے پیار میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ہمارے وکیل دوست مسٹر این افضال خان اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماں بھی اس بیٹے کو پسند کرتی ہے جو کمائو پوت ہو۔ جب کرکٹر محمد عامر پر پابندی لگی تو ان کی والدہ کا انٹرویو ٹی وی پر دیکھا گیا۔ اس بھولی ماں کا کہنا تھا کہ ''میرا عامر ہی میرا عامر ہے'' اب اسے سب سے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے کی محبت کہا جاسکتا ہے یا عامر نے ایک دو سال میں اتنا کمالیا تھا جو شاید اس ماں کے دوسرے بیٹے زندگی بھر بھی نہیں کماسکتے۔ اس حوالے سے افضال صاحب اپنی رائے پر قائم ہیں۔
پیسے کی زندگی میں اہمیت اس طرح ہے کہ اکثر کاروباری حضرات ہر چیز کو پیسے میں تولتے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ والد صاحب کی طبیعت کیسی ہے؟ جواب دیںگے کہ شکر ہے بہتر ہے۔ پہلے آٹھ آنے ٹھیک تھی اب بارہ آنے صحیح ہوگئی ہے۔ فن کی دنیا میں بھی پیسہ بولتاہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ وہ فنکار اتنے لاکھ روپے ایک فلم کے لیتاہے، اب کہا جاتاہے کہ اتنے کروڑ لیتاہے۔ اب صورت حال مزید بدل گئی ہے۔ ایک معاملے میں ہم نے روپوں کی اہمیت کو مزید بڑھادیا ہے۔ پہلے فلمیں جوبلیاں مناتی تھیں۔ کراچی اور لاہور میں اچھی اور بڑی فلم اٹھارہ بیس سینمائوں میں ریلیز ہوتی۔ نوجوان دیکھتے کہ اب دوسرے ہفتے میں فلم کتنے سینمائوں میں رہ گئی ہے اس تعداد سے فلم کی کامیابی کا اندازہ ہوتا۔ دوسرے ہفتے میں چھ سات سینمائوں میں رہ جانے والی فلم سلور جوبلی کرلیتی۔ پھر گولڈن جوبلی، مسلسل کئی ماہ تک کئی سینمائوں پر چلنے والی فلم پلاٹینیم اور پھر ڈائمنڈ جوبلی کی جانب بڑھتی۔ یہ ہوتا تھا کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ۔ ندیم اور شبنم کی فلم ''آئینہ'' نے پانچ سو ہفتے مکمل کیے۔ اس طرح بابرا شریف اور غلام محی الدین کی فلم ''میرا نام ہے محبت'' چین میں کئی سال تک شائقین کی توجہ کا مرکز رہی۔ پہلے بالی وڈ میں بھی فلمی کامیابی کو جوبلیوں یا وقت کے فیتے سے ناپا جاتاتھا۔ اب یہ پیمانہ بدل چکا ہے۔ اس پیمائش نے روپے پیسے کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اب کہا جاتاہے کہ فلم نے اتنے دنوں میں اتنے سو کروڑ کمائے ہیں۔ کم رقم کمانے والی فلم کو کرنسی کی مقدار سے ناکام بتایا جاتا ہے۔ اب کلب بن گئے ہیں اتنے سو کروڑ کمانے والی فلموں کے۔ کالم کے اختتام تک کیا آپ فیصلہ کرسکے ہیں کہ کون بڑا ہے؟ پیسہ یا پیار؟