حکومت بُری ہے

وطن عزیز میں غربت، بھوک، افلاس، مہنگائی، بیروزگاری اپنے عروج پر ہے

وطن عزیز میں غربت، بھوک، افلاس، مہنگائی، بیروزگاری اپنے عروج پر ہے۔ (فوٹو: فائل)

ABU DHABI:
میں نے شور کی آواز سن کر باہر جھانکا۔ چند لوگ نعروں کی صورت میں شور برپا کیے ہوئے تھے۔

''یہ کیا ہورہا ہے؟'' میں نے اپنے ساتھ کھڑے ہوئے ایک گاہک سے پوچھا۔ اس نے میری طرف حیرانی سے دیکھا، جیسے کہہ رہا ہو لگتا ہے آپ اس شہر میں نئے آئے ہیں۔ پھر گویا ہوا ''بھائی صاحب نئے اے سی نے معیار، زائد قیمتوں کی وصولی اور تجاوزات کی وجہ سے سبزی اور گوشت فروشوں پر جرمانہ کیا ہے۔ بجائے اپنی اصلاح کرنے کے یہ لوگ ہڑتال کرکے مثال قائم کررہے ہیں تاکہ مستقبل میں کوئی ان کی اصلاح کی کوشش نہ کرسکے۔''

کچھ ہی دیر بعد شہر سے سبزی اور گوشت غائب ہوگیا۔ بعد ازاں عوامی نمائندوں کی مداخلت پر عوام نے سکھ کا سانس لیا۔

یہ صرف ایک شعبے کی صورت حال نہیں ہم من حیث القوم بری طرح زوال پذیر ہیں۔ ہمارا ہر شعبہ اخلاقی پستی کی انتہا کو چھو رہا ہے۔ ہم پاکستان کو ٹھیک ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں مگر خود کو بدلے بغیر۔ ہم پاکستان سے ہر برائی کا خاتمہ چاہتے ہیں مگر اپنے اندر موجود برائیوں کا خاتمہ کیے بغیر۔ ہم دکاندار ہیں تو زائد قیمتیں وصول کریں گے، تہہ بازاری جیسے جرم کا ارتکاب کرکے لوگوں کا راستہ تنگ کریں گے۔ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی اور وہ سب کچھ جو ہمیں وقتی فائدہ دے سکے، کریں گے مگر برا حکومت کو ٹھہرائیں گے۔

اخلاقیات تو دور کی بات، ہم نے دنیاوی معاملات میں مذہب کی پابندیوں کو رکاوٹ سمجھتے ہوئے اسے عملی طور پر پس پشت ڈال دیا ہے۔ ہم اپنے نبیؐ کے نام پر جان دینے اور لینے کو تیار ہیں مگر ہم یہ سیکھنے کو تیار نہیں کہ آپؐ نے تجارت کیسے کی؟


ہم جرم خود کرتے ہیں اور برا بھلا حکمرانوں کو بولتے ہیں۔ حالانکہ قرآن پاک میں اللہ کا حکم ہے (مفہوم) اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور حاکم کی اطاعت کرو۔ نبی کریمؐ کا فرمان عالیشان ہے، (مفہوم) سنو اور مانو، اگر تم پر حبشی غلام جس کا سر کشمش کی طرح پچکا ہوا ہو مسلط کردیا جائے۔

ہم میں سے اکثریت اللہ کی کتاب کو پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کرتی۔ جو پڑھتے ہیں ان میں سے بڑی تعداد اسے ثواب کی نیت سے پڑھتی ہے، حالانکہ قرآن پاک ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا موجب بھی حکمرانوں کو ٹھہرا کر خود کو تبدیل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ قرآن پاک میں واضح طور پر ارشاد باری تعالیٰ ہے (مفہوم) خشکی اور تری میں جو فساد ہے انسان کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہے۔

وطن عزیز میں غربت، بھوک، افلاس، مہنگائی، بیروزگاری اپنے عروج پر ہے مگر کوئی کام کرنے کو تیار نہیں۔ میرے چھوٹے بھائی نے گھر کی تعمیر کےلیے مستری اور مزدوروں کو چار مرتبہ تبدیل کیا، کیونکہ کام کرنے والے رزق حلال کمانے کو تیار ہی نہیں تھے۔ ایک سیٹ کے اشتہار پر ہزاروں افراد آجائیں گے مگر جو پہلے سے جاب پر موجود ہیں ان میں اکثریت کام کرنے کی رشوت اور کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ سرعام ہورہا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے، ہر کوئی دیکھ رہا ہے مگر نہ صرف یہ کہ خود اسے درست کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ کوشش کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اوپر کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ اور پھر جب بات حد سے بڑھ جاتی ہے تو حکمرانوں کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ایک خود کو بدلے۔ ہر ایک خود کو ذمے دار سمجھے۔ ہر ایک سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر حکومت کے ہاتھ مضبوط کرے۔ ہڑتالوں سے پریشان ہوکر قانون شکنوں کا ساتھ نہ دیا جائے۔ آخری بات کہ عشق رسولؐ کی حقیقت کو سمجھ کر ہر شعبے کو نبی کریمؐ کے طریقوں سے مزین کیا جائے، بصورت دیگر کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم دنیا میں اس لیے خوار ہوتے رہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور آخرت میں ہماری پٹائی اس لیے ہوکہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی ''مسلمان'' نہیں تھے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story