نوجوان ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ کیسے بن سکتے ہیں

بے روزگاری اور تعلیمی اخراجات کے بوجھ تلے دبے……


علی رضا شاف February 10, 2014
بے روزگاری اور تعلیمی اخراجات کے بوجھ تلے دبے۔ فوٹو: فائل

نوجوان کسی بھی ملک و قوم کا نہایت قیمتی اثاثہ سمجھے جاتے ہیں اور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ نوجوان نسل ہی ملک کا مستقبل ہیں۔

تحریک پاکستان کے دوران طلباء سے خطاب کرتے ہو ئے قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ''میں آپ لوگو ں کی طرح جوان نہیں ہوں، لیکن آ پ کے جوش و جذبے نے مجھے بھی جواں کر رکھا ہے، آپ کے ساتھ نے مجھے مضبوط بنا دیا ہے'' اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نوجوان نسل کسی بھی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے لئے کس قدر اہم ہیں کیوں کہ ملک کے مستقبل کی باگ ڈور انہوں نے ہی سنبھالنی ہے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہمہ وقت نوجوانوں میں قیادت کی خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ نوجوان زرخیزدماغ کے مالک ہوتے ہیں اور ان کی سوچ معاشرے کے مطابق پروان چڑ ھتی ہے۔ اور ان میں سب سے بڑی خو بی یہ ہوتی ہے کہ وہ معاشرے میں ہو نے والے تمام معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس لئے اگر نوجوانوں کی ضروریات اور ان کے بنیادی حقوق کا خیال نہ رکھا جائے تو ملک میں ترقی کی راہیں ہموار نہیں ہو پاتیں۔

پاکستان میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق نوجوانوں کی تعداد65 فیصد ہے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے گزشتہ برس ہو نے والے انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں نے یوتھ کی ترقی اور انہیں مواقع فراہم کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے۔ اور اِس وقت نوجوانوں کی حمایت اور ترجیح کی بات کرنے والی پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف دونوں کے پاس اقتدار موجود ہے مگر تاحال ایسے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے جن سے برسوں سے بے روز گار اور تعلیم و دیگر وسائل سے محروم نوجوانوں کو ریلیف مل سکے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت یوتھ کی توجہ کا مرکز بنے بغیر الیکشن نہیں جیت سکتی اس لئے تمام سیاسی جما عتوں نے یوتھ کو فوکس کر رکھا ہے۔ سیاسی جما عتیں اپنے منشور میں یوتھ کے لئے خصوصی اقدامات کرنے کا وعدہ کرتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ملک کے حالات اب یوتھ ہی بدل سکتی ہے، مگر ان کے لئے اس طرح کے حالات پیدا کر دیے گئے ہیں کہ وہ بے روزگاری اور تعلیمی اخراجات کے جھنجٹ سے ہی باہر نہیں نکل پا رہے۔

 photo Pic6_zpsacedf48f.jpg

نوجوانوں کے بنیادی مسائل میں بے روزگاری اور تعلیمی سہولیات کی عدم فراہمی سر فہرست ہیں جبکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل25Aکے مطابق ریاست ہر شہری کو میٹرک تک مفت تعلیم دلوانے کی پابند ہے، مگر والدین کے پاس وسائل کی کمی مفت تعلیم کے حصول میں بھی آڑے آجاتی ہے اور جو نوجوان اپنے وسائل کی کمی کے باوجود مستقل مزاجی سے تعلیم حاصل کر لیتے ہیں، ان کا سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے نوجوان نسل میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ نوجوان کئی برسوں سے حکومتی پالیسیوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ حکومتی سطح پر ایسی کوئی پالیسی تشکیل نہیں دی گئی، جس کے تحت جامعات سے فارغ التحصیل طالب علموں کو نوکری کے حصول میںآسانی ہو۔ اکثر نوجوان نوکری نہ ملنے کی وجہ سفارش، رشوت اور میرٹ کو نذرانداز کرنا گر دانتے ہیں۔ نوکریاں نہ ملنے کی وجہ سے نوجوان بیرون ملک رخ کر رہے ہیں۔ وسائل کی کمی اور طبقاتی تفریق کی وجہ سے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے غریب نوجوان اعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم ہو کر رہ گئے ہیں۔ یونیورسٹیز کی فیسوں و دیگر اخراجات نے اعلیٰ تعلیم مراعات یافتہ طبقے تک محدود کر دی ہے۔

پاکستانی خواندہ اور ناخواندہ نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، صرف ان کے ہنر کو تراشنے کے لئے مناسب رہنمائی درکار ہے۔ ماضی میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بہت سے ایسے نوجوان ہیں، جنہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام افق پر لکھا اور بہت سے ایسے نوجوان بھی موجود ہیں جن کو صرف حکومتی سر پرستی درکار ہے، وہ ملک کے لئے بہت کچھ کرنے کے جذبے سے سر شار ہیں۔ نوجوانوں کو بیروزگاری سے نجات دلانے کے لئے وفاقی حکومت کی طرف سے پرائم منسٹر یوتھ بزنس لون سکیم کا آغاز کیا گیا، جس میں ایک لاکھ نوجوانوں کو سالانہ آٹھ فیصد شرح منافع پر قرضے مل سکیں گے۔ ایک لاکھ سے بیس لاکھ تک قرضے کے حصول کے لئے درخواست دی جا سکتی ہے، اس سکیم کے لئے 100ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، مگر ان تمام اقدامات کے ساتھ ساتھ ایسی شرائط لاگو کر دی گئیں ہیں کہ نوجوان در خواست گزار بنک سے ہی فارم سمیت واپس موڑ دیا جاتا ہے کہ اس کے شرائط کے مطابق لوازمات مکمل نہیں ہیں۔

 photo Pic7_zpsefde9a79.jpg

اگر 16ویں سکیل کے ملازم کی ضمانت کے لئے کسی کے پاس جاتے ہیں تو ان کے پاس بھی تحفظات موجود ہیں۔ اول تو کسی ملازم کے اکائونٹ میں اتنی رقم موجود نہیں جتنی شرائط کے مطابق ہونی چا ہئے، اگر رقم موجود بھی ہو تو ان کو خدشات لاحق ہیںکہ اگر قرضہ خواہ قرضہ واپس نہ کر پایا تو اسکی رقم ضبط ہو سکتی ہے۔ اس طرح کی کئی پیچیدگیوں سے خدشہ ہے کہ یہ سکیم کہیں ناکام نہ ہو جائے۔ اس کے علاوہ سکیم میں سود کے پہلو نے نوجوانوں کو تذبذب کا شکار کر رکھا ہے۔ سودی نظام کو ختم کرنے کے بجائے حکومت خود سودی نظام کو تقویت بخشنے کے لئے نت نئے طریقے نکال رہی ہے۔ سودی نظام ایک استحصالی نظام ہے جس میں سرمایا غریب سے امیر کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ ان تمام پہلوئوں کی بدولت نوجوانوں نے اس سکیم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق نوجوانوں کاکہنا ہے کہ اگر حکومت نوجوانوں کے لئے اقدامات کرنا ہی چاہتی ہے تو سود سے پاک آسان شرائط پر قرضِ حسنہ فراہم کیا جائے اور الیکشن کے دنوں میں نوجوانوں سے کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں تاکہ نوجوان بھی خود مختار ہو کر ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں