وہ تعلیم اثر رکھتی ہے جو پیار سے دی جائے

سزا کے ذریعے کچھ تعلیم دی جا سکتی ہے لیکن بچے کی شخصیت نکھر نہیں سکتی


مالک خان سیال February 10, 2014
سزا کے ذریعے کچھ تعلیم دی جا سکتی ہے لیکن بچے کی شخصیت نکھر نہیں سکتی۔ فوٹو: فائل

بچوں کی تعلیم ایک ایسا موضوع ہے جس سے کم و بیش ہر ایک کو دلچسپی ہے۔

کسی مجلس میں اس موضوع کو چھیڑکر دیکھ لیجیے مرد، عورت، امیر، غریب، شہری، دیہاتی، مسلم اور غیر مسلم غرض ہر فرقے اور طبقے کے لوگ متوجہ ہو جائیں گے اور موقع ملا تو ہر ایک اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ تبصرہ بھی کر دے گا۔ تعلیم دراصل وہ عمل ہے جو آدمی کو انسان بناتا ہے، تعلیم کی بدولت بچے معاشرت، تہذیب، مذہب، قانون اور رہن سہن کے طریقے سیکھتے ہیں۔ اسی لئے ہمارا مذہب ہر مرد و عورت پرتعلیم حاصل کرنا فرض قرار دیتا ہے۔ اگر ہم سیرت نبویؐ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے نبیؐ نے اپنے معلم ہونے پر فخر محسوس کیا ہے۔

آج ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ سکولوں میں بچوں کو سزا دے کر پڑھانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مار بچوں کے لئے اسی طرح ضروری ہے جس طرح پودے کے لیے پانی، لیکن مار کے ڈر سے بچہ تعلیم حاصل کر تو لے گا مگر اس میں اس کا دل شامل نہیں ہو گا۔ وہ مجبوراً تعلیم حاصل کر رہا ہو گا اور ایسی تعلیم اس کی شخصیت کو نکھارنے میں کوئی مدد نہ دے گی۔ ہمارے اساتذہ کرام بچوں کو مختلف طرح کی سزائیں اس لیے دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے تعلیمی و انتظامی مقاصد حاصل کر سکیں۔ ان سزائوں میں بچوں کو مارنا، مرغا بنانا، برا بھلاکہنا، دوسروں کے سامنے غصہ کرنا اور دھمکانا وغیرہ شامل ہیں۔

سزا ہمارا وہ رویہ ہوتا ہے جس سے بچے کو تکلیف یا شر مند گی ہوتی ہے اور جس کی بناء پر وہ مجبور ہو کر خاطر خواہ نتائج دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اکثر اساتذہ کرام بچوں کو سزا دینا اپنا حق سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں سزا کے بغیر بچوں کو پڑھانا ناممکن ہے۔ سزا دینے کے حامی اساتذہ کرام بچوں کو اس لیے سزادیتے ہیں تاکہ ان کے رویے میں فوراً تبدیلی لے آئیں۔ ان کو نظم و ضبط کا پابند بنائیں اور بچوں کے ناقابلِ قبول رویوں (جیسا کہ تنگ کرنا، ضد کرنا، لاپرواہی برتنا یا شرارت کرنا) کو ختم کریں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سزا دینے سے بچے سدھر جائیں گے؟ بچوں کو سزا دینے کا معمول ختم کرنے کیلئے یہ سوچنا ضروری ہے کہ کیا سزا سے خاطر نتائج حاصل ہوتے ہیں؟۔کیا سزائوں کے علاوہ بچوں کو نظم و ضبط سکھانے کیلئے کوئی اور بہتر طریقہ ممکن ہے؟ اگر سزا دینے سے خاطر خواہ نتائج حاصل ہو سکتے ہیں تو سزاؤں کو بار بار دہرانا کیوں پڑتا ہے؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ سکولوں میں بچوں کی بہتر تر بیت کیلئے سزا کے بجائے دیگر مثبت طریقے استعمال کیے جانے چاہئیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ استاد کو قابل ہونا چاہیے۔ استاد کے دل میں بچوں کیلئے شفقت اور محبت ہونی چاہیے۔ استاد کو اچھے کردار کا عملی نمونہ ہونا چاہیے۔ بچوں کو سکول میں کھیل کود اور تفریح کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔ بچوں کو ان کے منفی رویوں کے نتائج سے آگاہ رکھنا چاہیے۔ بچوں کی طرف پرنسپل اور اساتذہ کا رویہ مثبت ہونا چاہیے۔ پڑھائی لکھائی میں کمزور بچوں کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ بچوں کے مثبت رویوں اور اچھی کارکردگی پر بلا تفریق حوصلہ افزائی کر نی چاہیے۔ رہنمائی اور مشاورت کے ذریعے بچوںکے مسائل حل کرنے چاہئیں۔ سکولوں میں بچوں کی تربیت کیلئے مثبت طریقوں کو معمول بنانے میں سکول، اساتذہ، والدین اور محکمہ تعلیم کا کردار نہایت اہم ہے۔

 photo Pic5_zps86911435.jpg

سکول کا کردار

بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کے لیے سکول سب سے اہم محرک ہے۔ سکول ہی وہ جگہ ہے جہاں تعلیم جیسے مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے اور قسمت نوع بشر تبدیل ہوتی ہے۔ اگر سکولوں میں بچوں کو تعلیمی ماحول گھر جیسا لگے، اساتذہ ان سے پیار کرنے والے ہوں، ان کی رہنمائی کرنے والے ہوں، ان کے مسائل حل کرنے والے ہوں تو یقیناً بچے سکول لگن کے ساتھ آئیں گے اور اس صورت میں سکول کا کردار ان کے لیے بہت متاثر کن ہو گا جبکہ اس کے برعکس اگر سکول میں انہیں ذلت آمیز سلوک کا سامنا ہو، انہیں تنقید و تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہو اور ان کی عزت نفس مجروح کرنے کا سامان کیا جاتا ہو تو یقینا ایسا ماحول بچوں کے لیے تعلیمی و تربیتی لحاظ سے بالکل غیر موزوں ہو گا۔ بچوں کے مسائل جاننا، ان کی شکایات سن کر ان کا ازالہ کرنا اور ان میں نظم و ضبط پیدا کرنا اساتذہ کے لیے روزمرہ کے معا ملات کا حصہ ہونا چاہیے۔ بچوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ہر سکول میں اساتذہ پر مشتمل ایک کمیٹی ہونی چاہیے جس میں پر نسپل بھی شامل ہو۔ سکولوںکے اندر بچوں اور اساتذہ کے مسائل کے لیے Suggestion Boxلگانا چاہیے جسے روزانہ یا ہفتہ واربنیادوں پر دیکھا جائے اور شکایات و تجاویز پر عمل کیا جائے۔

والدین کا کردار

والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے معا ملات میں خصوصی دلچسپی لیں تاکہ وہ بچوں کے مسائل کو جان سکیں۔ والدین کوبچے کے کسی مسئلے کی صورت میں پرنسپل یا سکول کے اندر قائم کردہ کمیٹی سے آکر بات چیت کرنے سے مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ اساتذہ سے رہنمائی لے کر اور اپنے بچوں کی کار کردگی جان کر ان کے مسئلے حل کرنے چاہئیں۔ بچوں کو ذمہ دار بنانے کے لئے ان کو بڑوں کی عزت کرنا، چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا، دوسرے بچوں کے ساتھ مل جل کر کھیلنا اور پڑھائی پر پورا دھیان دینے کی ترغیب دینی چاہیے۔ بچوں کو مار پیٹ کر ڈسپلن سکھانے یا پڑھائی میں اچھے نتائج حاصل کرنے کی کوشش ایک لاحاصل عمل ہو گا۔ والدین ہر وقت بچے کو تعلیمی سرگرمیوں پر فوکس نہ کروائیں بلکہ بچوں کو کچھ وقت کھیل کود کے لیے بھی دینا چاہیے ورنہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر مفلوج ہو کر رہ جائیں گے۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر ضروریات کا خیال رکھنا بھی والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ اگر والدین بچوں کو اعتماد میں نہیں لیں گے اور ان کے مسائل کا حل پیار سے نہیں کریں گے تو نتیجتاً بچے والدین سے ڈریں گے اور ان سے سچ چھپائیں گے، اور ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولیں گے جس سے بچے مزید الجھتے چلے جائیں گے۔

محکمہ تعلیم کا کردار

سکولوں میں بچوں پر ہونے والی جسمانی اور ذہنی سزاؤں کی روک تھام کیلئے محکمہ تعلیم کا کرداربہت اہم ہے۔ محکمہ تعلیم کوچاہیے کہ وہ سکولوں میں سزاؤں پر پابندی کے حوالے سے مکمل پالیسی مرتب کرے اور ہر سکول میں اس کے نفاذ کو یقینی بنائے۔ اس حوالے سے محکمہ تعلیم کو چاہیے کہ سزاؤں کے متبادل طریقوں پر سکولوں کے سٹاف کی تربیت منعقد کرے۔ ان تربیتوں کا مثبت اثر جاننے اور بہتر کرنے کیلئے مانیٹرنگ اور فالو اپ کرے۔ مثبت ماحول رکھنے والے سکولوں کو سالانہ انعامات دے کر دوسرے سکولوں کیلئے مثالیں قائم کرنی چاہئیں۔ سکولوں میں انسپیکشن کر کے ان میں مثبت ماحول اجاگر کرے اور ان کے مسائل حل کر نے کے لیے رہنمائی کرے۔ محکمہ تعلیم کو سکولوں میں سزاؤں کے واقعات کی صورت میں مناسب ایکشن لینا چاہیے۔ سکولوں میں جسمانی اور ذہنی سزاؤں کا خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب پرنسپل، اساتذہ، والدین اور محکمہ تعلیم مل کر اپنا اپنا کردار ادا کر یں۔ محکمہ تعلیم نے سکولوں میں سزائوں کے خاتمے کے لیے اگرچہ بہت کام کیا ہے۔

''مار نہیں پیار'' کے نعرے سے بہت سے سکولوں میں جسمانی اذیت پر کنٹرول ہوا ہے لیکن ابھی بھی دیہاتوں میں اکثر جسمانی و ذہنی اذیت کا سلسلہ جاری ہے۔ محکمہ تعلیم کو ابھی اس مشن پر مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے اساتذہ جو جدید تعلیمی رجحانات سے ناواقف ہیں اور پرانے طریقہ ہائے تدریس اپنائے ہوئے ہیں، بچوں کی بے راہ روی اور سکولوں سے بھاگ جانے کا بہت بڑا سبب ہیں۔ محکمہ تعلیم میں قابل اساتذہ کی بھرتی کرنے اور کم تعلیم یافتہ اساتذہ کے ہاتھ سے نونہالوں کی باگ ڈور واپس لینا از حد ضروری ہے۔ جدید تعلیمی رجحانات سے واقف، تعلیمی نفسیات کے ماہر اور طلبا کو دردمندی سے پڑھانے والے اساتذہ ہی ہمارے ملک میں تعلیمی بحران کو کم کر سکتے ہیں۔ جس دن بچوں کے انفرادی اختلافات اور ذہنی سطح کو مد نظر رکھ کر ہمارے اساتذہ تعلیم دیناشروع کریں گے اسی دن سے کوئی بچہ بھی سکول سے بھاگے گا نہیں اور سکولوں میںجسمانی اورذہنی سزاؤں کے خاتمہ سے معیار تعلیم بلند ہو گا۔ بچے خوشی سے سکول آئیں گے اور دلچسپی سے پڑھیں گے، ان کی تعلیمی کارکردگی بھی بہتر ہو گی۔ والدین بھی بچوں کو سکولوں میں داخل کرانے میں دلچسپی لیں گے۔ اور ان اقدامات سے ہی سو فیصد خواندہ پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں