امریکا چین سرد جنگ متوازن پالیسی اپنائیں

سرمایہ کاری ہونے سے پیداواری عمل میں اضافہ ہو گا تو برآمدی اہداف کا حصول مشکل نہیں رہے گا۔


Editorial December 11, 2021
سرمایہ کاری ہونے سے پیداواری عمل میں اضافہ ہو گا تو برآمدی اہداف کا حصول مشکل نہیں رہے گا۔ فوٹو : فائل

RAWALPINDI: امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، بلکہ اسے روکنے کی کوشش کریں گے،ان خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں ''ایک پرامن وخوشحال جنوبی ایشیا'' کے موضوع پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ مسئلہ کشمیر نے پورے جنوبی ایشیا کو یرغمال بنایا ہوا ہے، بھارت، بندوق کے زور، طاقت کے استعمال اور ظلم کے ذریعے کشمیریوں کو نہیں دبا سکتا۔

دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ کے محکمہ اطلاعات کے ترجمان نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان نے جمہوریت سربراہی اجلاس میں شرکت سے انکار کرکے چین کا حقیقی بھائی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔

وزیراعظم نے اپنے خطاب میں زیادہ بات پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متعلق کی ہے۔ ملک کی خارجہ پالیسی ان کی سوچ کے مطابق کیا ہونی چاہیے اور خطے اور بین الاقوامی سطح پر تعلقات کیسے آگے بڑھانا چاہیے انھوں نے ان پہلوؤں پر بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ اس پر وہ ہمیشہ بات کرتے ہیں، وہ کہہ چکے تھے کہ پاکستان نے امریکی جنگ میں جو حصہ لیا وہ غلط تھا، ان کا اصرار ہے کہ پاکستان کو کسی بھی جنگ میں حصہ نہیں لینا چاہیے، ایسی کسی جنگ سے دور رہنا چاہیے جس سے پاکستان کا اپنا کوئی تعلق نہیں۔

یادش بخیر! سرد جنگ کے دوران دنیا دو بلاکوں میں منقسم تھی پھر روس کی شکست و ریخت سے عالمی صورتحال ہی بدل گئی مگر اب حالات پھر کروٹ لینے لگے ہیں اور سرد جنگ کا ماحول بننے لگا ہے، عصر حاضر کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے پاکستان نے بھی بلاشبہ حکمت عملی تیارکی ہے۔

وزیراعظم عمران خان ملکی اور عالمی حالات پر مسلسل گفتگو کرتے ہمیں نظرآتے ہیں، یقیناً ان کی نظر بدلتے ہوئے حالات پرگہری ہے، اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن دوسری جانب ان کی تقاریر کے نتیجے میں سوالات بھی جنم لیتے ہیں، جن کا صائب جواب تلاش کرنا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکا اور چین سے تعلقات میں توازن قائم کرنا وقت کی ضرورت ہے لیکن ہمارے رویے میں بے نیازی یا لاپروائی کا عنصر نمایاں نظر آرہا ہے، چند برس قبل تک پاکستان امریکی مفادات کا بڑا پاسبان تھا مگر اچانک چین کی طرف جھکاؤ بڑھانے سے خطرات کم نہیں ہوئے حالانکہ خارجی اہداف کے انتخاب کا یہ عمل بتدریج ہوتا تو عالمی اقوام کی طرف سے زیادہ سخت ردعمل سے محفوظ رہتے مگر پالیسی سازوں کی نظر میں شاید اہداف سے زیادہ اور معاملات ہیں لیکن یہ بے نیازی قومی مفاد کو زک پہنچا سکتی ہے، دوسری جانب اِس حوالے سے پاکستان کی سفارتکاری نہایت کمزور ہے اور کچھ کرنے کے بجائے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑنے تک محدود ہے، اسی بنا پر عالمی معاملات میں باربار ہمیں سُبکی اُٹھانا پڑتی ہے۔

یہ بات بھی سچ ہے کہ پاکستان میں امریکا مخالف جذبات ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران اس طرح کے جذبات پاکستان میں بائیں بازو کی قوتوں میں زیادہ عام تھے لیکن اس جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستان کی مذہبی اور دائیں بازو کی قوتوں میں یہ جذبات بہت زیادہ بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں بہت سارے حلقے امریکا کو ایک ناقابل اعتبار ساتھی سمجھتے ہیں جو مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں چین کو قابل اعتماد ساتھی سمجھا جاتا ہے جس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے۔

اس کے متضاد رائے کے مطابق امریکا سے ناتا توڑنا اتنا بھی آسان نہیں ہے جتنا حکومت سمجھ رہی ہے، کیونکہ کسی بھی عالمی طاقت کا طرفدار یا مخالف ہونے کا براہ راست فائدہ یا نقصان پاکستان کو برداشت کرنا پڑے گا۔ پاکستان کی طرف سے امریکی صدر جوبائیڈن کی جمہوریت کانفرنس میں عدم شرکت کے فیصلے کو پاکستان میں کئی حلقوں نے سراہا ہے تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ دانشمندانہ نہیں ہے اور اس کے منفی نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔

ایک طبقہ فکر کی رائے میں اس کانفرنس میں شرکت نہ کرکے پاکستان نے واضح لکیر کھینچ دی ہے کہ اس کے اسٹرٹیجک مفادات کس کے ساتھ ہیں، پاکستان کے اب خطے میں بہت کلیدی مفادات ہیں۔ ان مفادات کے ہوتے ہوئے دنیا کا کوئی ملک پاکستان کو دباؤ میں لا کر ایک جانب نہیں دھکیل سکتا، اسی وجہ سے پاکستان کسی بھی چین مخالف بلاک کا حصہ کبھی نہیں بنے گا۔

پاکستان کی قیادت ہمیشہ سے یہ سمجھتی رہی ہے کہ پاکستان کے عوام کے مقبول ترین جذبات دراصل ملکی مفادات کے تحفظ کا عکاس ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ مقبول فیصلے کرنے میں کامیاب رہے اور ملک کے مفادات پر سمجھوتہ نہیں کیا ہے، یہ ایک موقف ہے جب کہ دوسرا موقف اس سے مختلف ہے، پاکستان اور امریکا کے تعلقات حالیہ برسوں میں کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہے اور کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس کانفرنس میں دعوت دے کر امریکا پاکستان سے دوبارہ اچھے تعلقات استوار کرنا چاہ رہا تھا، لیکن پاکستان کی طرف سے معذرت آنے کے بعد شاید امریکا اب ان تعلقات کو بہت بہتر انداز میں استوار کرنے کی کوشش نہ کرے۔

بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ سوالات کے جوابات تلاش کیے جائیں، منفی اور مثبت پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے۔ امریکی خاموشی کے باوجود بچوں کی طرح تنقید کے نشتر چلائے جا رہے ہیں یہ رویہ کسی طور دانشمندانہ نہیں اِس میں شائبہ نہیں کہ عالمی طاقتوں کے انتخاب میں پاکستان کی ترجیح اب امریکا نہیں چین ہے لیکن کیا بہتر ہوتاکہ دیگر طاقتوں کو ناراض کیے اور دشمن بنائے بغیر ترجیحات کا حصول یقینی بنایا جاتا۔

بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جو سرد جنگ کے ایام میں روس کا چہیتا رہا جونہی روس زوال کا شکار ہوا پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے امریکا کا منظورِ نظر ہو گیا ابھی حال ہی میں کورونا کی بدترین لہر کے باوجود کامیاب سفارتکاری کے ذریعے پابندیوں سے محفوظ رہا ہمیں بھی جذباتیت سے نکل کر خارجہ پالیسی کے اہداف کا انتخاب کرتے ہوئے حصولِ اہداف کی کوشش کرنی چاہیے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھارت کو اہم مقام حاصل ہے جس کی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جو سات دہائیوں سے حل طلب ہے، دونوں ممالک ایک دوسرے پر اندرونی معاملات میں مداخلت کے الزامات عائدکرتے ہیں مسئلہ کشمیر پر دو مکمل جنگیں ہوچکی ہیں لیکن باربار جارحیت کے باوجود بھارت کو سفارتکاری میں برتری حاصل ہے اور پاکستان تمام تر امن پسندی کے باوجود دفاعی مقام پر صفائیاں دے رہا ہے۔

پاکستان کے لیے خارجہ پالیسی کے اہداف کا انتخاب کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی ریشہ دوانیوں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں لیکن کچھ عرصے سے پاکستان اِس حوالے سے ذمے داریوں کی ادائیگی میں قاصر دکھائی دیتا ہے، اسی وجہ سے بھارت کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی جرأت ہوئی حالانکہ قبل ازیں فوجی ادوار میں بھی اُسے ایسا کرنے کی کبھی جرأت نہیں ہوئی جونہی امریکا سے تعلقات میں ہم نے بگاڑ پیدا کیا اسے کشمیر ہڑپ کرنے جیسا انتہائی فیصلہ کرنے کا حوصلہ ملا یہ فیصلہ پاکستان کی سفارتی ناکامی اور کمزورخارجہ پالیسی کی تصدیق کرتا ہے۔

حالات اِس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ کشمیرکو ضم کرنے کے بعد پاکستان کوبھی سبق سکھانے اور توڑنے کی دھمکیاں دینے لگا ہے ۔ بھارت تخریب کاری کے باوجود بالاتر اور ہم ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے صفائیاں دے رہے ہیں۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پاکستانی سفارتخانوں میں بھی اِس حوالے سے کچھ خاص ہلچل نظر نہیں آتی اگر پاکستانی سفارتخانوں میں کشمیرمیں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی تخریب کاریوں کو بے نقاب کرنے کے لیے خصوصی کاؤنٹر بنائے جاتے اور حکومتی نمایندوں سے روابط بڑھانے سے مظلوم کشمیریوں کے حق میں نہ صرف عالمی رائے عامہ ہموار بلکہ بھارت پر عالمی دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے۔

ہمیں بھی عالمی طاقتوں کو مخالف بنانے کے بجائے زیادہ سے زیادہ طرفدار بنانا ہوگا تاکہ سرمایہ کاری میں اضافہ ہو اور پیداواری عمل بڑھے جو برآمدات کو فروغ دینے کا باعث بنیں۔ تحقیقی علوم میں ترقی یافتہ ممالک کی برتری ایک حقیقت ہے تحقیقات تک رسائی حاصل کرنی ہے تو مخالفت بڑھانے کا عمل روکنا ہو گا پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کے اہداف کا انتخاب کرتے ہوئے ملک کے معاشی مسائل کو نظرانداز نہ کیا جائے۔

یہ درست ہے کہ بھارت اور کشمیر کو خارجہ پالیسی کے اہداف میں اہم حیثیت حاصل ہے مگر دیگراقوام سے بات چیت اور ملاقاتوں کا عمل منقطع کرنا مسائل کا موجب بن سکتا ہے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی مرتب کرتے وقت ذمے داران ملک کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز سے صرفِ نظر نہ کریں اوراہداف و ترجیحات کے تعین تک محدود رہنے سے آگے بڑھیں تبھی دہشت گردی کے لیبل سے چھٹکارا مل سکتا ہے کشمیر کے حوالے سے عالمی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔

سرمایہ کاری ہونے سے پیداواری عمل میں اضافہ ہو گا تو برآمدی اہداف کا حصول مشکل نہیں رہے گا۔ شرط یہ ہے کہ اہداف کے انتخاب کے ساتھ عالمی طاقتوں کی مخالفت مول لیے بغیرکام کیا جائے ملک معاشی ودفاعی لحاظ سے مضبوط ہوگا تو عالمی سطح پر آواز میں زیادہ وزن ہوگا۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ خارجہ پالیسی کے اہداف کے انتخاب میں عالمی طاقتوں سے تعلقات میں توازن پیدا کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں