جدید تہذیب اور اسلامی روایات
تاریخ عالَم گواہ ہے کہ خوشیوں کے چمن میں بہار نہ آسکی۔
PESHAWAR:
معاشرے کو خوش حال اور خوش گوار بنانے کے لیے روز ازل سے کئی منصوبے بنائے گئے، باہمی محبت کی فضا کو پروان چڑھانے کے لیے کئی جتن کیے گئے، ہزارہا کوششیں کی گئیں کہ دنیا میں بسنے والے ہر انسان کو پُرکیف زندگی بسر کرنے کو ملے۔
لیکن تاریخ عالَم گواہ ہے کہ خوشیوں کے چمن میں بہار نہ آسکی، تہذیب و تمدن کے نام نہاد علم برداروں کے کھوکھلے نعروں میں خلوص و صداقت کی رمق تک نظر نہ آئی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس انسان کُش تہذیب میں مطلب پرستی، دھوکا دہی اور خود فریبی کو فروغ ملا اور حضرت انسان کی عزت نفس بُری طرح مجروح ہوتی رہی۔
بالآخر قدرت کا وعدہ بعثت محمدی ﷺ کی خوش نما صورت میں رُونما ہوا۔ آپ ﷺ نے فطرت انسانی کو خالق انسانیت کے بتائے ہوئے اصولوں کے سانچے میں ڈھالا۔ حالات کا رخ ابتری سے ترقی کی طرف موڑا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا محبّت و انسیت کے جھونکوں سے مہک اٹھی۔ اور اُنس، بھائی چارگی، اخوّت، رواداری، ہم دردی اور باہمی الفت کے پُھول کِھل اٹھے۔ آپ ﷺ کی روشن تعلیمات نے انسانیت کو بھائی بھائی ہونے کا احساس دلایا اور قابل رشک معاشرہ تشکیل دیا۔ چناں چہ معاشرے کی اخلاقی قدروں کو نمایاں کرتے ہوئے آپ ﷺ نے جہاں عالم گیر اصول ہائے جہاں بانی ارشاد فرمائے وہاں پر نجی زندگی کی گتھیاں بھی سلجھائیں۔
خوش گوار رہن سہن کے حصول کے لیے آج کی جدید تہذیب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت مسکراہٹ کا مظاہرہ کرنا چاہیے، تاکہ دوسرے کے دل میں رنجشیں ختم ہوں اور محبت کے جذبات پیدا ہوں۔ جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ خندہ پیشانی سے ملنے کا دنیوی اصول بھی سمجھایا اور اس پر اخروی اجر بھی بتایا۔ افسوس! کہ آج ہم اس نبویؐ اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے بھنویں چڑھا کر، تیور بدل کر ملتے ہیں اور غیر مسلم اقوام اسے اپنا کر خوش اخلاق بنی ہوئی ہیں۔
خوش گوار معاشرے کے قیام کے لیے آج کی دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ معاشرے میں اچھی باتوں کو عام کیا جائے تاکہ لوگوں کے اخلاق اچھے بنیں اور باہمی محبّت کو فروغ ملے۔ جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ لوگوں کو اچھی باتوں کی تلقین کرنے سے دنیاوی فوائد بھی ملیں گے اور اخروی ثمرات بھی۔
معاشرے میں ہر مزاج کے انسان مل جل کر رہتے ہیں بعض کے اخلاق عمدہ ہوتے ہیں تو بعض کے ابتر۔ خُوش گوار معاشرے کے لیے آج کی دنیا اس بات پر متفق ہے کہ اچھی باتیں سکھلانے کے ساتھ بُری باتوں سے روکنا بھی ضروری ہے ورنہ معاشرتی جرائم کی شرح میں اضافہ ہوگا جس سے دنیا کا امن تباہ ہو جائے گا جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ برائی سے روکنا دنیا سے معاشرتی جرائم کو ختم کرنے کا ذریعہ بھی ہے اور اخروی انعامات کے حصول کا وسیلہ بھی ہے۔
آج کی دنیا کے اداروں میں جائیں تو پہلے پہل استقبالیہ والے خیر مقدم کریں گے اور آپ کی راہ نمائی کریں گے، کوئی قافلہ کہیں جائے تو اس کی راہ نمائی کرنے والے افراد مہیا ہوں گے جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ بھولے بھٹکے شخص کو راستہ دکھانے کا اجر یہ ہے کہ اس سے جہاں مثالی معاشرہ قائم ہوتا ہے وہیں پر اخروی ثواب بھی ملتا ہے۔
آج کی دنیا میں متمدن قومیں وہ کہلاتی ہیں جو دوسروں کا خیال رکھیں۔ بصارت سے محروم نابینا افراد کو اگر کوئی سڑک پار کرا دے یا اس کو منزل مقصود تک پہنچا دے تو ایسے لوگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے سے جہاں معاشرتی اخلاقی فریضہ ادا ہوتا ہے وہاں پر خدا کی خوش نُودی کی بہ دولت آخرت میں اجر بھی ملتا ہے۔
آج کی دنیا شاہ راہوں، گلی کوچوں، چوراہوں، محلوں اور شہروں کو صاف ستھرا رکھتی ہے اور اسے اپنی تہذیب گردانتی ہے جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ راستوں کو صاف ستھرا رکھنا جہاں سکون و راحت کا باعث ہے وہیں پر اﷲ کی طرف سے انعام کا بھی باعث ہے۔
آج کی دنیا انسانیت کی خدمت کے لیے سماجی اور رفاہی کاموں پر زور دیتی ہے اور جذبہ ایثار و ہم دردی کو اجاگر کرنے کی تعلیم دیتی ہے جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ اپنی ضروریات پر اپنے بھائیوں کی ضروریات کو ترجیح دینا جہاں باہمی محبّت کا باعث ہے وہاں پر خدائی محبّت کا حق دار بھی بناتی ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بے وقعت نہ سمجھو۔ مذکورہ بالا افعال و امور بہ ظاہر بہت عام سے معلوم ہوتے ہیں لیکن روز محشر ان کا وزن ہمارے نیکیوں والے پلڑے کو جُھکا دے گا۔ باقی رہا صدقہ! اس بارے میں ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ صدقہ کبھی اپنے مال سے کرنا فرض و واجب ہوتا ہے جیسے زکوٰۃ، عشر، فطرانہ، قربانی اور کبھی مستحب جیسے نفلی صدقہ۔ مال کے صدقے کے علاوہ بھی اﷲ کے پاک نبی ﷺ نے مذکورہ بالا امور کو صدقہ قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ حدیث پاک میں صدقے کے دو بنیادی فوائد ذکر کیے گئے۔ ایک تو یہ کہ صدقہ اﷲ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ انسان کو ناگہانی اور حادثاتی موت سے محفوظ رکھتا ہے۔
اﷲ تعالٰی ہمیں بااخلاق و باکردار بننے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین
معاشرے کو خوش حال اور خوش گوار بنانے کے لیے روز ازل سے کئی منصوبے بنائے گئے، باہمی محبت کی فضا کو پروان چڑھانے کے لیے کئی جتن کیے گئے، ہزارہا کوششیں کی گئیں کہ دنیا میں بسنے والے ہر انسان کو پُرکیف زندگی بسر کرنے کو ملے۔
لیکن تاریخ عالَم گواہ ہے کہ خوشیوں کے چمن میں بہار نہ آسکی، تہذیب و تمدن کے نام نہاد علم برداروں کے کھوکھلے نعروں میں خلوص و صداقت کی رمق تک نظر نہ آئی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس انسان کُش تہذیب میں مطلب پرستی، دھوکا دہی اور خود فریبی کو فروغ ملا اور حضرت انسان کی عزت نفس بُری طرح مجروح ہوتی رہی۔
بالآخر قدرت کا وعدہ بعثت محمدی ﷺ کی خوش نما صورت میں رُونما ہوا۔ آپ ﷺ نے فطرت انسانی کو خالق انسانیت کے بتائے ہوئے اصولوں کے سانچے میں ڈھالا۔ حالات کا رخ ابتری سے ترقی کی طرف موڑا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا محبّت و انسیت کے جھونکوں سے مہک اٹھی۔ اور اُنس، بھائی چارگی، اخوّت، رواداری، ہم دردی اور باہمی الفت کے پُھول کِھل اٹھے۔ آپ ﷺ کی روشن تعلیمات نے انسانیت کو بھائی بھائی ہونے کا احساس دلایا اور قابل رشک معاشرہ تشکیل دیا۔ چناں چہ معاشرے کی اخلاقی قدروں کو نمایاں کرتے ہوئے آپ ﷺ نے جہاں عالم گیر اصول ہائے جہاں بانی ارشاد فرمائے وہاں پر نجی زندگی کی گتھیاں بھی سلجھائیں۔
خوش گوار رہن سہن کے حصول کے لیے آج کی جدید تہذیب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت مسکراہٹ کا مظاہرہ کرنا چاہیے، تاکہ دوسرے کے دل میں رنجشیں ختم ہوں اور محبت کے جذبات پیدا ہوں۔ جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ خندہ پیشانی سے ملنے کا دنیوی اصول بھی سمجھایا اور اس پر اخروی اجر بھی بتایا۔ افسوس! کہ آج ہم اس نبویؐ اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے بھنویں چڑھا کر، تیور بدل کر ملتے ہیں اور غیر مسلم اقوام اسے اپنا کر خوش اخلاق بنی ہوئی ہیں۔
خوش گوار معاشرے کے قیام کے لیے آج کی دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ معاشرے میں اچھی باتوں کو عام کیا جائے تاکہ لوگوں کے اخلاق اچھے بنیں اور باہمی محبّت کو فروغ ملے۔ جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ لوگوں کو اچھی باتوں کی تلقین کرنے سے دنیاوی فوائد بھی ملیں گے اور اخروی ثمرات بھی۔
معاشرے میں ہر مزاج کے انسان مل جل کر رہتے ہیں بعض کے اخلاق عمدہ ہوتے ہیں تو بعض کے ابتر۔ خُوش گوار معاشرے کے لیے آج کی دنیا اس بات پر متفق ہے کہ اچھی باتیں سکھلانے کے ساتھ بُری باتوں سے روکنا بھی ضروری ہے ورنہ معاشرتی جرائم کی شرح میں اضافہ ہوگا جس سے دنیا کا امن تباہ ہو جائے گا جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ برائی سے روکنا دنیا سے معاشرتی جرائم کو ختم کرنے کا ذریعہ بھی ہے اور اخروی انعامات کے حصول کا وسیلہ بھی ہے۔
آج کی دنیا کے اداروں میں جائیں تو پہلے پہل استقبالیہ والے خیر مقدم کریں گے اور آپ کی راہ نمائی کریں گے، کوئی قافلہ کہیں جائے تو اس کی راہ نمائی کرنے والے افراد مہیا ہوں گے جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ بھولے بھٹکے شخص کو راستہ دکھانے کا اجر یہ ہے کہ اس سے جہاں مثالی معاشرہ قائم ہوتا ہے وہیں پر اخروی ثواب بھی ملتا ہے۔
آج کی دنیا میں متمدن قومیں وہ کہلاتی ہیں جو دوسروں کا خیال رکھیں۔ بصارت سے محروم نابینا افراد کو اگر کوئی سڑک پار کرا دے یا اس کو منزل مقصود تک پہنچا دے تو ایسے لوگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے سے جہاں معاشرتی اخلاقی فریضہ ادا ہوتا ہے وہاں پر خدا کی خوش نُودی کی بہ دولت آخرت میں اجر بھی ملتا ہے۔
آج کی دنیا شاہ راہوں، گلی کوچوں، چوراہوں، محلوں اور شہروں کو صاف ستھرا رکھتی ہے اور اسے اپنی تہذیب گردانتی ہے جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ راستوں کو صاف ستھرا رکھنا جہاں سکون و راحت کا باعث ہے وہیں پر اﷲ کی طرف سے انعام کا بھی باعث ہے۔
آج کی دنیا انسانیت کی خدمت کے لیے سماجی اور رفاہی کاموں پر زور دیتی ہے اور جذبہ ایثار و ہم دردی کو اجاگر کرنے کی تعلیم دیتی ہے جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ اپنی ضروریات پر اپنے بھائیوں کی ضروریات کو ترجیح دینا جہاں باہمی محبّت کا باعث ہے وہاں پر خدائی محبّت کا حق دار بھی بناتی ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بے وقعت نہ سمجھو۔ مذکورہ بالا افعال و امور بہ ظاہر بہت عام سے معلوم ہوتے ہیں لیکن روز محشر ان کا وزن ہمارے نیکیوں والے پلڑے کو جُھکا دے گا۔ باقی رہا صدقہ! اس بارے میں ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ صدقہ کبھی اپنے مال سے کرنا فرض و واجب ہوتا ہے جیسے زکوٰۃ، عشر، فطرانہ، قربانی اور کبھی مستحب جیسے نفلی صدقہ۔ مال کے صدقے کے علاوہ بھی اﷲ کے پاک نبی ﷺ نے مذکورہ بالا امور کو صدقہ قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ حدیث پاک میں صدقے کے دو بنیادی فوائد ذکر کیے گئے۔ ایک تو یہ کہ صدقہ اﷲ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ انسان کو ناگہانی اور حادثاتی موت سے محفوظ رکھتا ہے۔
اﷲ تعالٰی ہمیں بااخلاق و باکردار بننے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین