نہ رہیں گی قتل گاہیں
اللہ کے نیک بندوں سے یہ دنیا کبھی خالی نہیں رہی، ان ہی نیک بندوں کے طفیل یہ دنیا آباد ہے...
اللہ کے نیک بندوں سے یہ دنیا کبھی خالی نہیں رہی، ان ہی نیک بندوں کے طفیل یہ دنیا آباد ہے۔کیسے کیسے عذاب اس دنیا پر نازل ہوئے۔ خود ہمارے ملک میں کیا ہورہا ہے ''خونخواردرندے ہیں رقصاں'' شراب کا نشہ چھٹ گیا کہ یہ مہنگی ہے۔ اب انسانی خون کا نشہ عام ہے، یہ نشہ سستا بھی ہے اور آسانی سے دستیاب بھی۔ حبیب جالب آنے والے زمانوں کے لیے بھی شعر کہہ گئے ہیں:
اے وطن' میرے وطن' تجھ کو بتا کیا ہوگیا
ہوگئی مہنگی شراب اور خون سستا ہوگیا
ہمارے وطن میں روزانہ بے دریغ انسانی شکار کھیلا جارہا ہے اور بلا روک ٹوک یہ شکار جاری ہے۔ پرندوں اور جانوروں کے شکار پر بھی پابندی ہوتی ہے۔ پرندوں اور جانوروں کی نایاب نسلیں ختم نہ ہوجائیں اس کارن شکار جرم قرار دیا جاتا ہے اور خلاف ورزی کے مرتکب مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے دنیا کے کئی ممالک میں جانوروں اور پرندوں کی نایاب نسلوں کے تحفظ کا قانون موجود ہے اور اس پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے اور ادھر ہمارے ملک کا یہ حال ہے کہ بہترین لوگوں کا چن چن شکار کیا جارہا ہے اور شکاری چھلاوے کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔ پکڑے بھی جائیں تو عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہوکر پھر سے ''شکار'' کھیلنے نکل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر بیمار لوگوں کا علاج کرتا ہے اتنے مقدس پیشے سے منسلک لوگوں کو مارا جا رہا ہے، محض اس لیے کہ خبر بن جائے۔ اب تک پتا نہیں کتنے ڈاکٹر قتل ہوچکے ہیں، پتا نہیں کتنے ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ زبان، نسل اور عقیدے کے نام پر پھولوں جیسے خوبصورت ہزارہ برادری والوں کو مسلسل قتل کیا جا رہا ہے۔ ایران سے آنے والے سیاح جو سائیکل پر دنیا کا سفر کرتا، پاکستان کے خوبصورت نظاروں کو تصور میں سجائے آرہا تھا، اس پر بھی فائر کھول دیا گیا، وہ تو ''اوپر والے'' کی منظوری نہیں تھی اور سیاح بچ گیا۔ اس کے دوستوں نے کہا ''پاکستان سے نکل جاؤ'' مگر سائیکل سوار سیاح نے دوستوں کا مشورہ نہیں مانا اور وہ پاکستان کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔
''ہور چوپو'' یہ بزرگوں کی حکایت ہے کہ ''اور گنے چوسو'' پرائے گنے چوسو گے تو ''بھگتان'' بھگتنا ہی پڑے گا۔ اب تو حال یہ ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کون کون شکاری ہمارے ملک میں انسانی شکار کھیل رہے ہیں۔ اس وقت مشتاق اسمٰعیل صاحب کا خیال آگیا ہے موصوف ہمارے ملک کے معروف سائنسدان ہیں، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے چہیتے شاگرد اور اپنے شعبے میں انھوں نے بڑے کمالات دکھائے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں بھی کام کیا۔ اس وقت ان کا خیال یوں آیا کہ اپنے سفر نامے میں وہ لکھتے ہیں کہ ''نائیجیریا کے جنگل سے ہماری بس گزر رہی تھی، سڑک سے ذرا ہٹ کے ایک شیر اپنے شکار کے تازہ ترین گوشت سے پیٹ بھر چکا تھا اور اس کے اردگرد خوبصورت ہرن گھوم پھر رہے تھے اور شیر آنکھ اٹھا کر بھی انھیں نہیں دیکھ رہا تھا، بس کے ڈرائیور نے ذرا فاصلے پر بس روک دی تھی اور ہم یہ منظر دیکھ کر بڑے حیران ہو رہے تھے۔ ہمارے پوچھنے پر بس ڈرائیور نے بتایا کہ شیر اسی وقت شکار کرتا ہے جب اسے خالی پیٹ بھرنا ہو''۔ مشتاق اسمٰعیل صاحب کے سفرنامے ''امیر خسرو جرمنی میں'' پر میں چند ماہ پہلے کالم لکھ چکا ہوں۔ لو اب ایک اور صاحب یاد آگئے۔ ان کا نام شوق فہمی ہے۔ امریکا میں رہتے ہیں (جس کے گنے چوس چوس کر ہم اس حال کو پہنچے ہیں) اور شاعری فرماتے ہیں ان کی غزل کا تذکرہ بھی میں کرچکا ہوں پہلے اس غزل کا ایک شعر سن لیجیے۔
سب آن بسے ہیں بستی میں
جنگل میں درندہ کوئی نہیں
چلیے مان لیا کہ ''درندے'' جنگل چھوڑ بستیوں میں آن بسے ہیں تو یہ کیسے درندے ہیں کہ جن کا پیٹ بھرتا ہی نہیں؟ شوق فہمی صاحب کی غزل پھر سے لکھ رہا ہوں کہ حسب حال ہے:
پیڑوں پہ پرندہ کوئی نہیں
کیا شہر میں زندہ کوئی نہیں
سب آن بسے ہیں بستی میں
جنگل میں درندہ کوئی نہیں
اس شہر میں کون نہیں رسوا
لیکن شرمندہ کوئی نہیں
تحریر ہے پیلے پتوں پر
موسم پایندہ کوئی نہیں
یہ رات زمیں پر کیسی ہے
تارہ تابندہ کوئی نہیں
کیوں چاک مانہ پر فہمی
برتن نقشندہ کوئی نہیں
''یہ رات زمیں پر کیسی ہے'' مگر نواز شریف اور آصف زرداری کو یکجا دیکھ کر ایک کرن سی لہرا گئی۔ جیسے چپکے سے بہار آگئی، جیسے گلشن میں ہولے سے باد سموم چلی آئی ہو، سندھ کی زمین، پیار کی زمین ہے۔ بھٹائی، سچل اور شہباز قلندر کی زمین ہے۔ شیخ ایاز جیسا شاعر ابھی کچھ دیر ہوئی اٹھ کر گیا ہے، میں خوش نصیب کہ شیخ ایاز سے میری ملاقات ہوئی ان کی باتیں سنی۔
جس دلدل میں ہم پھنس چکے ہیں اس سے نکلنے کا واحد ذریعہ یہی ہے جو تھرکول منصوبے کی افتتاحی تقریب میں ''اداس لوگوں'' نے دیکھا۔ طالبان سے گفتگو بھی شروع ہوگئی ہے۔ یہ بھی اچھا قدم ہے۔ نواز شریف، معاملہ فہمی کا زبردست مظاہرہ کر رہے ہیں۔ عمران خان، الطاف حسین بھی اہم کردار ہیں۔ دلدل میں دھنسے ملک شوق فہمی کی غزل کا ایک اور شعر بھی ہے جسے میں جان بوجھ کر علیحدہ اب لکھ رہا ہوں ملاحظہ ہو:
ہم جن حالات میں رہتے ہیں
ان کا ''آیندہ'' کوئی نہیں
ہم نے مل کر اس شعر کو جھٹلانا ہے اور بتانا ہے کہ ایک خوبصورت آیندہ ہمارا مستقبل ہے۔ جالب کا ایک شعر آگیا ہے اور کہہ رہا ہے لکھ دو، سو شعر لکھتے ہوئے اجازت:
کوئی دم کی بات ہے یہ کوئی پل کی رات ہے یہ
نہ رہے گا کوئی قاتل' نہ رہیں گی قتل گاہیں
اے وطن' میرے وطن' تجھ کو بتا کیا ہوگیا
ہوگئی مہنگی شراب اور خون سستا ہوگیا
ہمارے وطن میں روزانہ بے دریغ انسانی شکار کھیلا جارہا ہے اور بلا روک ٹوک یہ شکار جاری ہے۔ پرندوں اور جانوروں کے شکار پر بھی پابندی ہوتی ہے۔ پرندوں اور جانوروں کی نایاب نسلیں ختم نہ ہوجائیں اس کارن شکار جرم قرار دیا جاتا ہے اور خلاف ورزی کے مرتکب مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے دنیا کے کئی ممالک میں جانوروں اور پرندوں کی نایاب نسلوں کے تحفظ کا قانون موجود ہے اور اس پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے اور ادھر ہمارے ملک کا یہ حال ہے کہ بہترین لوگوں کا چن چن شکار کیا جارہا ہے اور شکاری چھلاوے کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔ پکڑے بھی جائیں تو عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہوکر پھر سے ''شکار'' کھیلنے نکل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر بیمار لوگوں کا علاج کرتا ہے اتنے مقدس پیشے سے منسلک لوگوں کو مارا جا رہا ہے، محض اس لیے کہ خبر بن جائے۔ اب تک پتا نہیں کتنے ڈاکٹر قتل ہوچکے ہیں، پتا نہیں کتنے ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ زبان، نسل اور عقیدے کے نام پر پھولوں جیسے خوبصورت ہزارہ برادری والوں کو مسلسل قتل کیا جا رہا ہے۔ ایران سے آنے والے سیاح جو سائیکل پر دنیا کا سفر کرتا، پاکستان کے خوبصورت نظاروں کو تصور میں سجائے آرہا تھا، اس پر بھی فائر کھول دیا گیا، وہ تو ''اوپر والے'' کی منظوری نہیں تھی اور سیاح بچ گیا۔ اس کے دوستوں نے کہا ''پاکستان سے نکل جاؤ'' مگر سائیکل سوار سیاح نے دوستوں کا مشورہ نہیں مانا اور وہ پاکستان کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔
''ہور چوپو'' یہ بزرگوں کی حکایت ہے کہ ''اور گنے چوسو'' پرائے گنے چوسو گے تو ''بھگتان'' بھگتنا ہی پڑے گا۔ اب تو حال یہ ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کون کون شکاری ہمارے ملک میں انسانی شکار کھیل رہے ہیں۔ اس وقت مشتاق اسمٰعیل صاحب کا خیال آگیا ہے موصوف ہمارے ملک کے معروف سائنسدان ہیں، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے چہیتے شاگرد اور اپنے شعبے میں انھوں نے بڑے کمالات دکھائے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں بھی کام کیا۔ اس وقت ان کا خیال یوں آیا کہ اپنے سفر نامے میں وہ لکھتے ہیں کہ ''نائیجیریا کے جنگل سے ہماری بس گزر رہی تھی، سڑک سے ذرا ہٹ کے ایک شیر اپنے شکار کے تازہ ترین گوشت سے پیٹ بھر چکا تھا اور اس کے اردگرد خوبصورت ہرن گھوم پھر رہے تھے اور شیر آنکھ اٹھا کر بھی انھیں نہیں دیکھ رہا تھا، بس کے ڈرائیور نے ذرا فاصلے پر بس روک دی تھی اور ہم یہ منظر دیکھ کر بڑے حیران ہو رہے تھے۔ ہمارے پوچھنے پر بس ڈرائیور نے بتایا کہ شیر اسی وقت شکار کرتا ہے جب اسے خالی پیٹ بھرنا ہو''۔ مشتاق اسمٰعیل صاحب کے سفرنامے ''امیر خسرو جرمنی میں'' پر میں چند ماہ پہلے کالم لکھ چکا ہوں۔ لو اب ایک اور صاحب یاد آگئے۔ ان کا نام شوق فہمی ہے۔ امریکا میں رہتے ہیں (جس کے گنے چوس چوس کر ہم اس حال کو پہنچے ہیں) اور شاعری فرماتے ہیں ان کی غزل کا تذکرہ بھی میں کرچکا ہوں پہلے اس غزل کا ایک شعر سن لیجیے۔
سب آن بسے ہیں بستی میں
جنگل میں درندہ کوئی نہیں
چلیے مان لیا کہ ''درندے'' جنگل چھوڑ بستیوں میں آن بسے ہیں تو یہ کیسے درندے ہیں کہ جن کا پیٹ بھرتا ہی نہیں؟ شوق فہمی صاحب کی غزل پھر سے لکھ رہا ہوں کہ حسب حال ہے:
پیڑوں پہ پرندہ کوئی نہیں
کیا شہر میں زندہ کوئی نہیں
سب آن بسے ہیں بستی میں
جنگل میں درندہ کوئی نہیں
اس شہر میں کون نہیں رسوا
لیکن شرمندہ کوئی نہیں
تحریر ہے پیلے پتوں پر
موسم پایندہ کوئی نہیں
یہ رات زمیں پر کیسی ہے
تارہ تابندہ کوئی نہیں
کیوں چاک مانہ پر فہمی
برتن نقشندہ کوئی نہیں
''یہ رات زمیں پر کیسی ہے'' مگر نواز شریف اور آصف زرداری کو یکجا دیکھ کر ایک کرن سی لہرا گئی۔ جیسے چپکے سے بہار آگئی، جیسے گلشن میں ہولے سے باد سموم چلی آئی ہو، سندھ کی زمین، پیار کی زمین ہے۔ بھٹائی، سچل اور شہباز قلندر کی زمین ہے۔ شیخ ایاز جیسا شاعر ابھی کچھ دیر ہوئی اٹھ کر گیا ہے، میں خوش نصیب کہ شیخ ایاز سے میری ملاقات ہوئی ان کی باتیں سنی۔
جس دلدل میں ہم پھنس چکے ہیں اس سے نکلنے کا واحد ذریعہ یہی ہے جو تھرکول منصوبے کی افتتاحی تقریب میں ''اداس لوگوں'' نے دیکھا۔ طالبان سے گفتگو بھی شروع ہوگئی ہے۔ یہ بھی اچھا قدم ہے۔ نواز شریف، معاملہ فہمی کا زبردست مظاہرہ کر رہے ہیں۔ عمران خان، الطاف حسین بھی اہم کردار ہیں۔ دلدل میں دھنسے ملک شوق فہمی کی غزل کا ایک اور شعر بھی ہے جسے میں جان بوجھ کر علیحدہ اب لکھ رہا ہوں ملاحظہ ہو:
ہم جن حالات میں رہتے ہیں
ان کا ''آیندہ'' کوئی نہیں
ہم نے مل کر اس شعر کو جھٹلانا ہے اور بتانا ہے کہ ایک خوبصورت آیندہ ہمارا مستقبل ہے۔ جالب کا ایک شعر آگیا ہے اور کہہ رہا ہے لکھ دو، سو شعر لکھتے ہوئے اجازت:
کوئی دم کی بات ہے یہ کوئی پل کی رات ہے یہ
نہ رہے گا کوئی قاتل' نہ رہیں گی قتل گاہیں