سوال یہ ہے
بڑی کشمکش تھی اور کڑی آزمائش کی اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ کی مدد نے ہی ہماری جان چھڑائی۔
آغاز کلام مصور پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے درجہ ذیل ضرب المثل شعر سے جو اصل کامیابی کی کلید ہے خواہ معاملہ دین کا ہو یا دنیا کا:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اب ذرا آئیے بانی پاکستان بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے قول کی جانب جسے اگر قول فیصل کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا مگر افسوس صد افسوس ہم اس قول کو بار بار دہراتے رہتے ہیں لیکن عملاً اس سے ہمارا دور پرے کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ قول زریں تین الفاظ پر مشتمل ہے جو ریاست کے بنیادی ستون اور مکمل کامیابی کے ضامن ہیں: ایمان ، اتحاد اور تنظیم۔ اب آئیے ان اقوال زریں کے آئینہ میں من حیث القوم اپنی شکل و صورت کو دیکھیں اور جواب دیں کہ ہم کیسے ہیں۔ یقیناً جواب یہی ہوگا:
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
ڈوب مرنے کا مقام تو یہ ہے کہ ہم نے اللہ سے کیا ہوا اپنا وہ وعدہ بھی بھلا دیا۔ ہم نے یہ بھی بھلا دیا کہ یہ ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے اور یہ ایک اسلامی فلاحی ریاست ہوگا۔ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ مصور پاکستان علامہ اقبالؒ کا سایہ تو اس مملکت خداداد کے معرض وجود میں آنے سے پہلے ہی اٹھ گیا اور پھر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی نے بھی زیادہ وفا نہ کی اور اس کے نتیجہ میں یہ ملک اقتدارکے بھوکے بھیڑیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ با الفاظ دیگر رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی اور گوری کا جوبن چٹکیوں میں لٹ رہا ہے۔ شاعر نے اس صورتحال کا نقشہ اس شعر کی صورت میں کھینچا ہے:
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
ہمارا سب سے بڑا جرم تو یہ ہے کہ ہم بانی پاکستان کے فرمان کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں جس کی سزا بھی ہمیں تسلسل کے ساتھ مل رہی ہے۔ گستاخی معاف! ہم ایک قوم ہی نہیں رہے بلکہ لسانی اور زمینی اختلافات کی وجہ سے مختلف قومیتوں میں تقسیم ہوگئے۔ پاکستانی اور مسلمان بننے کے بجائے ہم نے اپنی اصل شناخت کھو کر خود کو پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان، بنگالی اور اردو بولنے والوں میں بانٹ لیا اور اتحاد کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کے بجائے ڈھیلا چھوڑ دیا۔ مشرقی پاکستان کے ہمارے ہاتھوں سے نکل جانے کے عظیم سانحہ کے بعد بھی ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور تقسیم در تقسیم کا یہ ہلاکت خیز سلسلہ بدستور جاری ہے اور خواب غفلت سے جاگنے کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے۔ اصلاح احوال کی جانب توجہ دینے کے بجائے ہم مزید بگاڑ کی طرف گامزن ہیں۔ اتحاد کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے کہ جس میں ہماری عافیت کی راہ ہے ہم مسالک، عقائد اور فرقوں میں تقسیم ہو رہے ہیں جو نا صرف ملی تقاضوں کے منافی ہے بلکہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ بقول شاعر:
زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں
چل رہے ہیں رات دن اور کوئی منزل بھی نہیں
منزل تک پہنچنے کے راستے سے بھٹک کر ہم گمشدہ بھیڑوں کی طرح ذاتی اور گروہی مفادات کی بھول بھلیوں میں گم ہوگئے ہیں۔ اس صورتحال پر علامہ اقبالؒ ہم سے ان الفاظ میں مخاطب ہیں:
کاش ہم علامہ کے الفاظ کی روح کو پہچان سکیں:
فرقہ بندی ہے کہیں، اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
دینی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرنے کے باوجود ہم اپنے منہ میاں مٹھو بنے ہوئے ہیں۔ غیروں کی تقلید کرنے پر فخرکررہے ہیں۔ مغرب کی نقالی میں ہم نے اہل مغرب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جو ہمارے طرز عمل سے صاف ظاہر ہے۔ ہم وہ سب کام کر رہے ہیں جنھیں ہمارے اللہ اور ہمارے پیارے نبیؐ نے کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ ہم نے اس حقیقت کو فراموش کر دیا ہے کہ دنیا ایک سرائے فانی ہے اور ہر چیز یہاں کی آنی جانی ہے جب کہ آخری منزل اس کے بعد آنی ہے۔ ہم اس روش پر چل رہے ہیں کہ:
بابر باعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
مال و دولت کی ہوس نے ہمیں اندھا کر دیا ہے اور ہم راتوں رات امیر بننے کے چکر میں پڑ کر حلال و حرام کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔ہمارے نزدیک جائز و ناجائز میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ اس کے نتیجہ میں ہم نے بھی and justifies the means والی اغیار کی روش اختیار کرلی ہے یعنی مال آنا چاہیے چاہے طریقہ کار کوئی بھی ہو۔ خوف خدا ہمارے دل سے مٹ چکا ہے اور ہم یہ بھول گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نظروں سے ہم کبھی اوجھل نہیں ہو سکتے۔
کون سی برائی ہے جو ہم میں موجود نہیں۔ ہم بے ایمانی کر رہے ہیں، دھوکا دے رہے ہیں، جعل سازی کر رہے ہیں، ملاوٹ کر رہے ہیں حتیٰ کہ اشیاء خوردنی اور جعلی ادویات تیار کرکے لوگوں کی صرف صحت ہی نہیں بلکہ زندگیوں سے بھی کھیل رہے ہیں۔ پھر بھی خود کو مسلمان کہلوانے پر مصر ہیں۔ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور ہمیں کسی مسیحا کی تلاش ہے۔ ہمیں مخلص اور اہل قیادت کی اشد ضرورت ہے جو بدقسمتی سے ہمیں ابھی تک میسر نہیں آسکی۔ ہمیں رہبر کے روپ میں رہزن ہی ملے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مومن ایک سوراخ سے ایک ہی بار ڈسا جاتا ہے لیکن ہم ہیں کہ بار بار ڈسے جا رہے ہیں۔2018 کے گزشتہ عام انتخابات کے بعد برسر اقتدار آنے والی جماعت پر مکمل بھروسہ کرکے ہماری اکثریت نے اسے اپنی کامیابی سمجھا تھا اور خوش و خرم تھے کہ ہم نے اپنی منزل کو پا لیا ہے اور اپنا مطلوبہ ہدف حاصل کر لیا ہے لیکن اس کی اب تک کی کارکردگی سے مایوسی کے سوا اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔
اس پر ہمیں ایک ذاتی معاملہ یاد آرہا ہے جو ہمیں سرکاری ملازمت کے دوران پیش آیا تھا۔ ہوا یوں کہ ہمارے ادارے میں ڈرائیور کی اسامی خالی پڑی ہوئی تھی جس کے لیے درخواستیں طلب کی گئی تھیں۔ مطلوبہ اسامی کے لیے آنے والی درخواستوں میں سے کسی امیدوار کے انتخاب کے لیے ایک انٹرویو بورڈ تشکیل دیا گیا جس کی سربراہی کے لیے خاکسار کو نامزد کیا گیا۔ انٹرویو کا آغاز ہوا ہی تھا کہ ہمیں ایک کال موصول ہوئی۔
کال کرنے والا ہمارے باس کے باس کا پی۔اے تھا جس کا کہنا تھا کہ فلاں امیدوار کو منتخب کیا جائے۔ حکم کی بجا آوری کے لیے ہمیں ترجیحاً اسی امیدوار کو بلانا پڑا تو معلوم ہوا کہ وہ نماز اور وقت کی پابندی کا بہت قائل ہے لیکن جب ہم نے ڈرائیونگ سے متعلق سوالات کیے تو وہ بالکل کورا نکلا۔ ہم نے جب اس سے یہ کہا کہ بھائی ہمیں تو ڈرائیور کی ضرورت ہے اور وہ تم کو آتی نہیں تو پھر کس طرح کام چلے گا ؟
اس کا سیدھا سادہ جواب تھا ''سر! وہ تو کوئی بات ہی نہیں میں دو چار دن میں سیکھ ہی لوں گا اور یہ بات میں نے انھیں پہلے ہی بتا دی تھی۔'' انھیں سے اس کی مراد ہمارے باس کے باس سے تھی جن کا وہ کوئی عزیز یا تعلق دار تھا۔ ہمارا باس مزاجاً کمزور واقع ہوا تھا جب کہ اس کا باس جلاد صفت تھا۔ ہم شش و پنج میں پڑ گئے کہ کریں تو کیا کریں۔ وقت کم تھا اور مقابلہ سخت۔ ایک طرف کنواں تھا اور دوسری جانب کھائی تھی۔ حالات کا جبر تھا کہ ہم سفارش کو قبول کریں اور ضمیر کی آواز تھی کہ انصاف سے کام لیا جائے۔
بڑی کشمکش تھی اور کڑی آزمائش کی اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ کی مدد نے ہی ہماری جان چھڑائی اور ہم نے بورڈ کی سربراہی کرنے سے معذرت کرلی۔ 2018 کے عام انتخابات کے نتیجہ سے بھی ہمیں کچھ ایسا ہی سبق ملتا ہے۔ بالفرض اگر انتخاب کے نتیجہ میں برسر اقتدار آنے والی موجودہ قیادت کو سچا اور ایماندار تسلیم کرلیا جائے تو بھی کارکردگی کی کسوٹی پر وہ کسی طور بھی پوری نہیں اترتی۔ سوال یہ ہے کہ آیندہ عام انتخابات میں کیا چلے ہوئے کارتوسوں کو ایک بار پھر آزمایا جائے؟
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اب ذرا آئیے بانی پاکستان بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے قول کی جانب جسے اگر قول فیصل کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا مگر افسوس صد افسوس ہم اس قول کو بار بار دہراتے رہتے ہیں لیکن عملاً اس سے ہمارا دور پرے کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ قول زریں تین الفاظ پر مشتمل ہے جو ریاست کے بنیادی ستون اور مکمل کامیابی کے ضامن ہیں: ایمان ، اتحاد اور تنظیم۔ اب آئیے ان اقوال زریں کے آئینہ میں من حیث القوم اپنی شکل و صورت کو دیکھیں اور جواب دیں کہ ہم کیسے ہیں۔ یقیناً جواب یہی ہوگا:
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
ڈوب مرنے کا مقام تو یہ ہے کہ ہم نے اللہ سے کیا ہوا اپنا وہ وعدہ بھی بھلا دیا۔ ہم نے یہ بھی بھلا دیا کہ یہ ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے اور یہ ایک اسلامی فلاحی ریاست ہوگا۔ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ مصور پاکستان علامہ اقبالؒ کا سایہ تو اس مملکت خداداد کے معرض وجود میں آنے سے پہلے ہی اٹھ گیا اور پھر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی نے بھی زیادہ وفا نہ کی اور اس کے نتیجہ میں یہ ملک اقتدارکے بھوکے بھیڑیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ با الفاظ دیگر رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی اور گوری کا جوبن چٹکیوں میں لٹ رہا ہے۔ شاعر نے اس صورتحال کا نقشہ اس شعر کی صورت میں کھینچا ہے:
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
ہمارا سب سے بڑا جرم تو یہ ہے کہ ہم بانی پاکستان کے فرمان کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں جس کی سزا بھی ہمیں تسلسل کے ساتھ مل رہی ہے۔ گستاخی معاف! ہم ایک قوم ہی نہیں رہے بلکہ لسانی اور زمینی اختلافات کی وجہ سے مختلف قومیتوں میں تقسیم ہوگئے۔ پاکستانی اور مسلمان بننے کے بجائے ہم نے اپنی اصل شناخت کھو کر خود کو پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان، بنگالی اور اردو بولنے والوں میں بانٹ لیا اور اتحاد کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کے بجائے ڈھیلا چھوڑ دیا۔ مشرقی پاکستان کے ہمارے ہاتھوں سے نکل جانے کے عظیم سانحہ کے بعد بھی ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور تقسیم در تقسیم کا یہ ہلاکت خیز سلسلہ بدستور جاری ہے اور خواب غفلت سے جاگنے کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے۔ اصلاح احوال کی جانب توجہ دینے کے بجائے ہم مزید بگاڑ کی طرف گامزن ہیں۔ اتحاد کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے کہ جس میں ہماری عافیت کی راہ ہے ہم مسالک، عقائد اور فرقوں میں تقسیم ہو رہے ہیں جو نا صرف ملی تقاضوں کے منافی ہے بلکہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ بقول شاعر:
زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں
چل رہے ہیں رات دن اور کوئی منزل بھی نہیں
منزل تک پہنچنے کے راستے سے بھٹک کر ہم گمشدہ بھیڑوں کی طرح ذاتی اور گروہی مفادات کی بھول بھلیوں میں گم ہوگئے ہیں۔ اس صورتحال پر علامہ اقبالؒ ہم سے ان الفاظ میں مخاطب ہیں:
کاش ہم علامہ کے الفاظ کی روح کو پہچان سکیں:
فرقہ بندی ہے کہیں، اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
دینی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرنے کے باوجود ہم اپنے منہ میاں مٹھو بنے ہوئے ہیں۔ غیروں کی تقلید کرنے پر فخرکررہے ہیں۔ مغرب کی نقالی میں ہم نے اہل مغرب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جو ہمارے طرز عمل سے صاف ظاہر ہے۔ ہم وہ سب کام کر رہے ہیں جنھیں ہمارے اللہ اور ہمارے پیارے نبیؐ نے کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ ہم نے اس حقیقت کو فراموش کر دیا ہے کہ دنیا ایک سرائے فانی ہے اور ہر چیز یہاں کی آنی جانی ہے جب کہ آخری منزل اس کے بعد آنی ہے۔ ہم اس روش پر چل رہے ہیں کہ:
بابر باعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
مال و دولت کی ہوس نے ہمیں اندھا کر دیا ہے اور ہم راتوں رات امیر بننے کے چکر میں پڑ کر حلال و حرام کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔ہمارے نزدیک جائز و ناجائز میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ اس کے نتیجہ میں ہم نے بھی and justifies the means والی اغیار کی روش اختیار کرلی ہے یعنی مال آنا چاہیے چاہے طریقہ کار کوئی بھی ہو۔ خوف خدا ہمارے دل سے مٹ چکا ہے اور ہم یہ بھول گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نظروں سے ہم کبھی اوجھل نہیں ہو سکتے۔
کون سی برائی ہے جو ہم میں موجود نہیں۔ ہم بے ایمانی کر رہے ہیں، دھوکا دے رہے ہیں، جعل سازی کر رہے ہیں، ملاوٹ کر رہے ہیں حتیٰ کہ اشیاء خوردنی اور جعلی ادویات تیار کرکے لوگوں کی صرف صحت ہی نہیں بلکہ زندگیوں سے بھی کھیل رہے ہیں۔ پھر بھی خود کو مسلمان کہلوانے پر مصر ہیں۔ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور ہمیں کسی مسیحا کی تلاش ہے۔ ہمیں مخلص اور اہل قیادت کی اشد ضرورت ہے جو بدقسمتی سے ہمیں ابھی تک میسر نہیں آسکی۔ ہمیں رہبر کے روپ میں رہزن ہی ملے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مومن ایک سوراخ سے ایک ہی بار ڈسا جاتا ہے لیکن ہم ہیں کہ بار بار ڈسے جا رہے ہیں۔2018 کے گزشتہ عام انتخابات کے بعد برسر اقتدار آنے والی جماعت پر مکمل بھروسہ کرکے ہماری اکثریت نے اسے اپنی کامیابی سمجھا تھا اور خوش و خرم تھے کہ ہم نے اپنی منزل کو پا لیا ہے اور اپنا مطلوبہ ہدف حاصل کر لیا ہے لیکن اس کی اب تک کی کارکردگی سے مایوسی کے سوا اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔
اس پر ہمیں ایک ذاتی معاملہ یاد آرہا ہے جو ہمیں سرکاری ملازمت کے دوران پیش آیا تھا۔ ہوا یوں کہ ہمارے ادارے میں ڈرائیور کی اسامی خالی پڑی ہوئی تھی جس کے لیے درخواستیں طلب کی گئی تھیں۔ مطلوبہ اسامی کے لیے آنے والی درخواستوں میں سے کسی امیدوار کے انتخاب کے لیے ایک انٹرویو بورڈ تشکیل دیا گیا جس کی سربراہی کے لیے خاکسار کو نامزد کیا گیا۔ انٹرویو کا آغاز ہوا ہی تھا کہ ہمیں ایک کال موصول ہوئی۔
کال کرنے والا ہمارے باس کے باس کا پی۔اے تھا جس کا کہنا تھا کہ فلاں امیدوار کو منتخب کیا جائے۔ حکم کی بجا آوری کے لیے ہمیں ترجیحاً اسی امیدوار کو بلانا پڑا تو معلوم ہوا کہ وہ نماز اور وقت کی پابندی کا بہت قائل ہے لیکن جب ہم نے ڈرائیونگ سے متعلق سوالات کیے تو وہ بالکل کورا نکلا۔ ہم نے جب اس سے یہ کہا کہ بھائی ہمیں تو ڈرائیور کی ضرورت ہے اور وہ تم کو آتی نہیں تو پھر کس طرح کام چلے گا ؟
اس کا سیدھا سادہ جواب تھا ''سر! وہ تو کوئی بات ہی نہیں میں دو چار دن میں سیکھ ہی لوں گا اور یہ بات میں نے انھیں پہلے ہی بتا دی تھی۔'' انھیں سے اس کی مراد ہمارے باس کے باس سے تھی جن کا وہ کوئی عزیز یا تعلق دار تھا۔ ہمارا باس مزاجاً کمزور واقع ہوا تھا جب کہ اس کا باس جلاد صفت تھا۔ ہم شش و پنج میں پڑ گئے کہ کریں تو کیا کریں۔ وقت کم تھا اور مقابلہ سخت۔ ایک طرف کنواں تھا اور دوسری جانب کھائی تھی۔ حالات کا جبر تھا کہ ہم سفارش کو قبول کریں اور ضمیر کی آواز تھی کہ انصاف سے کام لیا جائے۔
بڑی کشمکش تھی اور کڑی آزمائش کی اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ کی مدد نے ہی ہماری جان چھڑائی اور ہم نے بورڈ کی سربراہی کرنے سے معذرت کرلی۔ 2018 کے عام انتخابات کے نتیجہ سے بھی ہمیں کچھ ایسا ہی سبق ملتا ہے۔ بالفرض اگر انتخاب کے نتیجہ میں برسر اقتدار آنے والی موجودہ قیادت کو سچا اور ایماندار تسلیم کرلیا جائے تو بھی کارکردگی کی کسوٹی پر وہ کسی طور بھی پوری نہیں اترتی۔ سوال یہ ہے کہ آیندہ عام انتخابات میں کیا چلے ہوئے کارتوسوں کو ایک بار پھر آزمایا جائے؟