کیا ’’اقبال‘‘ کے شہر سے برداشت ختم ہوچکی ہے
ہمیں اب نفرت، غصے اور شدت کو اپنے اندر سے ختم کرکے خود کو امن کا داعی ثابت کرنا ہے
RAWALPINDI:
سیالکوٹ کا المناک واقعہ تاحال ملک کے ہر شہری کو سوگوار کرچکا اور کررہا ہے۔ جب بھی اس واقعے سے متعلق کوئی بات سامنے آتی ہے تو چشم تصور میں ایک نہتے شخص پر ہجوم کی یلغار کا منظر سامنے آجاتا ہے۔
مذہبی قوانین کا سہارا لے کر کسی بے گناہ کو جان سے مار دینے کا یہ پہلا واقعہ نہیں، بلکہ یہ واقعہ ہائی پروفائل اس لیے بن گیا کیونکہ اس واقعے میں مرنے والا ایک غیر ملکی شہری تھا اور شہری بھی اس ملک (سری لنکا) کا جس نے ہمیشہ ہمارے ملک کو احترام دیا اور ہمیشہ ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ لیکن اس واقعے نے ہماری برسوں کی دوستی پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس واقعے کے مرکزی ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کےلیے کس قدر سنجیدگی سے کام لیتی ہے۔
اس طرح کے ہر واقعے کے بعد مختلف دعوے کیے جاتے ہیں اور لگتا ہے کہ شاید یہ آخری واقعہ تھا، اس کے بعد مستقبل میں اس قسم کے واقعات دوبارہ نہیں ہوں گے۔ لیکن ابھی عوام ایک واقعے کو بھلا نہیں پاتے کہ اسی اثنا میں دوسرا واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ مذکورہ واقعے میں بھی کہا جاتا ہے کہ مقتول نے باقاعد طور پر معافی مانگی اور جب اُس پر مشتعل ہجوم نے حملہ کیا تو ایک دو ساتھی ورکروں نے، جو مقتول کی جان بچانا چاہتے تھے، انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسے پولیس کے حوالے کرتے ہیں۔ لیکن ہجوم میں سے چند شرپسند جو اُس سے ذاتی پرخاش رکھتے تھے، انہوں نے برملا کہا کہ ''وہ آج منیجر کو نہیں چھوڑیں گے۔''
اس واقعے میں پولیس کا کردار بھی ماضی کے واقعات کی طرح ہی نظر آتا ہے۔ بالکل وہی عذر کہ ہمارے پاس نفری کم تھی، ہجوم بہت زیادہ تھا، ہجوم بہت زیادہ مشتعل تھا وغیرہ وغیرہ۔ اگر عام لوگوں کی بات کی جائے تو لوگوں کی بے حسی دیکھ عقل دنگ رہ گئی کہ انہوں نے اسے بچانے کے بجائے سیلفیاں لینے کو ترجیح دی، جس سے واضح طور پر ہماری اجتماعی بے حسی کا پتا چلتا ہے۔
موجودہ واقعہ سیالکوٹ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا لیکن قارئین کو یاد ہوگا کہ اس قسم کا ایک واقعہ غالباً دس برس پہلے بھی سامنے آیا تھا جس میں مشتعل ہجوم نے دو بھائیوں کو جان سے مار دیا تھا اور عذر یہ تراشا تھا کہ یہ ڈاکو ہیں۔ مندرجہ بالا دونوں واقعات ایک ایسی ہستی کے شہر میں ہوئے ہیں جنہیں دنیا امن کے شاعر، محبت کے شاعر اور ملت کے شاعر کے نام سے یاد کرتی ہے، جو عدم تشدد کی بات کرتے تھے، امن، محبت اور روادری کی بات کرتے تھے۔ ان واقعات کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ شاید اقبال کے شہر کے عوام میں برداشت ختم ہوچکی ہے جو ہم سب کےلیے لمحہ فکریہ ہے۔
مذکورہ واقعے کے بعد حکومت کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ حکمت عملی بنانا ہوگی، کیونکہ تاحال ہمارے ملک پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے اور جب ہم گرے لسٹ سے نکلنے کےلیے پورا زور لگا رہے ہیں تو پہلے ایک مذہبی جماعت کے دھرنے اور حکومت کو اپنی شرائط پر معاہدہ کرنے کےلیے مجبور کرنے جیسا واقعہ اور اب مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک غیر ملکی کے بے رحم قتل نے حکومت کی گرے لسٹ سے نکلنے والی کاوشوں کو یقیناً سبوتاژ کیا ہے۔ اس طرح کے واقعات کو ہمارا پڑوسی ملک بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
سیالکوٹ شہر سے بننے والا کھیلوں کا سامان پوری دنیا میں برآمد کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس ضمن میں خدشہ ہے کہ کہیں عالمی منڈی میں اپنی کھیلوں کی پروڈکٹس کو برآمد کرنے میں مشکل پیش نہ آئے۔ یقیناً اس تاثر کو زائل کرنے میں کہ ہم امن پسند نہیں، مغرب اور یورپ کو سمجھانے میں وقت لگے گا۔ اس لیے حکومت کو ان پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر حکمت عملی بنانا ہوگی اور اپنے وزرا کو بھی تنبیہہ کرنا ہوگی کہ اس قسم کے واقعے سے متعلق بیان دیتے وقت اپنے حواس کو بحال رکھیں۔
حیرت کی بات ہے کہ مذہب کےلیے قوانین موجود ہیں اور ان پر سزائیں بھی ہیں، لیکن ایسا کیوں ہے کہ عوام اس قسم کے واقعات میں خود ہی جج بن کر فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں اپنے قوانین اور عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے یا کیا عوام اپنے آپ کو ان قوانین سے زیادہ طاقتور سمجھتے ہیں یا ان کے ذہنوں میں ماضی کے واقعات تو نہیں کہ اگر پہلے کبھی کسی کا کچھ نہیں بگڑا تو اب کیا ہوگا؟ یہ سارے سوال ہیں جو پاکستانی قوم کےلیے لمحہ فکریہ ہیں۔ ان سوالوں کے جواب ہمیں کسی اور نے آکر نہیں بتانے بلکہ ہمیں خود ہی ڈھونڈنے ہوں گے۔ ہم میں برداشت کیوں نہیں ہے؟ ہم کیوں ایک دوسرے کو قبول نہیں کرتے؟ ہم کیوں ان مذہبی قوانین کی آڑ میں دوسروں سے ذاتی پرخاش نکالتے ہیں؟
ایک پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے مجھے تو بہت دُکھ ہوتا ہے کیونکہ ملک کے عوام کسی نہ کسی مذہب کو ماننے والے ہیں اور ہر مذہب امن کی بات کرتا ہے۔ ہمارا ملک صوفیا، درویشوں، سنتوں، بھگتوں، پیروں، فقیروں، اولیا کرام سے جانا جاتا ہے، امن کے داعی شاعروں، ادیبوں، مصنفین، آرٹسٹوں اور کھلاڑیوں سے جانا جاتا ہے لیکن ہمارے ہی ملک میں جب اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں تو کوئی ایسی بات ہے جس کو بھولنے کی وجہ سے مندرجہ بالا تمام ہستیوں کے امن کے پیغام کے باوجود ہم پرامن نہیں ہیں۔
کیوں ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے؟ کیوں ہم ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کی کوشش میں رہتے ہیں؟ کیوں ہم کسی کو تسلیم نہیں کرتے ؟ یہ تمام ''کیوں'' ہمیں اس پیغام کی طرف لے جارہے ہیں کہ ہمیں اب اس نفرت، غصے اور شدت کو اپنے اندر سے ختم کرکے خود کو امن کا داعی ثابت بھی کرنا ہے۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم دنیا کی پُرامن قوم ہیں۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا اس واقعے کے بعد کوئی غیرملکی ہماری صنعتوں، ہماری فیکٹریوں اور ہماری ملوں میں کام کرنے پر راضی ہوگا؟ کیا انہیں ہم یہ یقین دلا سکیں گے کہ مستقبل میں اس قسم کا کوئی اور واقعہ رونما نہیں ہوگا؟ کیا ہم انہیں یہ یقین دلا سکیں گے کہ ان کے تحفظ کو ہم یقینی بنائیں گے؟ کیا ہم دنیا کو یہ بتانے میں کامیاب ہوسکیں گے کہ ہم تو اپنے مہمانوں کو پلکوں پر بٹھاتے ہیں؟
یہ کام کسی ایک کا نہیں ہے۔ ہمارا دین، ہمارے بزرگ، ہمارے دانشور ہمیں بتا چکے ہیں اور مسلسل بتا رہے ہیں کہ ہم نے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اس ملک کو پُرامن کیسے بنانا ہے۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں تبدیلی خود سے اور اپنے اندر سے شروع کرنی ہے، تب ہی ہم صحیح معنوں میں نئی نسل کو امن کا سبق پڑھا سکیں گے۔ امن کی ترویج کےلیے جدوجہد کرنا صرف سیالکوٹ کے شہریوں کےلیے ہی ضروری نہیں بلکہ پوری قوم کےلیے ضروری ہے تاکہ مستقبل میں پھر بدامنی کا کوئی سانحہ نہ ہوسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سیالکوٹ کا المناک واقعہ تاحال ملک کے ہر شہری کو سوگوار کرچکا اور کررہا ہے۔ جب بھی اس واقعے سے متعلق کوئی بات سامنے آتی ہے تو چشم تصور میں ایک نہتے شخص پر ہجوم کی یلغار کا منظر سامنے آجاتا ہے۔
مذہبی قوانین کا سہارا لے کر کسی بے گناہ کو جان سے مار دینے کا یہ پہلا واقعہ نہیں، بلکہ یہ واقعہ ہائی پروفائل اس لیے بن گیا کیونکہ اس واقعے میں مرنے والا ایک غیر ملکی شہری تھا اور شہری بھی اس ملک (سری لنکا) کا جس نے ہمیشہ ہمارے ملک کو احترام دیا اور ہمیشہ ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ لیکن اس واقعے نے ہماری برسوں کی دوستی پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس واقعے کے مرکزی ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کےلیے کس قدر سنجیدگی سے کام لیتی ہے۔
اس طرح کے ہر واقعے کے بعد مختلف دعوے کیے جاتے ہیں اور لگتا ہے کہ شاید یہ آخری واقعہ تھا، اس کے بعد مستقبل میں اس قسم کے واقعات دوبارہ نہیں ہوں گے۔ لیکن ابھی عوام ایک واقعے کو بھلا نہیں پاتے کہ اسی اثنا میں دوسرا واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ مذکورہ واقعے میں بھی کہا جاتا ہے کہ مقتول نے باقاعد طور پر معافی مانگی اور جب اُس پر مشتعل ہجوم نے حملہ کیا تو ایک دو ساتھی ورکروں نے، جو مقتول کی جان بچانا چاہتے تھے، انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسے پولیس کے حوالے کرتے ہیں۔ لیکن ہجوم میں سے چند شرپسند جو اُس سے ذاتی پرخاش رکھتے تھے، انہوں نے برملا کہا کہ ''وہ آج منیجر کو نہیں چھوڑیں گے۔''
اس واقعے میں پولیس کا کردار بھی ماضی کے واقعات کی طرح ہی نظر آتا ہے۔ بالکل وہی عذر کہ ہمارے پاس نفری کم تھی، ہجوم بہت زیادہ تھا، ہجوم بہت زیادہ مشتعل تھا وغیرہ وغیرہ۔ اگر عام لوگوں کی بات کی جائے تو لوگوں کی بے حسی دیکھ عقل دنگ رہ گئی کہ انہوں نے اسے بچانے کے بجائے سیلفیاں لینے کو ترجیح دی، جس سے واضح طور پر ہماری اجتماعی بے حسی کا پتا چلتا ہے۔
موجودہ واقعہ سیالکوٹ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا لیکن قارئین کو یاد ہوگا کہ اس قسم کا ایک واقعہ غالباً دس برس پہلے بھی سامنے آیا تھا جس میں مشتعل ہجوم نے دو بھائیوں کو جان سے مار دیا تھا اور عذر یہ تراشا تھا کہ یہ ڈاکو ہیں۔ مندرجہ بالا دونوں واقعات ایک ایسی ہستی کے شہر میں ہوئے ہیں جنہیں دنیا امن کے شاعر، محبت کے شاعر اور ملت کے شاعر کے نام سے یاد کرتی ہے، جو عدم تشدد کی بات کرتے تھے، امن، محبت اور روادری کی بات کرتے تھے۔ ان واقعات کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ شاید اقبال کے شہر کے عوام میں برداشت ختم ہوچکی ہے جو ہم سب کےلیے لمحہ فکریہ ہے۔
مذکورہ واقعے کے بعد حکومت کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ حکمت عملی بنانا ہوگی، کیونکہ تاحال ہمارے ملک پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے اور جب ہم گرے لسٹ سے نکلنے کےلیے پورا زور لگا رہے ہیں تو پہلے ایک مذہبی جماعت کے دھرنے اور حکومت کو اپنی شرائط پر معاہدہ کرنے کےلیے مجبور کرنے جیسا واقعہ اور اب مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک غیر ملکی کے بے رحم قتل نے حکومت کی گرے لسٹ سے نکلنے والی کاوشوں کو یقیناً سبوتاژ کیا ہے۔ اس طرح کے واقعات کو ہمارا پڑوسی ملک بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
سیالکوٹ شہر سے بننے والا کھیلوں کا سامان پوری دنیا میں برآمد کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس ضمن میں خدشہ ہے کہ کہیں عالمی منڈی میں اپنی کھیلوں کی پروڈکٹس کو برآمد کرنے میں مشکل پیش نہ آئے۔ یقیناً اس تاثر کو زائل کرنے میں کہ ہم امن پسند نہیں، مغرب اور یورپ کو سمجھانے میں وقت لگے گا۔ اس لیے حکومت کو ان پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر حکمت عملی بنانا ہوگی اور اپنے وزرا کو بھی تنبیہہ کرنا ہوگی کہ اس قسم کے واقعے سے متعلق بیان دیتے وقت اپنے حواس کو بحال رکھیں۔
حیرت کی بات ہے کہ مذہب کےلیے قوانین موجود ہیں اور ان پر سزائیں بھی ہیں، لیکن ایسا کیوں ہے کہ عوام اس قسم کے واقعات میں خود ہی جج بن کر فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں اپنے قوانین اور عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے یا کیا عوام اپنے آپ کو ان قوانین سے زیادہ طاقتور سمجھتے ہیں یا ان کے ذہنوں میں ماضی کے واقعات تو نہیں کہ اگر پہلے کبھی کسی کا کچھ نہیں بگڑا تو اب کیا ہوگا؟ یہ سارے سوال ہیں جو پاکستانی قوم کےلیے لمحہ فکریہ ہیں۔ ان سوالوں کے جواب ہمیں کسی اور نے آکر نہیں بتانے بلکہ ہمیں خود ہی ڈھونڈنے ہوں گے۔ ہم میں برداشت کیوں نہیں ہے؟ ہم کیوں ایک دوسرے کو قبول نہیں کرتے؟ ہم کیوں ان مذہبی قوانین کی آڑ میں دوسروں سے ذاتی پرخاش نکالتے ہیں؟
ایک پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے مجھے تو بہت دُکھ ہوتا ہے کیونکہ ملک کے عوام کسی نہ کسی مذہب کو ماننے والے ہیں اور ہر مذہب امن کی بات کرتا ہے۔ ہمارا ملک صوفیا، درویشوں، سنتوں، بھگتوں، پیروں، فقیروں، اولیا کرام سے جانا جاتا ہے، امن کے داعی شاعروں، ادیبوں، مصنفین، آرٹسٹوں اور کھلاڑیوں سے جانا جاتا ہے لیکن ہمارے ہی ملک میں جب اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں تو کوئی ایسی بات ہے جس کو بھولنے کی وجہ سے مندرجہ بالا تمام ہستیوں کے امن کے پیغام کے باوجود ہم پرامن نہیں ہیں۔
کیوں ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے؟ کیوں ہم ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کی کوشش میں رہتے ہیں؟ کیوں ہم کسی کو تسلیم نہیں کرتے ؟ یہ تمام ''کیوں'' ہمیں اس پیغام کی طرف لے جارہے ہیں کہ ہمیں اب اس نفرت، غصے اور شدت کو اپنے اندر سے ختم کرکے خود کو امن کا داعی ثابت بھی کرنا ہے۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم دنیا کی پُرامن قوم ہیں۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا اس واقعے کے بعد کوئی غیرملکی ہماری صنعتوں، ہماری فیکٹریوں اور ہماری ملوں میں کام کرنے پر راضی ہوگا؟ کیا انہیں ہم یہ یقین دلا سکیں گے کہ مستقبل میں اس قسم کا کوئی اور واقعہ رونما نہیں ہوگا؟ کیا ہم انہیں یہ یقین دلا سکیں گے کہ ان کے تحفظ کو ہم یقینی بنائیں گے؟ کیا ہم دنیا کو یہ بتانے میں کامیاب ہوسکیں گے کہ ہم تو اپنے مہمانوں کو پلکوں پر بٹھاتے ہیں؟
یہ کام کسی ایک کا نہیں ہے۔ ہمارا دین، ہمارے بزرگ، ہمارے دانشور ہمیں بتا چکے ہیں اور مسلسل بتا رہے ہیں کہ ہم نے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اس ملک کو پُرامن کیسے بنانا ہے۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں تبدیلی خود سے اور اپنے اندر سے شروع کرنی ہے، تب ہی ہم صحیح معنوں میں نئی نسل کو امن کا سبق پڑھا سکیں گے۔ امن کی ترویج کےلیے جدوجہد کرنا صرف سیالکوٹ کے شہریوں کےلیے ہی ضروری نہیں بلکہ پوری قوم کےلیے ضروری ہے تاکہ مستقبل میں پھر بدامنی کا کوئی سانحہ نہ ہوسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔