محسنِ پاکستان کا گھر اور نواز شریف کا فیصلہ
محسنِ پاکستان کے جنازے میں صدرِ پاکستان شریک ہُوئے نہ وزیر اعظم اور نہ ہی اپوزیشن کا کوئی اہم لیڈر۔
ISLAMABAD:
10اکتوبر2021 کو محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان 85سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔ موسم کی شدید خرابی اور بارش کے باوصف جس محبت سے پاکستان کے ہزاروں عوام اُن کے جنازے میں شریک ہُوئے، یہ اس امر کاواضح ثبوت تھا کہ واقعی معنوں میں وہ پاکستان کے محسن اور پاکستانی عوام کے حقیقی محبوب تھے۔
یہ بات ہم عوام ہمیشہ یاد رکھیں گے کہ محسنِ پاکستان کے جنازے میں صدرِ پاکستان شریک ہُوئے نہ وزیر اعظم اور نہ ہی اپوزیشن کا کوئی اہم لیڈر۔ دس اکتوبر کی گہری ابر آلود شام کو جب ڈاکٹر خان صاحب مرحوم کی میت لحد کے سپرد کی جارہی تھی، اُسی شام اور رات بھر پاکستان کے سوشل میڈیا پر بکثرت ہمسایہ ملک کی ایک ایٹمی مسلمان شخصیت کی آخری رسومات بھی دکھائی جا رہی تھیں۔
ان رسومات میں دیکھنے والے صاف دیکھ سکتے تھے کہ بھارتی ایٹمی سائنسدان اور سابق بھارتی صدرِ مملکت ، ڈاکٹر عبدالکلام، کا بھارتی پرچم میں لپٹا جنازہ سامنے رکھا ہے اور اُن کے پاؤں کی طرف برہنہ پا بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، کھڑے ہیں اور ڈاکٹر عبدالکلام کو آخری سیلوٹ اور الوداع کررہے ہیں۔یہ ایک تاثراتی تصویر تھی۔ مطلب پاکستان کی اہم ترین سیاسی اور مقتدر شخصیت کو یہ پیغام دینا تھا کہ آپ اسلام آباد میں ہوتے ہُوئے محسنِ پاکستان اور پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، کے جنازے کو کندھا دے سکے نہ اُن کی مغفرت کے لیے جنازے میں شریک ہُوئے ۔
پاکستان کے ایک قابلِ فخر فرزند ہونے کے ناتے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے رب کے حضور حاضر ہو چکے ہیں ۔ ہمیں اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر اپنی رحمتوں اور مغفرتوں کی بارشیں کی ہوں گی ۔ افسوس تو اس بات کا ہے جب محسنِ پاکستان اپنے سفرِ آخرت پر روانہ ہو رہے تھے، وطنِ عزیز کے بعض نجی ٹی ویز پر اُن کے بارے ایسے انٹرویوز نشر کررہے تھے جن میں پاکستان کے ایک سابق آمر حکمران ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر سنگین الزامات عائد کرتے دکھائی اور سنائی دے رہے تھے۔
ان الزامات اور تہمتوں کے باوجود اور حکمرانوں کی بسیار کوششوں کے باوصف پاکستانی عوام کے دلوں سے محسنِ پاکستان کی محبت اور عقیدت مٹائی نہ جا سکی۔ پاکستان کے متعدد شہروں اور قصبات میں عوام نے جس طرح احترام و اکرام سے ڈاکٹر خان کی نمازِ غائبانہ ادا کی ہیں، اس نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ پاکستانی عوام نے ڈاکٹر صاحب مرحوم کی اُس گزارش پر دلجمعی سے لبیک کہا جس میں ڈاکٹر قدیر خان نے کہا تھا:'' میری وفات کے بعد ملک بھر کے شہروں اور قصبوں میں میری مغفرت کے لیے نمازِ جنازہ ادا کرنا۔''
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دل و دماغ میںپاکستان سے محبت اور اسے مضبوط و مستحکم کرنے کی خواہش ہر وقت مچلتی رہتی تھی۔ لاریب انھوں نے اس خواہش کو عملی شکل بھی دی اور سارے عالمِ اسلام سے شاباش بھی پائی ۔ اُن کے جنازے میں اگر اعلیٰ ترین سرکاری اور درباری شخصیات شریک نہیں ہو سکیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ دشمنوں نے بھی شہادت دی ہے کہ ڈاکٹر خان اپنے وطن کے لیے ایسا بے مثل کام کر کے رخصت ہُوئے ہیں کہ پاکستانی قوم ہمیشہ اُن کی ممنونِ احسان رہے گی۔ وہ بجا طور پر محسنِ پاکستان کہلانے کے حقدار تھے اور پاکستانی قوم نے اس کا حق ادا کر دیا۔
اسرائیل کے ممتاز انگریزی اخبار ''ہارٹز'' نے 11اکتوبر2021 کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ایٹمی خدمات کے بارے میں جو الزامی آرٹیکل شایع کیا ہے، یہ بھی اس بات کی ایک اور شہادت ہے کہ پاکستان کے دشمنوں کی آنکھ میں ڈاکٹر خان اور اُن کی ایٹمی خدمات کانٹے کی طرح کھٹکتی رہتی تھیں ۔ انھیں اس بات کا شدید قلق اور دکھ تھا کہ اس شخص نے پاکستان ایسے کمزور ملک کو جوہری طاقت سے کیوں آراستہ کیا؟ اسرائیلی حکومت نے ڈاکٹر خان کو قتل کرانے بارے بھی منصوبہ بندی کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر خان کو محفوظ کیے رکھا۔
اسرائیلی اخبار میں شایع ہونے والا یہ انکشافاتی مضمون مشہور صہیونی دانشور Yossi Melmanنے لکھا ہے اوراس کا عنوان ہے :Pakistan,s A.Q Khan,Father of the Muslim Bomb,Escaped Mossad Assassination ۔ اسرائیلی صہیونیوں کی یہ گواہی بھی اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان کو ایک جوہری مملکت بنانے کی دھن میں ڈاکٹر خان نے اپنی جان ہمیشہ ہتھیلی پر سجائے رکھی۔ وہ جب اپنے سفرِ آخرت پر روانہ ہُوا تو ہماری مقتدر اور سیاسی اشرافیہ کو اُس کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے فرصت ہی نہیں تھی ۔ یہ ہے قومی ہیروؤں کے لیے ہمارے سیاستدان کا احترام!
ہمارے حکمرانوں اور مقتدر سیاستدانوں نے تو محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اپنے ذاتی گھر کو بھی بلڈوز کرنے کی جسارت کی تھی ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں اعلیٰ مقتدر شخصیات کو مفت سرکاری زمینیں اور پلاٹ عنایت کیے جاتے ہیں، اسی پاکستان میں ڈاکٹر خان کا وہ گھر بھی مسمار اور زمیں بوس کرنے کی کوششیں کی گئیں جو گھر ڈاکٹر خان نے اپنی حلال کی کمائی سے بنایا تھا۔ یہ سادہ سا گھر اسلام آباد کے علاقے'' بنی گالہ'' میں ہے۔
وہی مشہورِ زمانہ بنی گالہ جہاں ہمارے وزیر اعظم صاحب کا بھی 300کنال پر محیط محل ایستادہ ہے ۔ ڈاکٹر خان کا گھر تو اس محل کے سامنے محض ایک کُٹیا ہے۔ غیر ملکی حکمرانوں اور طاقتوں کے دباؤ اور ڈر سے ہمارے حکمرانوں نے یہ گھر توڑ کر دراصل یہ ثابت کرنا تھا کہ ''ملزم'' ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سزائیں دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور یہ قابلِ مذمت کوشش اُس وقت ہُوئی جب میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم تھے۔
اگر ہم سابق وفاقی وزیر جناب انور سیف اللہ خان کی انکشاف خیز سوانح حیات '' مَیں اور میرا پاکستان: نوکر شاہی سے سیاست تک'' کا مطالعہ کریں تو ہم پر یہ افسوسناک داستان پوری تفصیل کے ساتھ کھلتی ہے کہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا گھر گرانے اور اس کے انہدام کی سازش کس نے کی اور کیوں کی ؟ اور اس اقدام کے پسِ پشت مقاصد کیا تھا ؟ اور یہ کیسے ناکامی سے ہمکنار ہُوئی ؟ اس مذموم کوشش کے راستے میں کون مزاحم ہو گیا تھا؟ کتابِ مذکور کے صفحہ 65پر جناب انور سیف اللہ خان نے '' بنی گالہ میں محسنِ پاکستان کے گھر کا قصہ'' کے زیر عنوان یہ دکھ بھری کہانی رقم کی ہے ۔
مصنف ( جو نواز شریف کی کابینہ میں وزیر ماحولیات و شہری امور تھے) کا دعویٰ ہے کہ اُن کی کوششوں اور مداخلت سے محسنِ پاکستان کا گھر منہدم ہونے سے بچ گیا ۔ مصنف انور سیف اللہ خان کے یہ الفاظ قابلِ غور ہیں: ''میرا دل اور میرا ضمیر اس حوالے سے بے حد مطمئن رہتا ہے کہ مَیں نے بنی گالہ میں ڈاکٹر خان کے مکان کو منہدم ہونے سے بچانے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ مجھے اس وقت حیرت اور ملال محسوس ہوتا ہے جب میرے سامنے کوئی یہ کہتا ہے کہ میاں نواز شریف صاحب تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو صدرِ مملکت کے عہدے پر فائز کرنا چاہتے تھے ۔''
10اکتوبر2021 کو محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان 85سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔ موسم کی شدید خرابی اور بارش کے باوصف جس محبت سے پاکستان کے ہزاروں عوام اُن کے جنازے میں شریک ہُوئے، یہ اس امر کاواضح ثبوت تھا کہ واقعی معنوں میں وہ پاکستان کے محسن اور پاکستانی عوام کے حقیقی محبوب تھے۔
یہ بات ہم عوام ہمیشہ یاد رکھیں گے کہ محسنِ پاکستان کے جنازے میں صدرِ پاکستان شریک ہُوئے نہ وزیر اعظم اور نہ ہی اپوزیشن کا کوئی اہم لیڈر۔ دس اکتوبر کی گہری ابر آلود شام کو جب ڈاکٹر خان صاحب مرحوم کی میت لحد کے سپرد کی جارہی تھی، اُسی شام اور رات بھر پاکستان کے سوشل میڈیا پر بکثرت ہمسایہ ملک کی ایک ایٹمی مسلمان شخصیت کی آخری رسومات بھی دکھائی جا رہی تھیں۔
ان رسومات میں دیکھنے والے صاف دیکھ سکتے تھے کہ بھارتی ایٹمی سائنسدان اور سابق بھارتی صدرِ مملکت ، ڈاکٹر عبدالکلام، کا بھارتی پرچم میں لپٹا جنازہ سامنے رکھا ہے اور اُن کے پاؤں کی طرف برہنہ پا بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، کھڑے ہیں اور ڈاکٹر عبدالکلام کو آخری سیلوٹ اور الوداع کررہے ہیں۔یہ ایک تاثراتی تصویر تھی۔ مطلب پاکستان کی اہم ترین سیاسی اور مقتدر شخصیت کو یہ پیغام دینا تھا کہ آپ اسلام آباد میں ہوتے ہُوئے محسنِ پاکستان اور پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، کے جنازے کو کندھا دے سکے نہ اُن کی مغفرت کے لیے جنازے میں شریک ہُوئے ۔
پاکستان کے ایک قابلِ فخر فرزند ہونے کے ناتے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے رب کے حضور حاضر ہو چکے ہیں ۔ ہمیں اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر اپنی رحمتوں اور مغفرتوں کی بارشیں کی ہوں گی ۔ افسوس تو اس بات کا ہے جب محسنِ پاکستان اپنے سفرِ آخرت پر روانہ ہو رہے تھے، وطنِ عزیز کے بعض نجی ٹی ویز پر اُن کے بارے ایسے انٹرویوز نشر کررہے تھے جن میں پاکستان کے ایک سابق آمر حکمران ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر سنگین الزامات عائد کرتے دکھائی اور سنائی دے رہے تھے۔
ان الزامات اور تہمتوں کے باوجود اور حکمرانوں کی بسیار کوششوں کے باوصف پاکستانی عوام کے دلوں سے محسنِ پاکستان کی محبت اور عقیدت مٹائی نہ جا سکی۔ پاکستان کے متعدد شہروں اور قصبات میں عوام نے جس طرح احترام و اکرام سے ڈاکٹر خان کی نمازِ غائبانہ ادا کی ہیں، اس نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ پاکستانی عوام نے ڈاکٹر صاحب مرحوم کی اُس گزارش پر دلجمعی سے لبیک کہا جس میں ڈاکٹر قدیر خان نے کہا تھا:'' میری وفات کے بعد ملک بھر کے شہروں اور قصبوں میں میری مغفرت کے لیے نمازِ جنازہ ادا کرنا۔''
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دل و دماغ میںپاکستان سے محبت اور اسے مضبوط و مستحکم کرنے کی خواہش ہر وقت مچلتی رہتی تھی۔ لاریب انھوں نے اس خواہش کو عملی شکل بھی دی اور سارے عالمِ اسلام سے شاباش بھی پائی ۔ اُن کے جنازے میں اگر اعلیٰ ترین سرکاری اور درباری شخصیات شریک نہیں ہو سکیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ دشمنوں نے بھی شہادت دی ہے کہ ڈاکٹر خان اپنے وطن کے لیے ایسا بے مثل کام کر کے رخصت ہُوئے ہیں کہ پاکستانی قوم ہمیشہ اُن کی ممنونِ احسان رہے گی۔ وہ بجا طور پر محسنِ پاکستان کہلانے کے حقدار تھے اور پاکستانی قوم نے اس کا حق ادا کر دیا۔
اسرائیل کے ممتاز انگریزی اخبار ''ہارٹز'' نے 11اکتوبر2021 کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ایٹمی خدمات کے بارے میں جو الزامی آرٹیکل شایع کیا ہے، یہ بھی اس بات کی ایک اور شہادت ہے کہ پاکستان کے دشمنوں کی آنکھ میں ڈاکٹر خان اور اُن کی ایٹمی خدمات کانٹے کی طرح کھٹکتی رہتی تھیں ۔ انھیں اس بات کا شدید قلق اور دکھ تھا کہ اس شخص نے پاکستان ایسے کمزور ملک کو جوہری طاقت سے کیوں آراستہ کیا؟ اسرائیلی حکومت نے ڈاکٹر خان کو قتل کرانے بارے بھی منصوبہ بندی کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر خان کو محفوظ کیے رکھا۔
اسرائیلی اخبار میں شایع ہونے والا یہ انکشافاتی مضمون مشہور صہیونی دانشور Yossi Melmanنے لکھا ہے اوراس کا عنوان ہے :Pakistan,s A.Q Khan,Father of the Muslim Bomb,Escaped Mossad Assassination ۔ اسرائیلی صہیونیوں کی یہ گواہی بھی اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان کو ایک جوہری مملکت بنانے کی دھن میں ڈاکٹر خان نے اپنی جان ہمیشہ ہتھیلی پر سجائے رکھی۔ وہ جب اپنے سفرِ آخرت پر روانہ ہُوا تو ہماری مقتدر اور سیاسی اشرافیہ کو اُس کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے فرصت ہی نہیں تھی ۔ یہ ہے قومی ہیروؤں کے لیے ہمارے سیاستدان کا احترام!
ہمارے حکمرانوں اور مقتدر سیاستدانوں نے تو محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اپنے ذاتی گھر کو بھی بلڈوز کرنے کی جسارت کی تھی ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں اعلیٰ مقتدر شخصیات کو مفت سرکاری زمینیں اور پلاٹ عنایت کیے جاتے ہیں، اسی پاکستان میں ڈاکٹر خان کا وہ گھر بھی مسمار اور زمیں بوس کرنے کی کوششیں کی گئیں جو گھر ڈاکٹر خان نے اپنی حلال کی کمائی سے بنایا تھا۔ یہ سادہ سا گھر اسلام آباد کے علاقے'' بنی گالہ'' میں ہے۔
وہی مشہورِ زمانہ بنی گالہ جہاں ہمارے وزیر اعظم صاحب کا بھی 300کنال پر محیط محل ایستادہ ہے ۔ ڈاکٹر خان کا گھر تو اس محل کے سامنے محض ایک کُٹیا ہے۔ غیر ملکی حکمرانوں اور طاقتوں کے دباؤ اور ڈر سے ہمارے حکمرانوں نے یہ گھر توڑ کر دراصل یہ ثابت کرنا تھا کہ ''ملزم'' ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سزائیں دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور یہ قابلِ مذمت کوشش اُس وقت ہُوئی جب میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم تھے۔
اگر ہم سابق وفاقی وزیر جناب انور سیف اللہ خان کی انکشاف خیز سوانح حیات '' مَیں اور میرا پاکستان: نوکر شاہی سے سیاست تک'' کا مطالعہ کریں تو ہم پر یہ افسوسناک داستان پوری تفصیل کے ساتھ کھلتی ہے کہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا گھر گرانے اور اس کے انہدام کی سازش کس نے کی اور کیوں کی ؟ اور اس اقدام کے پسِ پشت مقاصد کیا تھا ؟ اور یہ کیسے ناکامی سے ہمکنار ہُوئی ؟ اس مذموم کوشش کے راستے میں کون مزاحم ہو گیا تھا؟ کتابِ مذکور کے صفحہ 65پر جناب انور سیف اللہ خان نے '' بنی گالہ میں محسنِ پاکستان کے گھر کا قصہ'' کے زیر عنوان یہ دکھ بھری کہانی رقم کی ہے ۔
مصنف ( جو نواز شریف کی کابینہ میں وزیر ماحولیات و شہری امور تھے) کا دعویٰ ہے کہ اُن کی کوششوں اور مداخلت سے محسنِ پاکستان کا گھر منہدم ہونے سے بچ گیا ۔ مصنف انور سیف اللہ خان کے یہ الفاظ قابلِ غور ہیں: ''میرا دل اور میرا ضمیر اس حوالے سے بے حد مطمئن رہتا ہے کہ مَیں نے بنی گالہ میں ڈاکٹر خان کے مکان کو منہدم ہونے سے بچانے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ مجھے اس وقت حیرت اور ملال محسوس ہوتا ہے جب میرے سامنے کوئی یہ کہتا ہے کہ میاں نواز شریف صاحب تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو صدرِ مملکت کے عہدے پر فائز کرنا چاہتے تھے ۔''