ہزاروں انکشافات

کورونا کے پھیلاؤ کے دوران گھر میں مقید ہوئے تو کتاب لکھنے کا قصد کیا۔


Dr Tauseef Ahmed Khan December 09, 2021
[email protected]

لاہور: لطافت علی صدیقی کا شمار ملک کے معروف صحافیوں میں ہوتا ہے۔ ساری عمر ملازمتوں سے نکالے گئے یا خود ملازمت چھوڑتے رہے۔ پھر لطافت صدیقی کینیڈا ہجرت کرگئے۔

کورونا کے پھیلاؤ کے دوران گھر میں مقید ہوئے تو کتاب لکھنے کا قصد کیا۔ان کی کتاب ہزاروں انکشافات، سازشیں، سیاہ راتیں، قاتل اور مقتول کی داستانیں کے نام سے حال ہی میں کراچی سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب کے باب اول کا عنوان ''کورونا کے دن کورونا کی راتیں، پاکستان کی تاریخ کے چند اوراق، جنھیں بھلایا نہیں جاسکتا'' ہے۔

لطافت صدیقی نے اس باب میں معروف ترقی پسند ادیب اور روزنامہ مساوات کے سابق ایڈیٹر ابراہیم جلیس سے آخری ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 18اکتوبر 1977 کو اپنی شادی کے لیے دہلی جانے والا تھا۔ 17 اکتوبر کو مجھے خیال آیا کہ میں نے اپنے دوست اور جرنلسٹس ساتھی شہریار جلیس کو ابھی تک نہیں بتایا کہ میں اپنی شادی کے لیے ہندوستان جا رہا ہوں۔ اس دن کسی دوست نے بتایا کہ شہریار اپنے والد ابراہیم جلیس سے ملنے مساوات کے دفتر گئے ہیں، میں وہاں چلا گیا۔

جلیس صاحب نے کہا کہ شہریار تو یہاں نہیں آیا۔ ان سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے لگا کہ جلیس صاحب اداس ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ کیا بتائیں جنرل ضیاء الحق نے ہمارا جینا مشکل کر دیا ہے۔ہمیں کل بھی بلایا ہے۔ ہم مر جائیں گے لیکن کل اسلام آباد ہرگز نہیں جائیں گے۔ اگلے دن جب میں دہلی جانے کے لیے کراچی ایئر پورٹ پہنچا تو وہاں عبداﷲ جعفری نے بتایا کہ ابراہیم جلیس کا اچانک انتقال ہوگیا ہے۔ میں نے خود سے کہا کہ جلیس صاحب آخرکار آپ نے اپنا وعدہ پورا کر ہی دیا۔

کتاب کے دوسرے باب کا عنوان ''قائد اعظم کی طبعی موت یا ایک سازش'' ہے۔ بابائے قوم زیارت میںدم توڑ چکے تھے۔ وہ قائد اعظم کی 11 اگست 1947کی بنیادی تقریر کے سنسر کرنے کی واردات کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بہت سے صحافیوں کو قائد اعظم کی تقریر میں کانٹ چھانٹ کا علم اس وقت ہوا جب کراچی یونیورسٹی کے جرنلزم کے شعبہ کے استاد پروفیسر شریف المجاہد کو 70ء کی دہائی میں نوکری سے نکال دیا گیا۔ ''وہ ہمارے بھی استاد رہ چکے ہیں۔''

جب اس بارے میں معلومات کی گئیں تو پتہ چلا کہ مجاہد صاحب نے قائد اعظم کی برسی کے موقع پر ایک طویل مضمون کراچی کے شام کے ایک اخبار میں تفصیل سے لکھا تھا اور اس میں انھوں نے قائد اعظم کی تقریر کے وہ تمام نکات شامل کیے تھے جو انھوں نے اقلیتوں کے بارے میں کہے تھے۔ لطافت صدیقی نے یہ واقعہ اپنی یادداشت کی بنیاد پر لکھا۔ اس واقعہ میں لکھے گئے حقائق درست نہیں۔

پروفیسر شریف المجاہد کو کراچی یونیورسٹی سے نہیں نکالا گیا تھا۔ وہ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں نئے قائم ہونے والے ادارہ قائد اعظم اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہوئے جہاں سے وہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں ریٹائر ہوئے تھے۔ 80ء کی دہائی میں مظہر علی خان کی ادارت میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں پہلی دفعہ یہ واقعہ بیان ہوا تھا۔ ضمیر نیازی صاحب نے مزید تحقیق کے بعد اس پورے واقعہ کو اپنی کتاب Press in Chain میں شایع کیا تھا۔

لطافت صدیقی 1975 میں کراچی کے صحافیوں کی ایک ٹیم کے ساتھ بلوچستان کے دورہ پر گئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ زیارت میں ہمیں قائد اعظم کا کمرہ دکھایا گیا۔ وہاں میری نظر ایک ضعیف شخص پر پڑی جس نے اپنا نام بتانے سے گریز کیا۔ آخری دن جب ہم کوئٹہ واپس آنے کی تیاری کر رہے تھے تو میں ایک مرتبہ اس شخص کے پاس گیا اور بڑے پیار سے کہا بھائی! ہم یہاں سے واپس جا رہے ہیں، اب تو کچھ نہ کچھ ہمیں بتا دو کہ اس دن کیا ہوا تھا جب جناح صاحب اپنی زندگی کے آخری دن یہاں سے رخصت ہوئے تھے۔

اس شخص نے کہا کہ حسب معمول جب صبح کے وقت صاحب کے لیے بیڈ ٹی لے جا رہا تھا تو ایک افسر نے مجھے روکا اور کہا چائے واپس لے جاؤ۔ اس افسر نے کہا کہ یہ پرچہ لے کر گورے افسر مسٹر اسمتھ کے پاس جائو۔ وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے۔ اس پرچہ کو پڑھ کر بہت پریشان نظر آ رہے تھے۔ انھوں نے اونچی آواز کے ساتھ مالی سے کہا یہاں جتنے پھول ہیں ایک ٹوکری میں رکھ دو۔ میں نے پوچھا یہ پھول کس کے لیے ہیں۔ اس پر اسمتھ نے کہا کہ تمہیں نہیں معلوم بابا مر گیا۔

مصنف نے قائد کی موت کے بارے میں ان کی ہمشیرہ اور قائد کے ذاتی معالج ڈاکٹر الٰہی بخش کی رائے کو مدنظر نہیں رکھا۔ یہ بات ماننا مشکل ہے کہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کی موت کے وقت کو پوشیدہ رکھا تھا۔ کتاب کے باب 3 کا عنوان ''فاطمہ جناح کو کس نے خاموشی سے خاموش کر دیا ہے'' میں مصنف نے لکھا ہے کہ یہ 9 جولائی 1967 کی بات ہے۔ سی بی پی آئی نیوز ایجنسی کے نیوز روم میں بیٹھے جونیئر رپورٹر کی حیثیت سے خبر ٹائپ کر رہا تھا۔

نیوز ایجنسی کے بانی اور صدر معظم علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ کلفٹن میں واقع موہٹہ پیلس جاؤ اور فاطمہ جناح کی موت کی خبر لے آؤ۔ جب میں موہٹہ پیلس پہنچا تو وہاں کوئی شخص نہ تھا۔ میری نظر مالی پر پڑی جو گھاس کاٹ رہا تھا۔ میں نے اس سے فاطمہ جناح کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا مجھے کیا پتہ۔ پھر مصنف لکھتے ہیں کہ وہ مایوس ہو کر اپنے دفتر آئے جہاں معظم علی نے خبر کے بارے میں پوچھا۔ میں نے کہا وہاں کوئی خبر نہیں ملی۔ معظم علی نے کہا نہ جانے کس نے تمہیں رپورٹر رکھا ہے۔

پھر مصنف کہتے ہیں کہ وہ، ان کے دوست سینئر فوٹوگرافر داؤد اسحاق اور رپورٹر نجم الحسن کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر دوبارہ موہٹہ پیلس گئے۔ پولیس کے دو ٹرک آرہے تھے۔ ایک ٹرک پر برف کی سلیں لدی ہوئی تھیں۔ ایک پولیس افسر نے زور سے دکھا مار کر محترمہ کے کمرہ کا دروازہ کھولا۔ وہاں میری چشم گناہ گار نے دیکھا کہ فاطمہ جناح اپنے بستر پر سو رہی تھی۔

اگلے لمحہ دروازہ توڑنے والے پولیس افسر نے مجھ سے پوچھا تم کون ہو۔ میں نے کہا کہ میں ایک رپورٹر ہوں۔ یہ برف کی سلیں کیوں لائی گئی ہیں اور فاطمہ جناح کا کمرہ اندر سے بند تھا، آپ کو کیسے پتہ چلا کہ وہ انتقال کرگئی ہیں؟ اس پر افسر آگ بگولا ہوگیا، کہنے لگا دس تک گنتی گنوں گا، نہیں گئے تو تمہاری لاش بھی پڑی ہوگی۔

اس کتاب میں کرکٹر حنیف محمد کے جبری ریٹائرمنٹ کی خبر کا بھی ذکر ہے۔یہ خبر لطافت صدیقی نے بریک کی تھی۔ اس کتاب میں کئی تاریخی پیش گوئیوں کا ذکر ہے،کتب بینی کے شوقین افراد کے لیے اس کتاب میں خاصا مواد ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔