معاشی انقلاب

اگر انھیں ملک میں پیسے کا صحیح استعمال ہوتا دکھائی دے تو یہ قوم زیادہ سے زیادہ ٹیکس دینے کو تیار ہے۔

ali.dhillon@ymail.com

لاہور:
''دی سیلیکون ویلی '' شمالی کیلیفورنیا کا وہ علاقہ ہے جہاں ہائی ٹیک صنعتیں مرکوز ہیں، اسے امریکا نے خاص طور پر ٹیکنالوجی ہب کے لیے مختص کیا ہے۔ اس علاقے میں اُن تمام ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ہیڈآفس قائم ہو رہے ہیں جو دنیا میں ٹیکنالوجی کے میدان میں انقلاب لا رہی ہیں، یا لاچکی ہیں۔ ان کمپنیوں کی سالانہ آمدنی 500 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تمام کمپنیوں کے سی ای اوز ''انڈین نژاد'' یا خالص انڈین ہیں۔ جب کہ حال ہی میں مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ''ٹویٹر'' کے سی ای او ''پراگ اگروال'' بھی انڈین ہیںجو منتخب بھی ہو چکے ہیں۔ یعنی اب مائیکرو سافٹ کے ''ستیہ نڈیلا '' گوگل کے ''سندر پچائی ''، آئی بی ایم کے ''اروند کرشنا''، اڈوبی کے شانتانو نارائن، پالو آلٹو نیٹورکس کے ''نکیش اروڑا''، وی ایم ویئر کے ''رنگ راج'' اور ویمو کے سی ای او کورٹینا وغیرہ کے بعد اب پراگ اگروال بھی دنیا کی سب سے بااثر سیلیکون ویلی کمپنیوں کے ان درجن بھر سربراہوں میں شامل ہوگئے ہیں جن کا تعلق انڈیا سے ہے۔

الغرض انڈیا ٹیکنالوجی میں اس قدر آگے نکل چکا ہے کہ امریکا کے 70فیصد سے زائد ایچ ون بی ویزے جو امریکا جاری کرتا ہے وہ انڈین سافٹ ویئر انجینئرز کو جاتے ہیں۔

مطلب اگر ایک طرف انڈین قوم Extremeلیول کی شدت پسند ہے تو دوسری طرف مقابلہ جاتی امتحانات میں اُن کا کوئی ثانی نہیں ہے، اُن کی معیشت ہم سے بہت بہتر ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بھارت ہم سے ٹیکنالوجی میں 20سال آگے اور معیشت میں 40سال آگے ہے تو اس میں کوئی دور ائے نہیں ہوں گی۔

ہمارا آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پانچواں نمبر ہے، لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ ہمارا معاشی لحاظ سے دنیا بھر میں 97واں نمبر ہے، پاکستان کے بیرونی قرضے 127 ارب ڈالر کو پہنچ گئے ہیں۔ ہماری معیشت کے کل حجم دیکھتے ہوئے ہمارے لیے بیرونی قرض کے سود کی قسط ادا کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ہمارا برآمدات میں 67واں نمبرہے۔


رواں مالی برس میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری ابھی تک صرف 238 ملین ڈالر ہے۔ لندن میں بیٹھے گورنر پنجاب چوہدری سرور آئی ایم ایف کے چھ ارب ڈالر کا کچا چٹھا بیان کر رہے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے اب تک 50 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا اور حالیہ واقعات کے بعد آیندہ اجلاس بھی اچھی خبر نہیں لائے گا۔

1190 ڈالر کی فی کس آمدنی کے ساتھ ہم دنیا میں 181نمبر پر ہیں اور آیندہ ہفتے منی بجٹ کے ہمراہ مہنگائی کا ایک طوفان نمودار ہو گا۔ اس اندھے کنویں سے معیشت کو کیسے باہر نکالا جائے۔ بیرونی سرمایہ کاری بڑھائی جائے اور برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔ اس حوالے سے ہمارے حکمران سوچنے یا سمجھنے سے قاصر ہیں۔

لہٰذااب ہمیں کسی مصلحت پسند لیڈر کی نہیں بلکہ کسی انقلابی لیڈر کی ضرورت ہے، ہر چیز پر کمپرومائز کرنے والے لیڈر کی نہیں بلکہ قوم کے بارے میں سخت فیصلے لینے والے لیڈر کی ضرورت ہے۔ قوم نے کہا تھا قدم بڑھائو عمران خان ہم تمہارے ساتھ ہیں ، لیکن معذرت کے ساتھ موصوف نے قدم ہی نہیں بڑھایا۔اگر آپ قوم کی بات کرتے ہیں تو یہ قوم دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والی قوم ہے، اگر انھیں ملک میں پیسے کا صحیح استعمال ہوتا دکھائی دے تو یہ قوم زیادہ سے زیادہ ٹیکس دینے کو تیار ہے۔

فی الوقت قوم کو نہ تو اس ملک کے حکمرانوں پر یقین ہے، نہ پولیس پر، نہ عدالتوں پر، نہ سرکاری اداروں پر۔ اس لیے سب سے پہلے یقین بنائیں، اعتماد بنائیں۔ اپنا اعتماد بنائیں کہ جو پیسے عوام کے ملکی اکائونٹ میں آئیں وہ صحیح جگہ استعمال ہوں۔

آپ خوشحال ہیں تو سبھی ملک آپ کی طرف کھینچے چلے آئیں گے، لیکن اگر آپ کے پاس پیسہ نہیں ہے تو آپ کچھ بھی نہیں ہیں۔
Load Next Story