تاریخی سماجی پروگرام کا اعلان

عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان دنیا کا سب سے سستا ملک ہے، یہاں دیگر ممالک کے مقابلے میں مہنگائی نہیں ہے۔

عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان دنیا کا سب سے سستا ملک ہے، یہاں دیگر ممالک کے مقابلے میں مہنگائی نہیں ہے۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم عمران خان نے غریبوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کے لیے ملک کی تاریخ کے سب بڑے سماجی تحفظ کے پروگرام کا آغازکردیا ہے تاکہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر ایک حقیقی فلاحی مملکت بنایا جاسکے۔ حکومت پنجاب، ہیلتھ انشورنس پروگرام پر320 ارب روپے خرچ کریگی، پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے ہر شہری کو صحت کی انشورنس کی سہولت دستیاب ہوگی۔

ان خیالات کا اظہار عمران خان نے بدھ کو گورنر ہاؤس پشاور میں کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت جامع مساجد کے اماموں اور احساس ایجوکیشن پروگرام کے تحت طلبا میں چیک تقسیم کرنے اور احساس راشن رعایت پروگرام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان دنیا کا سب سے سستا ملک ہے، یہاں دیگر ممالک کے مقابلے میں مہنگائی نہیں ہے۔ ہم دنیا میں سب سے کم قیمت پر پٹرول اور ڈیزل بیچ رہے ہیں، موسم سرما کے بعد اشیائے خورونوش کی قیمتیں کم ہو جائیں گی۔

ملک میں مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے مسائل کے تناظر میں وزیراعظم کا پاکستان کو سستا ملک قرار دینے کے دعوے پر عوامی حلقوں اور ماہرین نے ملے جلے جذبات و تاثرات کا اظہار کیا ہے، دوسری جانب زمینی حقیقت یہ ہے کہ گیس کی قلت ہے، بجلی کے نرخوں میں اضافے پرکوئی چیک نہیں ہے، وزیراعظم کا کہنا ہے کہ دنیا میں سب سے سستا پٹرول، ڈیزل اور دیگر اشیائے ضروریہ پاکستان میں سستی فروخت ہورہی ہیں۔

حکومتی ذرایع اس نقطہ نظر سے متفق نہیں کہ ملک میں غربت ، مہنگائی یا بیروزگاری کے باعث معیشت کمزور ہے، اسے استحکام کی ضرورت ہے، حکمرانوں کا کہنا ہے کہ برآمدات گھوڑے کی رفتار سے بڑھ رہی ہیں معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔

عوام آسودگی کے جمہوری ثمرات سے مستفید ہورہی ہیں، عوام کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت غربت ، بیروزگاری اور مہنگائی کے حقائق کو کس بنیاد پر رد کرتی ہے اور کن معاشی حقائق کی روشنی میں حکومت اتنے اہم اعلانات سے عوام کا دل بہلا رہی ہے، معاشی تبدیلی اگر آگئی ہے تو اس کا اندازہ مارکیٹ میں ہونے والی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی اور غریبوں کی تنخواہوں میں اضافہ سے اس یقین کا اظہار ممکن ہو جاتا ہے کہ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا لائف اسٹائل یا معیار زندگی بلند ہونا شروع ہوا ہے۔

نچلے طبقات اوپر اٹھ گئے ہیں، بہر حال عوام وزیراعظم کے اس تاریخی اعلان پر اپنی زندگی میں ہونے والی خوشگوار تبدیلی کا خود بھی جائزہ لے سکتے ہیں، مہنگائی، غربت اور بیروزگاری میں کمی کی حقیقت کب تک چھپی رہے گی، اگر واقعی ملک میں ہر چیز سستی ہوگئی ہے تو یہ کوئی معمولی انقلاب ، نہیں ہوگا اسے عوام کی زندگیوں میں حقیقی انقلاب سے تعبیر کیا جائے گا۔

عوام کو بلاشبہ سماجی تبدیلی کا انتظار ہے، غربت اور بیروزگاری نے انھیں شدید مشکلات سے دوچار کیا ہے، لوگ بنیادی ضروریات کو ترس رہے ہیں، گیس کی بندش کے باعث کراچی جیسا شہر دیہات کا منظر پیش کرتا ہے، لوگ لکڑی، کوئلہ اور کاغذ کے گتے سے آگ جلاتے ہیں، بچے ناشتہ کیے بغیر اسکول جاتے ہیں ، گھریلو خواتین سخت اذیت میں ہیں۔ تھر میں خواتین اور بچوں کی ہلاکتیں بدستور جاری ہیں۔ مسیحاؤں کو ان کی جانیں بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں۔


دوسری جانب وزیر اعظم نے کہا کہ کورونا کے دوران پابندیاں نہ لگانے پر مجھ پر بہت تنقید کی گئی، اب دنیا کہہ رہی ہے پاکستان نے سب سے بہتر طریقے سے اپنے ملک کو کورونا سے نکالا، ہمارا منشور پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے جس کے نتیجے میں یہ ملک تیزی سے ترقی کریگا۔ اگلے10سال میں10ڈیم بنائیں گے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق2013 سے 2018 تک خیبر پختونخوا میں سب زیادہ تیزی سے غربت کم ہوئی، صوبہ دہشت گردی سے بہت زیادہ متاثر تھا، اب صوبے میں پہلی بار30 فیصد لوگوں کو ہیلتھ انشورنس ملی، غریبوں کے لیے کینسر اسپتال بنایا۔

احساس راشن رعایت پروگرام کے تحت شہریوں کو آٹا، گھی، تیل اور دالوں کی خریداری پر 30فیصد رعایت ملے گی، احساس راشن پروگرام کی کل لاگت 120ارب روپے ہے، پروگرام کے تحت2 کروڑ خاندان اور تقریباً13 کروڑ افراد مستفید ہوں گے جو ملک کی کل آبادی کا تقریبا 53 فیصد بنتا ہے، جن شہریوں کی ماہانہ آمدن50 ہزار سے کم ہے وہی اس پروگرام سے استفادہ کریں گے جب کہ اہل صارفین کو کل خریداری پر30فیصد رعایت ملے گی، کریانہ اسٹور مالکان بھی اس پروگرام میں رجسٹر ہو سکتے ہیں۔ صحت کارڈ کا اجرا بھی خیبر پختونخوا سے ہوا اب نیا پاکستان کارڈ کا آغاز بھی یہاں سے ہو رہا ہے۔ ہم صنعتوں کی بحالی کی طرف گامزن ہیں۔

وزیر اعظم اپنی تقاریر میں کئی بار اس حقیقت کا اظہار کرچکے ہیں کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے، انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جب پیسے نہیں ہونگے تو ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتا ، یہ بات وہ اہم فورمز پرکہتے رہے ہیں، اسی لیے عوام یہ سوال کرسکتے ہیں کہ حکومت نے جو اعلانات کررہی ہے اس کے لیے کیا کوئی خزانہ اس کے ہاتھ لگ گیا ہے یا ٹیکس سسٹم کی اصلاح ہوچکی ہے۔

عوامی منصوبوں کے لیے کروڑوں اربوں کے فنڈز جمع ہوچکے ہیں اور عوام اب جمہوری ثمرات سے استفادہ کرسکتے ہیں، حکومت سے توقع ہے کہ عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم نہ رکھا جائے، غربت اور بیروزگاری کے ساتھ ہی مہنگائی قدم بہ قدم چل رہی ہے، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اب نہیں ہونا چاہیے، دوائیں مہنگی ہوگئی ہیں، معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومتی اعلانات اور تاریخی سماجی پیکیج کا اعلان کرکے وزیراعظم نے تمام حکومتی اقدامات کا راستہ روک دیا ہے، اب عوام صرف ثمرات اور ریلیف کا انتظارکریں۔

یہ خوش آیند اعلان ہے، تبدیلی کے ایک خواب کی تعبیر ملنے کی نوید ہے، حکومت کے مخالفین کو بھی حکومتی اقدامات کے بعد اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی کرنا پڑے گی اپوزیشن جماعتوں کی نکتہ چینی بھی تھم جائے گی کہ حکومت نے بادل ناخواستہ تسلیم کرلیا کہ عوام کو ریلیف چاہیے اور اب عوام تیل دیکھیں گے اور تیل کی دھار پر ان کی نظر ہوگی۔

حکومت کو اس حقیقت پر یقین کرنا چاہیے کہ ملک کو حقیقی اقتصادی ترقی درکار ہے، فی زمانہ معاشی استحکام ہی کسی ملک کی ترقی کا حقیقی پیمانہ ہوتا ہے، خطے میں غربت اور مہنگائی کا مقابلہ ایک بہتر اقتصادی حکمت عملی سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ حکومت ادراک کرے کہ بیروزگاروں کی ایک فوج ظفر موج فاقوں کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ امیری اور غریبی میں فرق بہت بڑھ گیا ہے، غربت کے باعث جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان دیہاڑی دار مزدور بن چکے ہیں۔ سفید پوشی ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے، خواتین کی بیروزگاری بہت بڑا سماجی مسئلہ ہے۔

 
Load Next Story