مطابقت اور ہم آہنگی پیدا کریں

جو ہمیشہ دیکھنے کو ملی ہے یہ ہے کہ انسان کے لیے بیرونی دنیا سے ہم آہنگ ہو کر زندگی بسر کرنا بہت اہم ہے۔


عبد الحمید December 10, 2021
[email protected]

لاہور: زندگی ٹھوس حقائق سے موافقت کا مسلسل تقاضاکرتی ہے۔اس موافقت Compatability کے حصول میں جتنی کامیابی ہو گی زندگی اتنی ہی پُر معنی ہوگی۔ یہ موافقت کبھی بھی،کسی بھی حالت میں آسان نہیں ہوتی کیونکہ موافقت پیدا کرنے والا عمل بہت مشکل،کٹھن اور صبر آزما ہوتا ہے۔ البتہ اگر کسی کے اندر زندگی سے محبت کا جذبہ ہو تو مشکلات کو عبور کرنا اور بے صبری سے جان چھڑانا آسان ہو جاتا ہے۔

ایک لمبی طویل زندگی گزارنے کے بعد کئی ایک دانشوروں نے بیان کیا کہ زندگی سے کسی ٹھوس فائدے کی توقع رکھنا،گزرے دنوں کا رونا دھونا کرنا یا مسلسل تغیر سے پریشان ہونا ایک حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔عام آدمی کے لیے تو یہ بات شاید بے معنی اور ادنیٰ ہو لیکن ایک ذی فہم اور ذی علم شخص فوراً بھانپ لے گا کہ یہ بات پر معنی اور حقائق پر گہری نظر کا نتیجہ ہے۔

اکثر لوگوں کے لیے تغیرChangeانتہائی ناپسندیدہUndesirableاور آزردگی کا باعث ہوتا ہے۔اس سے لوگوں کی زندگی اتنی مشکل سے دوچار ہو جاتی ہے کہ بڑی سے بڑی تنگی سے بھی نہیں ہوتی۔اگر غور کیا جائے تو اس زندگی کا عطا کیا جانا ہی اور زندگی کے بعد موت کا آنابھی تو ایک عظیم تغیر ہی ہے جس کا ہم ہمیشہ رونا روتے رہتے ہیں۔ تعیش،امارت اور جاہ و زر کا کھو جانا بھی تو تغیر ہی ہے جس کے خیال سے ہی روح کانپ اُٹھتی ہے اور جس کے صدمے سے ہم بے دست و پا و نڈھال ہو جاتے ہیں۔بڑھاپا یا پیرانہ سالی کیا ہے۔دیکھا جائے تو یہ ایک مظہرِ فطرت کے سوا اور کیا ہے لیکن جب بڑھاپا ہمیں جکڑ لیتا ہے تو ہم کافی پریشان ہوتے ہیں ۔ہم پریشان اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ ہم اس تغیر سے ہم آہنگ نہیں ہوتے۔

زندگی تغیر سے عبارت ہے۔ زندگی میں تغیر آتا رہتا ہے۔فطرت کے قوانین میں سے یہ ایک مسلسل عمل پذیر قانون ہے۔انسان اس سے احتراز اور نفرت کرتا ہے لیکن یہ نہیں سوچتا کہ خالقِ کون و مکاں نے اسے اپنی رحمتِ خاص سے اس لیے تخلیق کیا ہے کہ زندگی کی تلخیوں سے نبرد آزما ہو کر ایک بہترین معاشرے کی تخلیق کی جائے۔دراصل زندگی کے مصائب وآلام کا اس سے بہتر کوئی درماں نہیں ،کوئی علاج نہیں۔ایک اور بات جو اتنی ہی اہم ہے یہ کہ زندگی سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کر تے رہنا فطرت انسانی کا خاصہ ہے،ایک تقاضا ہے۔اگر اس بات پر بھی غور کریں تو دیکھنے میں آتا ہے کہ خود زندگی اپنی اصل میں بالکل ناپائیدار اور آنی جانی چیز ہے۔

ڈزرائیلی نے کہا تھا کہ زندگی اتنی چھوٹی ہے،اتنی مختصر ہے کہ اس سے کھیلا نہیں جا سکتا۔گبن کا مقولا ہے کہ ــاگر کوئی ہستی ایسی ہوتی جس میں انسانی صفات اسی طرح ہوتیں جس طرح ہم انسانوں میں ہیں اور جس کی عمر کروڑوں سال ہوتی اور جس کے مقابلے میں انسانی زندگی ایک ذرے سے زیادہ حیثیت نہ رکھتی تو وہ اس انتہائی کم اور مختصر زندگی میں اتنی بے شمار امنگوں اور طولانی منصوبوںکا مذاق اُڑائے بغیر نہ رہ سکتی۔زمین نظامِ کائنات میں ایک بہت ہی چھوٹا سا سیارہ ہے۔اس چھوٹے سے سیارے پر ہمارا قیام بہت تھوڑا اور غیر یقینی ہے۔ ہماری زندگی کا حال تو یہ ہے کہ آج ہے اور کل نہیں۔ ابھی ہے اور اگلے لمحے ہوگی یا نہیں اس کا یقینی علم نہیں۔جب صورتحال یہ ہو تو اس سے کیوں کر انکار ہو سکتا ہے کہ ہماری خود بینی،زندگی کے بڑے بڑے منصوبے اور جاہ طلبی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ زندگی کس طرح قابلِ برداشت اور پر معنی بنائی جا سکتی ہے اور یہ کہ زندگی کے لیے کون سا لائحہ عمل سازگار ہے۔یوں تو اس سوال کے جواب میں بے شمار باتیں کہی جا سکتی ہیں لیکن ا ن ساری باتوں کا خلاصہ چند الفاظ میں سمویا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ رواداری اور حق پرستی سے زندگی کا یہ مختصر دورانیے کا سفر نہایت خوش گوار بن سکتا ہے۔ اگر جیو اور جینے دو کا راستہ اپنا لیا جائے جو بظاہر ایک بہت ہی سیدھا سادا سا اصول نظر آتا ہے لیکن در حقیقت یہ ہماری بے شمار مشکلات کا علاج ہے۔یہ ساری باتیں،یہ سارے فلسفے اپنی جگہ لیکن ہم اگر اپنی اپنی گزری عمر پر نظر دوڑائیں تو اس میں کسی شعوری فلسفیانہ اسلوب یا شعوری طور پر طے کردہ راستے کا سراغ دھونڈھے سے بھی نہیں ملے گا۔

بے شمار لوگوں کا یہی حال ہو گا۔ان شخصیات کی بات الگ ہے جو تاریخ بناتے ہیں یا تاریخ کا دھارا ہی تبدیل کر دیتے ہیں۔ایسے نامور افراد ضرور اپنے راستے خود چنتے ہوں گے۔یونانی المیہGreek Tragedyمیں ہیرو وہ ہوتا ہے جو موت کے راستے کا خود انتخاب کرتا ہے۔جو جانتے بوجھتے،عقل و شعور کے ساتھ موت کو للکارتا ہے، موت کو گلے لگاتا ہے۔بہر حال معلوم ہوتا ہے کہ میں اگر اپنی ذات کی بات کروں تو یہ ہی کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اُن عام لوگوں کی طرح زندگی بسر کی ہے جو عام سی،سیدھی سادی زندگی بسر کرنا ہی کافی سمجھتے ہیں۔ اس سب کے باوجود ایک دو ایسے نقوش و اثرات جو سال ہا سال کی مدت میں میرے ذہن پر ابھرے ہیں اور ابھی تک محو نہیں ہوئے وہ کچھ اس طرح ہیں۔

پہلے تو ایسے لگتا ہے کہ زندگی جزوی کامیابیوں اور جزوی ہی ناکامیوں سے مل کر بنتی ہے۔سو فیصد کامیابی کہیں ممکن نظر نہیں آئی۔مکمل کامیابی ناقابلِ حصول ٹھہری ہے۔خدا کا شکر ہے کہ پوری کی پوری ناکامی بھی حدِ امکان سے خارج ہے۔زندگی نہ بالکل سیاہ ہے اور نہ ہی بالکل سفید۔یہ نہ تو خوشیوں سے لبا لب بھری ہوئی ہوتی ہے اور نہ ہی غم و الم کا دوسرا نام ہے۔انسان کے اندر کی روشنی جب دھندلا جاتی ہے تو زندگی کی رنگا رنگی پھیکی پڑ جاتی ہے اور اندرونی روشنی تیز ہونے پر زندگی بھی جگمگا اُٹھتی ہے۔لہٰذا عقل مندی اسی میں ہے کہ زندگی جس اسلوب سے بھی سامنے آئے اسے قبول کر کے اپنے آپ کو اس سے ہم آہنگ کر لیا جائے۔

نہ حد سے زیادہ مایوس ہونے میں خیر ہے اور نہ ہی حد سے زیادہ خوشی میں بہکنا مناسب ہے۔یہ مان لینا چاہیے کہ اس دنیا میں اچھائی اور برائی،خیر اور شر،شادمانی و نا شادی اور کامیابی و ناکامی زندگی کے دو ایسے رخ ہیں جن کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے۔ایسے حالات میں انسان صرف یہی کر سکتا ہے کہ ناکامی سے مایوس اور دل شکستہ نہ ہو اور اگر کامیابی قدم چومے تو غرور نہ کریں۔اس یقین و ایمان کے ساتھ زندگی گزاریں کہ میری کوششوں کا پیمانہ کتنا ہی تنگ کیوں نہ ہو،مجھے جس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے وہ ضرور پورا ہو گا۔

دوسری اہم بات جو ہمیشہ دیکھنے کو ملی ہے یہ ہے کہ انسان کے لیے بیرونی دنیا سے ہم آہنگ ہو کر زندگی بسر کرنا بہت اہم ہے۔اگر کسی بلند تر وجہ سے نہیں تو کم از کم اپنی ہستی کے بقا کی خاطر ہی انسان کو چاہیے کہ بہ حیثیتِ مجموعی زندگی کے متعلق ہم آہنگی کا رویہ اپنائے یعنی اپنے آپ کو فطرت کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ کرے اور اپنے ارد گرد بسی دنیاسے بھی مطابقت پیدا کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔

اگر ایک فرد اپنی قوتوں کو پورے طور پر بروئے کار لانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ نہ صرف اپنی ذات اور اپنے ماحول کے درمیان مطابقت پیدا کرے بلکہ خود اپنی ذات کے اندر بھی جہاں تک ہو سکے توازن اور اعتدال لانے کی سعی کرے۔ وہ جس حد تک اس کوشش میں کامیاب ٹھہرے گا اسی قدر اس کی زندگی پُر معنی بنتی چلی جائے گی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ اس ساری کائنات کے خالق کے ساتھ بھی جڑ سکے گا۔

جو لوگ زندگی کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں وہ توازن،دانش مندی اور مہارت کھو بیٹھتے ہیں اور جو قومیں اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوتیں وہ تصادم،جارحیت ، جنگ کے ساتھ ایک بکھرا،ٹوٹا اور اپنے آپ سے نبرد آزما معاشرہ بن جاتی ہیں۔مطابقت پیدا کرو یا تباہ ہو جائو کیونکہ زندگی کا قانون ہم آہنگی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں