سیاسی مفاد کی محاذ آرائی

ملک کی تین بڑی پارٹیوں کی سندھ، پنجاب اور کے پی کے میں حکومت ہے...

ملک بے شمارمسائل کا شکار ہے اور قومی مسائل میں کمی آنے کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آرہے اور ساتھ ساتھ سیاسی مفاد کے لیے باہمی محاذ آرائی کم ہونے کی بجائے بڑھ ہی رہی ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار کے 8 ماہ میں سیاسی محاذ آرائی سے محفوظ رہنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ دوسری جماعتوں کے ساتھ بھی محاذ آرائی سے بھی گریز کیا ہے جس کا اظہار وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری نے تھرپار کر کے حالیہ مشترکہ دورے کے موقعے پر بھی کیا ہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال ماضی کے مقابلے میں بھی یکسر مختلف ہے۔ پہلی بار چاروں صوبوں میں مختلف صوبائی حکومتیں ہیں جو صوبائی خودمختاری کے مطابق مرکزی حکومت کے کسی دباؤ کے بغیر کام کر رہی ہیں اور وفاقی حکومت کسی صوبائی حکومت کی رضامندی کے بغیر اپنے ہی وفاقی اعلیٰ افسروں چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کو تبدیل نہیں کرسکتی۔

موجودہ حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہے جسے وفاقی سطح پر بھرپور مینڈیٹ حاصل ہے اور پنجاب کے سوا باقی تین صوبوں میں ان سیاسی پارٹیوں کی حکومت ہے جو اس سے مختلف سیاسی نظریات رکھتی ہیں۔ بلوچستان میں وزیر اعظم نے (ن) لیگ کی اکثریت ہونے کے باوجود بلوچستان کی بہتری کے لیے وہاں کے قوم پرستوں کی حکومت قائم کروائی اور بلوچستان کو پشتون گورنر اور بلوچ وزیر اعلیٰ دیا مگر اسمبلی میں اکثریت نہ رکھنے والی وزیر اعلیٰ کی پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کو غیر موثر کر رکھا ہے ۔جس سے تنگ آکر (ن) لیگ کے 6 وزیروں اور دو مشیروں نے بلوچستان حکومت سے الگ ہوکر اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ انھیں وزیر اعلیٰ اور ان کی حکومت سے شکایات ہیں جنھوں نے (ن) لیگ کے وزرا کو نظرانداز کرکے ان کے اختیارات بھی سلب کر رکھے ہیں۔ بلوچستان کا یہ معاملہ سیاسی مفاد پرستی کی ایک مثال ہے جہاں کی صوبائی حکومت مکمل طور پر مسلم لیگ (ن) کی قربانی اور نیک جذبے کی قدر کرنے کی بجائے اقلیتی پارٹی نے (ن) لیگ کے وزیروں اور ارکان اسمبلی کو اتنا بے دست و پا کردیا ہے کہ وہ حکومت چھوڑنے پر آمادہ ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد قوم پرست پارٹی کی حکومت اپنے اہم حلیف کو بھی ساتھ لے کر نہیں چل رہی حکومت میں شریک کچھ افراد وفاقی حکومت پر تنقید کا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ (ن) لیگ کے بغیر بلوچستان حکومت قائم نہیں رہ سکتی یہ جاننے کے باوجود (ن) لیگ کو نظرانداز کرکے بلوچستان میں سیاسی مفاد کے لیے محاذ آرائی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) خود جے یو آئی ودیگر سے مل کر بلوچستان میں اگر حکومت بناتی ہے تو محاذ آرائی کا نیا سیاسی محاذ کھل سکتا ہے اور قوم پرستوں کی طرف سے وفاقی پارٹیوں پر الزام تراشی کا نیا محاذ بنانے کا موقعہ خود قوم پرست دے رہے ہیں مگر صوبائی مفاد کے لیے خود محاذ آرائی کرنے میں بھی دیر نہیں کریں گے اور ملک اور صوبے کا مفاد دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔


ملک کی تین بڑی پارٹیوں کی سندھ، پنجاب اور کے پی کے میں حکومت ہے اور وزیر اعظم بار بار واضح کرچکے ہیں کہ وہ ہر صوبے کے عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی ان تینوں پارٹیوں کے درمیان بھی چل رہی ہے۔ طالبان سے مذاکرات کی تینوں پارٹیاں حامی ہیں جس کی وجہ سے وزیر اعظم نے مذاکرات کی سرکاری کمیٹی بنائی جس کے جواب میں طالبان نے پاکستانی رہنماؤں پر مشتمل اپنی جس 5 رکنی کمیٹی کا اعلان کیا اس میں دو قومی رہنما عمران خان اور مولانا فضل الرحمن بھی شامل ہیں جنھوں نے اپنی پارٹی پالیسی کے تحت مذاکرات کی حمایت بھی کی ہے مگر عمران خان نے خود کو اور جے یو آئی نے اپنے رہنما مفتی کفایت اللہ کو ان کی رضامندی کے برعکس طالبان کمیٹی سے دور رکھا ہے جس پر پی پی پی، (ن) لیگ، متحدہ و دیگر نے عمران خان کے خلاف ایک نئی سیاسی بیان بازی شروع کردی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ عمران خان، مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق اور سید منور حسن طالبان کے خلاف آپریشن کی بجائے مذاکرات کے زبردست حامی ہیں اور اطلاع کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے عمران خان کے دباؤ پر ہی طالبان سے مذاکرات کا دوبارہ اعلان کیا ہے۔ طالبان سے مذاکرات ایک اہم مسئلہ ہے جس پر پوری قوم ہی نہیں دنیا کی نظریں بھی مرکوز ہیں مگر اس موقعہ پر بھی محض سیاسی مفاد کے لیے محاذ آرائی کو فروغ دیا جارہا ہے۔

پیپلز پارٹی اور متحدہ تحریک انصاف کے چیئرمین کو مشورے دے رہی ہیں کہ وہ طالبان کی طرف سے نامزدگی کے بعد طالبان کی طرف سے حکومتی پارٹی سے مذاکرات کریں۔ اس سلسلے میں عمران خان کے فیصلے کے خلاف نہ صرف بیانات دیے گئے ہیں بلکہ مظاہرے بھی کرائے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر مذاکرات کے سلسلے میں حکومت کی حمایت کر رہے ہیں تو ان کی پارٹی کے سرپرست بلاول بھٹو زرداری ٹویٹر پر طالبان سے مذاکرات کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔

ایک وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ قوم مذاکرات کی حامی ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور بعض جماعتیں مذاکرات کی کھلے عام مخالفت بھی کر رہی ہیں اور قوم بھی اس سلسلے میں تقسیم ہے۔ مذاکرات کے حامیوں اور مخالفین کے موقف بھی جاندار ہیں اور ملک میں ایسے بھی لوگ بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے چاہتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے کوئی ایسا راستہ نکل آئے جو فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔

مذاکرات کے اعلان پر حکومت پر بھی تنقید ہو رہی ہے اور یہ سب کچھ سیاسی مفاد کے لیے کیا جارہا ہے۔اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمن کے لیے کوئی کچھ نہیں کہہ رہا، مگر عمران خان کو مشورے دیے جا رہے ہیں وہ طالبان کی مذاکرات میں نمایندگی کریں۔ اس موقعہ پر بھی سیاسی مفاد کے لیے ایک دوسرے پر تنقید اور الزام تراشی سے سیاسی محاذ آرائی بڑھانے کی غیر ضروری کوشش کی جا رہی ہے اور کوئی آپریشن سے اور کوئی مذاکرات میں اس اہم مسئلے کا حل تلاش کر رہا ہے جب کہ ضرورت ہے کہ اس اہم مسئلے پر سیاسی محاذ آرائی سے گریز کیا جائے۔
Load Next Story