صحت کے نظام پر توجہ کی ضرورت

حکومت نے روزگار نہیں دیا، گیس، گندم اور چینی کی قلت نے مہنگائی کا پہاڑ عوام کے سر پر گرا دیا۔


Editorial December 09, 2021
حکومت نے روزگار نہیں دیا، گیس، گندم اور چینی کی قلت نے مہنگائی کا پہاڑ عوام کے سر پر گرا دیا۔ فوٹو: فائل

FAISALABAD: کورونا وائرس کا اومی کرون ویرینٹ، ڈیلٹا ویرینٹ سے زیادہ خطرناک نہیں، اومی کرون سے متعلق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا اہم بیان سامنے آ گیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدائی جائزے کے مطابق اومی کرون ڈیلٹا کے مقابلے میں شدید بیماری کا سبب نہیں، اومی کرون کے خلاف موجودہ ویکسین کے ناکام ہونے کا امکان بھی نہیں۔ ماہرین نے کہا ہے کہ اومی کرون سے متعلق یہ انتہائی ابتدائی جائزہ ہے، اس لیے ہمیں بہت محتاط ہونے کی جب کہ ہیلتھ کیئر سسٹم کو بے حد توجہ کی ضرورت ہے، ملک میں ابھی بھی کورونا سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں، اس لیے کورونا کے خاتمہ کے لیے ابھی تک کوئی حتمی اعلان جاری نہیں ہوسکا۔

حکومت کو 74 سالہ حفظان صحت کے سسٹم کو جدید سہولتوں سے آراستہ کرنے اور صحت مسیحائوں کو وبائوں سے بچائو کے لیے عوام کو ایک باوقار نظام دینے کے خواب کی تعبیر دینی چاہیے، وفاقی و صوبائی حکومتوں کا بنیادی فرض ہے کہ وہ تعلیم، صحت، روزگار، ٹرانسپورٹ اور رہائش کے لیے سہولتیں مہیا کریں، غربت کا ملک سے خاتمہ ناگزیر ہے۔

یہ خوش آئند اطلاع ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کی چوتھی لہر کی شدت کم ہو رہی ہے، کورونا وائرس کے کیسز کے بعد اب اموات میں بھی کمی آ رہی ہے، ملک کورونا مریضوں کے حوالے سے مرتب کی گئی فہرست میں 34 ویں نمبر پر آ چکا ہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کے مزید 310 کیسز سامنے آئے ہیں، مزید 9 افراد اس موذی وبا کے سامنے زندگی کی بازی ہار گئے، اس کے مزید 283 مریض شفایاب ہو گئے، جب کہ مثبت کیسز کی شرح 0 اعشاریہ 71 فیصد پر آ گئی۔ پاکستان بھر میں اب تک 28 ہزار 793 کورونا وائرس کے مریض انتقال کر چکے ہیں جب کہ اس موذی وائرس کے کل مریضوں کی تعداد 12 لاکھ 87 ہزار 703 ہو چکی ہے۔

ملک بھر میں اسپتالوں، قرنطینہ سینٹرز، وینٹی لیٹرز اور گھروں میں کورونا وائرس کے 11 ہزار 844 مریض زیرِ علاج ہیں، جن میں سے 783 مریضوں کی حالت تشویش ناک ہے، جب کہ 12 لاکھ 47 ہزار 66 مریض اب تک اس بیماری سے شفایاب ہو چکے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک میں کورونا وائرس کے مزید 43 ہزار 503 ٹیسٹ کیے گئے، جب کہ اب تک کل 2 کروڑ 23 لاکھ 38 ہزار 650 کورونا ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔

پاکستان بھر میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 11 لاکھ 20 ہزار 16 افراد کو کورونا وائرس کی ویکسین دی گئی، اب تک کل 12 کروڑ 77 لاکھ 6 ہزار 528 کورونا ویکسین کی خوراکیں دی جا چکی ہیں جب کہ 5 کروڑ 30 لاکھ 31 ہزار 529 افراد کی مکمل ویکسینیشن ہو چکی ہے۔

سندھ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد دیگر صوبوں سے زیادہ 4 لاکھ 77 ہزار 119 ہو چکی ہے، جب کہ اس سے کل اموات 7 ہزار 630 ہو گئیں۔ پنجاب میں کورونا وائرس کے اب تک 4 لاکھ 43 ہزار 610 مریض رپورٹ ہوئے ہیں، جب کہ یہاں کل ہلاکتیں دیگر صوبوں سے زیادہ ہیں جو 13 ہزار 44 ہو چکی ہیں۔

خیبر پختون خوا میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 1 لاکھ 80 ہزار 471 ہو چکی ہے، جب کہ یہاں کل اموات 5 ہزار 868 ہو گئیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 1 لاکھ 7 ہزار 989 کورونا وائرس سے متاثرہ مریض اب تک سامنے آئے ہیں، جب کہ اب تک یہاں کل 961 افراد اس وبا سے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

آزاد جموں و کشمیر میں کورونا وائرس کے اب تک 34 ہزار 586 مریض رپورٹ ہوئے ہیں، جب کہ اس کے باعث اب تک یہاں کل 742 مریض وفات پا چکے ہیں۔ کورونا وائرس کے بلوچستان میں 33 ہزار 514 مریض اب تک رپورٹ ہوئے ہیں جہاں 362 افراد اس مرض سے انتقال کر چکے ہیں۔ گلگت بلتستان میں 10ہزار 414 کورونا وائرس کے مریض سامنے آئے ہیں جب کہ اس سے اب تک 186 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

امید کی جانی چاہیے کہ وائرسز سے نمٹنے میں پاکستان خطے کے کسی ملک سے پیچھے نہیں رہیگا۔ اہل اقتدار کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ بیماری طاقتور ترین انسان کو بھی مایوسی اور احساس شکست کی گہر میں دھکیل دیتی ہے، یہ ایک الم ناک حقیقت ہے کہ کورونا کے حوالہ سے ملک کے کسی حصے سے کورونا کی بیماری، اس سے پیدا شدہ مصائب سرکاری اسپتالوں اور نجی اسپتالوں کی چیرہ دستیوں کی داستانیں کسی کتاب یا تحقیقی دستاویز کی شکل میں سامنے نہیں آئیں، یہ ایسی بیماری تھی جس نے ہزاروں گھروں کے چولہے ٹھنڈے کر دیے، لاکھوں محنت کشوں سے ان کا روزگار چھینا، دنیا میں بھی ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں۔

بعض ماہرین نے لکھا کہ پہلی بار دنیا کا ہیلتھ کیئر سسٹم لاوارثی کی نذر ہوا، امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرنس ایران، بھارت اسپین اور دیگر ملکوں میں لوگ پاگلوں کی طرح در بدر مسیحائوں کی تلاش میں سرگرداں رہے، پاکستان میں کورونا کی ابتدا ایران سے ہوئی، چنانچہ ایران سے بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں ایران سے رشتہ داروں اور مہمانوں کی آمد بند ہوگئی، لوگ تین فٹ فاصلہ تو درکنار برسوں اپنے قریبی عزیز و اقارب سے منہ چھپاتے پھرتے رہے، جن کو کورونا ہوا ان کے لیے اسپتالوں میں داخلہ بند ہوگیا، قبرستان میں میتوں کی تدفین مشکل ہوگئی۔

ایک اطلاع کے مطابق سیکڑوں مریض اس شبہ میں کورونا کے مریض قرار دیے گئے، ان کی لاشیں غائب کر دی گئیں۔ صنعتی یونٹس، دفاتر، کارخانے اور فیکٹریوں کو تالے لگ گئے، جو دیہاڑی دار مزدور تھے، ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی، کورونا کی ٹیسٹ رپورٹ مہنگی ہوگئی، دوسری طرف مہنگائی کو پر لگ گئے، دس روپے کی سبزی80 روپے کی ہوگئی، دوائوں کے دام بڑھ گئے، روٹی، ڈبل روٹی کی قیمیں بڑھ گئیں، بسکٹ، کیک، لسی دہی اور دودھ کی قیمتوں میں من مانا اضافہ ہوا، غریب آدمی کو کورونا اور دکانداروں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا، بے روزگاری اور مہنگائی نے ملکی معیشت اور تعلیم کا ستیا ناس کر دیا۔

جن گھرانوں نے آن لائن بچوں کی تعلیم شروع کرائی انھیں بھی مہنگائی، بجلی اور گیس کی قلت نے چین سے کھانے اور پڑھنے نہیں دیا، اس صورتحال میں سب سے زیادہ عوام کو دکھ حکومتی نااہلی اور بے حسی پر ہوا، کوئی رحمدلی اور ہمدردی حکومت کی جانب سے عوام کے حصے میں نہیں آئی، حکومت تبدیلی کے نعرے پر اقتدار میں آئی تھی لیکن حکومت کے مشیر، وزرا اور خصوصی معاونین اور نام نہاد ٹائیگر سب عوام سے دور ہوگئے۔

حکومت نے روزگار نہیں دیا، گیس، گندم اور چینی کی قلت نے مہنگائی کا پہاڑ عوام کے سر پر گرا دیا۔ کورونا ایک ناقابل بیان مشکل ثابت ہوئی، اللہ خیر کرے ابھی تک تو اومیکرون نے پاکستان کا رخ نہیں کیا، غربت، افراط زر اور مہنگائی پر مشیر خزانہ شوکت عزیز میڈیا پر گفتگو اور نئے اعلانات ہی کرتے ہیں، ان سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا۔

عوامی حلقوں اور حکومت مخالف سیاسی جماعتوں میں آج بھی یہ بحث چل رہی ہے کہ تبدیلی کا نعرہ لگا کر وزیر اعظم عمران خان آئے، اس نعرے کی حقیقت وہ کیوں ثابت نہیں کرسکے، لیکن ایک حلقے کو یقین تھا کہ کورونا اور مہنگائی نے حکومت کو کمزور کیا، عوام اس نعرے سے بد ظن ہوئے اور اس کا ایک بنیادی سبب پی ٹی آئی کی نعرہ بازی تھی، عمران نے عوام سے اپنا رشتہ مضبوط نہیں کیا، وہ پہلے دن سے شریف فیملی اور زرداری گھرانے کے احتساب میں الجھ گئے، پھر ملک میں جو سیاست شروع ہوئی وہ الزام تراشی اور محاذ آرائی سے شروع ہوئی اور اسی بلیم گیم پر ختم ہوئی۔

حد تو یہ ہے کہ جتنے پروگرام اور پالیسیاں تھیں ان کی تکمیل کے لیے کسی کو یاد نہیں رہا کہ ہزاروں لاکھوں ووٹرز نے نظام کی تبدیلی کی امید میں ووٹ دیے تھے، مگر سیاست کب کسی کی سنتی ہے، انصاف، مساوات، میرٹ اور اقتصادی و معاشی پالیسیوں کی تکمیل کے لیے ذہین، سجھدار اور جہاں دیدہ سیاستدان درکار ہوتے ہیں، بدقسمی سے ایک ولولہ انگیز ٹیم ملک کا نظام تبدیل نہ کرسکی، الٹا رہے سہے سیاسی نظام کو جان کے لالے پڑ گئے، ایک بے یقینی سی بے یقینی ہے، عوام بہت مشکل میں ہیں، کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

اب بھی وقت ہے، ارباب اختیار صبر، دانشمندی اور سیاسی بصیرت سے کام لیں، مفاہمت اور انصاف کے ساتھ معاملات کو طے کریں، اگر یہ ان ہی اپوزیشن اور حکومت ٹکرائو کی پالیسیوں پر گامزن رہے تو اس کا انجام ملکی سیاست کے حق میں اچھا نہیں ہوگا، سیاسی تصادم سے غیر سیاسی قوتوں کو واک اوور مل گیا تو نقصان کس کا ہوگا، اس سوال پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو سوچنا ہوگا۔ اور سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

ارے بومٕ تری تو فصل گل نے یہ چمن اجاڑ کے رکھ دیا

نہ کوئی گل کھلا، نہ کلی ہنسی، ہمیں شک ہے ایسی بہار پر

کسی صحت مسیحا نے کہا تھا کہ جس ملک میں حفظان صحت سسٹم مستحکم ہو اور انسان دوستی کی لہر اس میں دوڑتی ہو، کوئی مریض زندگی کی امید سے کبھی مایوس نہیں ہوسکتا، لہٰذا بیمار لوگوں کے لیے اسپتال امید کا گھر ہیں، حکومت ان گھروں کو مستحکم رکھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔