شادیاں ادلے بدلے کی۔۔۔ ایک رِیت جو مشکلات باعث ہے
ادلے بدلے کی شادیوں میں دونوں جوڑے بہت زیادہ ایک دوسرے کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں
قدیم زمانے میں اکثر خاندان کے بزرگ اپنے بچوں کی شادی خاندان سے باہر کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔
چاہے خاندان میں ان کے لیے مناسب بَر ہو یا نہیں، انہیں ہر صورت خاندان میں ہی شادی کرنی ہوتی تھی۔ خاص طورپر لڑکیوں کی غیر خاندان میں شادی گناہ کی طرح تصور کی جاتی تھی۔ کچھ شدت پسند گھرانے غیر خاندان میں شادی کرنے کے جرم میں اس لڑکے یا لڑکی سے قطع تعلق کر لیا کرتے تھے یا کہیں تو انہیں جان سے بھی مار دیا جاتا تھا۔ لڑکا اور لڑکی خاندان سے باہر شادی نہ کریں اور گھر کی جائیداد گھر میں رہے یا پھر خاندان کے اونچے شملے پر کوئی حرف نہ آئے، اسی صورت حال کے پیش نظر ایسے لوگوں میں ''ادلے بدلے'' کی شادی کا رجحان پروان چڑھا۔ اس شادی میں ایک گھرانے کے ہی لڑکے اور لڑکی کے جو بھائی بہن ہوتے ہیں، ان کی دوسرے گھر کے لڑکے اور لڑکی سے شادی کر دی جاتی ہے۔ یعنی لڑکی بیک وقت اپنی بھابھی کی نند بھی ہوتی ہے اور بھاوج بھی۔ جب کہ دوسری جانب بھی یہی صورت حال ہوتی ہے۔
بعض گھرانوں میں ''ادلے بدلے'' کی شادی آج بھی بہت سختی سے رائج ہے اور خاندان کے بڑیاس روایت سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ شادی ذمہ داریوں سے پُر ایک مضبوط بندھن ہے۔ اسے اس طرح کی دقیانوسی روایات کے بھینٹ چڑھانا حماقت ہے۔ اگر دونوں فریق میں کوئی ایک یا پھر دونوں اس بندھن میں بندھنے کے لیے راضی نہ ہوں تو پھر وہ کیسے اس ذمے داری کو نبھائیںگے؟ نتیجتاً ایسی شادی کا انجام پھر جھگڑوں اور طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان بچوں کو ہوتا ہے، جن کے ماں باپ تو زبردستی کے بندھن سے آزاد ہو جاتے ہیں، مگر ان کی زندگیوں کو جہنم بنا دیتے ہیں۔
ادلے بدلے کی شادیوں میں ایسا بھی ہوتاہے کہ اگر ایک شادی شدہ جوڑا بہت خوش اور مطمئن ازدواجی زندگی گزار رہا ہوتا ہے اور دوسرا جوڑا ناخوش اور غیر مطمئن ہوتا ہے، تو ان کی ناکام شادی شدہ زندگی کا اثر خوش حال شدی شدہ جوڑے پر بھی پڑتا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان اس بات پر لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں کہ ''تمہارا بھائی میری بہن کو سکھ نہیں دے رہا۔'' یا پھر دوسرا جوڑا محض ایک دوسرے سے انتقام لینے کی غرض سے اپنے بھائی یا اپنی بہن کو اکساتے ہیں کہ ''تمہاری بیوی کے بھائی نے تمہاری بہن کی خوشیوں کو نگل لیا'' یا ''تمہارے شوہر کی بہن نے میرے گھر کو اجاڑ دیا اور تم اس لڑکے کے بھائی کا گھر سنبھال رہی ہو'' اور یوں دوسرے کا بھی ہنستا بستا گھر برباد ہونے لگتا ہے۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتاہے کہ دو سگی بہنیں دو سگے بھائیوں سے بیاہی جاتی ہیں گو کہ اسے ادلے بدلے کی شادی نہیں کہا جاتا، مگر مسائل و مشکلات ادلے بدلے کی شادی سے کافی ملتے جلتے ہوتے ہیں۔ یہاں ایک نئی اور سنگین صورت حال پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ چوںکہ دونوں بہنوں کے سسرال ایک ہی ہوتے ہیں، لہٰذا سگی بہنوں میں ہی مقابلے اور مسابقت کی فضا پروان چڑھنے لگتی ہے۔ دونوں خود کو برتر اور سسرال میں اعلا مقام حاصل کرنے کی غرض سے دوسرے کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف عمل رہتی ہیں۔ اگر ایک بہن سسرال والوں کی منظور نظر اور پسندیدہ ہوتی ہے، تو دوسری بہن اپنی ماں جائی کے خلاف اپنے دل میں حسد اور بغض محسوس کرنے لگتی ہے۔
ادلے بدلے کی شادی کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر ایک جوڑا مالی اعتبار سے آسودہ حال ہوتا ہے تو دوسرا جوڑا احساس کم تری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر موازنہ کرتے ہوئے ایک جوڑے کی تلخی دوسرے جوڑے کی زندگی میں گھلنے لگتی ہے۔
سیانے کہتے ہیں کہ میاں بیوی کے جھگڑے کے درمیان کسی تیسرے فریق کو بالکل مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ ادلے بدلے کی شادیوں میں دونوں جوڑے بہت زیادہ ایک دوسرے کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، یوں براہ راست مداخلت کا پہلو سامنے آتا ہے۔ اس کے نتائج سنگین نکلتے ہیں۔ شادی کا یہ طریقہ دراصل اس بندھن کی روح سے دور ہے۔ اس میں دونوں جوڑے ایک دوسرے کے دوش پر ہوتے ہیں اور رشتہ داری کم اور سودے بازی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ نئے خاندان کی بنیاد اس طریقے سے رکھنا کسی طور مناسب نہیں، لہٰذا اسے گمبھیر بنانے کے بہ جائے آسان طریقہ اختیار کرنا چاہیے، تاکہ شادی کے بعد پرسکون زندگی گزاری جا سکے۔
چاہے خاندان میں ان کے لیے مناسب بَر ہو یا نہیں، انہیں ہر صورت خاندان میں ہی شادی کرنی ہوتی تھی۔ خاص طورپر لڑکیوں کی غیر خاندان میں شادی گناہ کی طرح تصور کی جاتی تھی۔ کچھ شدت پسند گھرانے غیر خاندان میں شادی کرنے کے جرم میں اس لڑکے یا لڑکی سے قطع تعلق کر لیا کرتے تھے یا کہیں تو انہیں جان سے بھی مار دیا جاتا تھا۔ لڑکا اور لڑکی خاندان سے باہر شادی نہ کریں اور گھر کی جائیداد گھر میں رہے یا پھر خاندان کے اونچے شملے پر کوئی حرف نہ آئے، اسی صورت حال کے پیش نظر ایسے لوگوں میں ''ادلے بدلے'' کی شادی کا رجحان پروان چڑھا۔ اس شادی میں ایک گھرانے کے ہی لڑکے اور لڑکی کے جو بھائی بہن ہوتے ہیں، ان کی دوسرے گھر کے لڑکے اور لڑکی سے شادی کر دی جاتی ہے۔ یعنی لڑکی بیک وقت اپنی بھابھی کی نند بھی ہوتی ہے اور بھاوج بھی۔ جب کہ دوسری جانب بھی یہی صورت حال ہوتی ہے۔
بعض گھرانوں میں ''ادلے بدلے'' کی شادی آج بھی بہت سختی سے رائج ہے اور خاندان کے بڑیاس روایت سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ شادی ذمہ داریوں سے پُر ایک مضبوط بندھن ہے۔ اسے اس طرح کی دقیانوسی روایات کے بھینٹ چڑھانا حماقت ہے۔ اگر دونوں فریق میں کوئی ایک یا پھر دونوں اس بندھن میں بندھنے کے لیے راضی نہ ہوں تو پھر وہ کیسے اس ذمے داری کو نبھائیںگے؟ نتیجتاً ایسی شادی کا انجام پھر جھگڑوں اور طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان بچوں کو ہوتا ہے، جن کے ماں باپ تو زبردستی کے بندھن سے آزاد ہو جاتے ہیں، مگر ان کی زندگیوں کو جہنم بنا دیتے ہیں۔
ادلے بدلے کی شادیوں میں ایسا بھی ہوتاہے کہ اگر ایک شادی شدہ جوڑا بہت خوش اور مطمئن ازدواجی زندگی گزار رہا ہوتا ہے اور دوسرا جوڑا ناخوش اور غیر مطمئن ہوتا ہے، تو ان کی ناکام شادی شدہ زندگی کا اثر خوش حال شدی شدہ جوڑے پر بھی پڑتا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان اس بات پر لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں کہ ''تمہارا بھائی میری بہن کو سکھ نہیں دے رہا۔'' یا پھر دوسرا جوڑا محض ایک دوسرے سے انتقام لینے کی غرض سے اپنے بھائی یا اپنی بہن کو اکساتے ہیں کہ ''تمہاری بیوی کے بھائی نے تمہاری بہن کی خوشیوں کو نگل لیا'' یا ''تمہارے شوہر کی بہن نے میرے گھر کو اجاڑ دیا اور تم اس لڑکے کے بھائی کا گھر سنبھال رہی ہو'' اور یوں دوسرے کا بھی ہنستا بستا گھر برباد ہونے لگتا ہے۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتاہے کہ دو سگی بہنیں دو سگے بھائیوں سے بیاہی جاتی ہیں گو کہ اسے ادلے بدلے کی شادی نہیں کہا جاتا، مگر مسائل و مشکلات ادلے بدلے کی شادی سے کافی ملتے جلتے ہوتے ہیں۔ یہاں ایک نئی اور سنگین صورت حال پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ چوںکہ دونوں بہنوں کے سسرال ایک ہی ہوتے ہیں، لہٰذا سگی بہنوں میں ہی مقابلے اور مسابقت کی فضا پروان چڑھنے لگتی ہے۔ دونوں خود کو برتر اور سسرال میں اعلا مقام حاصل کرنے کی غرض سے دوسرے کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف عمل رہتی ہیں۔ اگر ایک بہن سسرال والوں کی منظور نظر اور پسندیدہ ہوتی ہے، تو دوسری بہن اپنی ماں جائی کے خلاف اپنے دل میں حسد اور بغض محسوس کرنے لگتی ہے۔
ادلے بدلے کی شادی کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر ایک جوڑا مالی اعتبار سے آسودہ حال ہوتا ہے تو دوسرا جوڑا احساس کم تری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر موازنہ کرتے ہوئے ایک جوڑے کی تلخی دوسرے جوڑے کی زندگی میں گھلنے لگتی ہے۔
سیانے کہتے ہیں کہ میاں بیوی کے جھگڑے کے درمیان کسی تیسرے فریق کو بالکل مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ ادلے بدلے کی شادیوں میں دونوں جوڑے بہت زیادہ ایک دوسرے کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، یوں براہ راست مداخلت کا پہلو سامنے آتا ہے۔ اس کے نتائج سنگین نکلتے ہیں۔ شادی کا یہ طریقہ دراصل اس بندھن کی روح سے دور ہے۔ اس میں دونوں جوڑے ایک دوسرے کے دوش پر ہوتے ہیں اور رشتہ داری کم اور سودے بازی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ نئے خاندان کی بنیاد اس طریقے سے رکھنا کسی طور مناسب نہیں، لہٰذا اسے گمبھیر بنانے کے بہ جائے آسان طریقہ اختیار کرنا چاہیے، تاکہ شادی کے بعد پرسکون زندگی گزاری جا سکے۔