سماجی تحفظ پروگرام
سماج دشمن اور فلاحی پروگراموں کی مالیاتی امداد پر نقب ڈالنے والوں سے تحفظ فراہم کیا جائے۔
HYDERABAD:
انھوں نے اپنی چھریاں بھی تیز کرلی ہیں، اپنے دانتوں کو بھی دھار لگا لی، جبڑے بھی مضبوط کرلیے ہیں۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر جپھی ڈال کر خوشی سے قہقہے بھی لگا رہے ہیں، اتراتے چلے جا رہے ہیں، ان اکڑی گردن والوں کو بہت سے لوگ خوب جانتے ہیں کیونکہ حکومت کا کوئی فلاحی پروگرام ہو ، غریبوں کے لیے کوئی امدادی پروگرام ہو۔ اس میں سے یہ اپنا حصہ بقدر جثہ اڑانے کا فن خوب جانتے ہیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کس طرح اپنوں کو خوب نوازا۔ خبریں یہ بھی آتی رہیں کہ افسران کی بیویاں تک رقم بٹورتی رہیں۔ تعلیم کے نام پر کیا کچھ نہ ہوا اور اب بھی شاید ہو رہا ہے۔ گھوسٹ اسکول یعنی نہ اسکول نہ طالب علم نہ ہی اساتذہ۔ لیکن رقوم پھر بھی بانٹی جاتی رہی ہیں۔ کہیں اساتذہ ہیں تو اسکول نہیں آتے کہ آدھی تنخواہ لیتے رہتے اور باقی رقم کہاں تک جاتی ہے کسے معلوم۔ یوٹیلیٹی اسٹورکا راشن کہاں کہاں بک جاتا ہے۔
زلزلوں کا امدادی سامان آٹا تو کون کون اپنے گھر لے جاتا ، گندم، چینی کیسے ادھر سے اُدھر ہو جاتی کہ دیکھنے والے بھی کہہ دیتے کہ ہمیں کیا معلوم۔ حکومت نے کہا کہ سماجی تحفظ کا سب سے بڑا پروگرام۔ حکومت پہلے اس پروگرام پر نقب ڈالنے والوں، پروگرام کی افادیت پر چھید کرنے والوں سے تحفظ کا قانون بنائے۔ پھر کہیں جا کر یہ غریب عوام کے لیے سماجی تحفظ کا پروگرام ثابت ہوگا۔ 120 ارب روپے سے راشن پروگرام شروع کرنے پر 13 کروڑ افراد کو خوراک پر 30 فی صد سبسڈی حاصل ہوگی۔
حکومت پنجاب ہیلتھ انشورنس پر 320 ارب روپے خرچ کرے گی، دس سال میں دس ڈیم بنائے جائیں گے۔ حکومت کے مطابق پاکستان میں دنیا میں سب سے کم قیمت پر پٹرول اور ڈیزل فروخت کیا جا رہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے پاس آمدن ہی اتنی نہیں کہ وہ اس کم قیمت پر بھی پٹرول ڈیزل خرید سکیں لہٰذا غریب عوام کے لیے تو مہنگا ہی ہوا۔ 13کروڑ عوام کو ریلیف کی تیاری تو ہو رہی ہے لیکن بیس کروڑ سے زائد عوام کم آمدن کے شکار ہوچکے ہیں۔
صرف تنخواہ دار طبقہ پریشان نہیں بلکہ بڑے چھوٹے تاجر طبقہ بھی انتہائی پریشان ہو چکا ہے بہت سے ہول سیلرز اور ریٹیلرز کا کہنا ہے کہ پہلے کی نسبت نصف ان کی فروخت ہوکر رہ گئی ہے۔ ایسے میں دکان کا کرایہ ، ملازموں کی تنخواہ ، بجلی و پانی وغیرہ کا بل اور دیگر اخراجات پورے کریں یا گھر کے لیے دال روٹی کا بندوبست کریں۔
بہرحال پاکستان کے اس سب سے بڑے سماجی تحفظ پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے سماج دشمن اور فلاحی پروگراموں کی مالیاتی امداد پر نقب ڈالنے والوں سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ پروگرام کے مطابق آٹا ، گھی اور دالیں کم قیمت پر دی جائیں گی۔ اس میں دیگر چند ضروری اشیا کو بھی شامل کیا جائے مجموعی طور پر سات یا آٹھ اشیا پر رعایت دی جائے۔ 2کروڑ خاندان اور 13 کروڑ افراد اس سے مستفید ہوں گے۔
اس کے علاوہ ایک اور پروگرام کے تحت مستحق خاندانوں کو گھر بنانے کے لیے 27 لاکھ روپے بلا سود فراہم کیے جائیں گے۔ اب اگر صرف اس بات کو یقینی بنا لیا جائے کہ رقم صرف اور صرف گھر بنانے کے لیے خرچ کرنے کی اجازت ہوگی کیونکہ کسی بھی ایک مکان کی تعمیر کے لیے اسے اپنے اختتامی مراحل تک لے جانے کے لیے جن میٹیریلز کا استعمال ہوتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق ان کی تعداد 80 یا 90 صنعتوں کا مال بنتا ہے۔
اب ایک ایک مصنوعات یا میٹیریل بنانے کے لیے بیک وقت کئی کئی کمپنیاں صرف ایک شہر تک میں ہی کام کر رہی ہوتی ہیں جب کہ اندرون ملک سے بھی کئی کمپنیاں اپنا مال فروخت کرتی ہیں۔ مثلاً سیمنٹ کی بہت سی فیکٹریاں ہیں اور ان میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اسی طرح سریا بنانے والی بھی بہت سی فیکٹریاں ملک بھر میں رواں دواں ہیں۔ بجلی کا سامان ہو یا سینیٹری یا سرامکس آئٹمز ہوں۔
مختلف تعمیراتی سامان کی تیاری کے لیے ہزاروں فیکٹریاں ہیں ان میں کام کرنے والے لاکھوں ورکرز ہیں پھر ملک بھر میں ہزاروں اقسام کے سامان تجارت سے وابستہ لاکھوں کمیشن ایجنٹ، سپلائرز، فروخت کرنے کے لیے ملک بھر میں لاکھوں دکانیں۔ ان میں کام کرنے والے لاکھوں ملازمین ہیں ان سب کے روزگار میں تیزی آجاتی ہے ، آمدن میں اضافہ ہو جاتا ہے ، اس طرح معاشی سرگرمیوں کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس سے غربت میں کمی آتی ہے۔
اسی طرح کئی اشیا پر سبسڈی دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کم آمدن، جیب میں کم رقم ہونے کے باعث قوت خرید جب کم ہو جاتی ہے تو ایسے میں حکومت ان کو کم قیمت پر چند ضروری اشیا فراہم کرتی ہے ، لیکن اس پروگرام کی افادیت اس وقت ہوگی جب اصل حق دار اس سے مستفید ہوکر رہیں گے۔ تب کہیں جاکر ان کی غربت کا مداوا ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ہیلتھ انشورنس پروگرام کے تحت ہیلتھ کارڈز کا اجرا یکم جنوری سے پنجاب میں شروع کیا جا رہا ہے۔ صرف سندھ اور بلوچستان کے بارے میں ابھی تک کوئی بات واضح نہ ہوسکی۔ صحت عامہ کا مسئلہ پوری پاکستانی عوام کا ہے جس وقت کسی کا کوئی عزیز کسی ناگہانی حادثے کا شکار ہوتا ہے ایسے وقت میں غریب تو کیا امیر افراد کے لیے لاکھوں روپے کا انتظام کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
ہیلتھ کارڈ وغیرہ سے لاکھوں افراد مستفید تو ہوسکتے ہیں لیکن دیگر کروڑوں افراد میں سے بہت سے لوگ جب فوری آپریشن کرانے، زخمیوں کے علاج کرانے جاتے ہیں تو ایسی صورت میں سرکاری اسپتالوں میں بعض اوقات فوری سہولت نہیں ملتی۔ حکومت کو ملک کے تمام شہریوں کے لیے بروقت صحت کی سہولیات کی فراہمی و آسانی اور ڈاکٹروں کی فوری دستیابی، اسپتال تک فوری رسائی اور صحت سے متعلق تمام امور کا جائزہ لے کر اسے حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سماجی تحفظ کے چند ایک مقاصد حاصل ہوں۔
انھوں نے اپنی چھریاں بھی تیز کرلی ہیں، اپنے دانتوں کو بھی دھار لگا لی، جبڑے بھی مضبوط کرلیے ہیں۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر جپھی ڈال کر خوشی سے قہقہے بھی لگا رہے ہیں، اتراتے چلے جا رہے ہیں، ان اکڑی گردن والوں کو بہت سے لوگ خوب جانتے ہیں کیونکہ حکومت کا کوئی فلاحی پروگرام ہو ، غریبوں کے لیے کوئی امدادی پروگرام ہو۔ اس میں سے یہ اپنا حصہ بقدر جثہ اڑانے کا فن خوب جانتے ہیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کس طرح اپنوں کو خوب نوازا۔ خبریں یہ بھی آتی رہیں کہ افسران کی بیویاں تک رقم بٹورتی رہیں۔ تعلیم کے نام پر کیا کچھ نہ ہوا اور اب بھی شاید ہو رہا ہے۔ گھوسٹ اسکول یعنی نہ اسکول نہ طالب علم نہ ہی اساتذہ۔ لیکن رقوم پھر بھی بانٹی جاتی رہی ہیں۔ کہیں اساتذہ ہیں تو اسکول نہیں آتے کہ آدھی تنخواہ لیتے رہتے اور باقی رقم کہاں تک جاتی ہے کسے معلوم۔ یوٹیلیٹی اسٹورکا راشن کہاں کہاں بک جاتا ہے۔
زلزلوں کا امدادی سامان آٹا تو کون کون اپنے گھر لے جاتا ، گندم، چینی کیسے ادھر سے اُدھر ہو جاتی کہ دیکھنے والے بھی کہہ دیتے کہ ہمیں کیا معلوم۔ حکومت نے کہا کہ سماجی تحفظ کا سب سے بڑا پروگرام۔ حکومت پہلے اس پروگرام پر نقب ڈالنے والوں، پروگرام کی افادیت پر چھید کرنے والوں سے تحفظ کا قانون بنائے۔ پھر کہیں جا کر یہ غریب عوام کے لیے سماجی تحفظ کا پروگرام ثابت ہوگا۔ 120 ارب روپے سے راشن پروگرام شروع کرنے پر 13 کروڑ افراد کو خوراک پر 30 فی صد سبسڈی حاصل ہوگی۔
حکومت پنجاب ہیلتھ انشورنس پر 320 ارب روپے خرچ کرے گی، دس سال میں دس ڈیم بنائے جائیں گے۔ حکومت کے مطابق پاکستان میں دنیا میں سب سے کم قیمت پر پٹرول اور ڈیزل فروخت کیا جا رہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے پاس آمدن ہی اتنی نہیں کہ وہ اس کم قیمت پر بھی پٹرول ڈیزل خرید سکیں لہٰذا غریب عوام کے لیے تو مہنگا ہی ہوا۔ 13کروڑ عوام کو ریلیف کی تیاری تو ہو رہی ہے لیکن بیس کروڑ سے زائد عوام کم آمدن کے شکار ہوچکے ہیں۔
صرف تنخواہ دار طبقہ پریشان نہیں بلکہ بڑے چھوٹے تاجر طبقہ بھی انتہائی پریشان ہو چکا ہے بہت سے ہول سیلرز اور ریٹیلرز کا کہنا ہے کہ پہلے کی نسبت نصف ان کی فروخت ہوکر رہ گئی ہے۔ ایسے میں دکان کا کرایہ ، ملازموں کی تنخواہ ، بجلی و پانی وغیرہ کا بل اور دیگر اخراجات پورے کریں یا گھر کے لیے دال روٹی کا بندوبست کریں۔
بہرحال پاکستان کے اس سب سے بڑے سماجی تحفظ پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے سماج دشمن اور فلاحی پروگراموں کی مالیاتی امداد پر نقب ڈالنے والوں سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ پروگرام کے مطابق آٹا ، گھی اور دالیں کم قیمت پر دی جائیں گی۔ اس میں دیگر چند ضروری اشیا کو بھی شامل کیا جائے مجموعی طور پر سات یا آٹھ اشیا پر رعایت دی جائے۔ 2کروڑ خاندان اور 13 کروڑ افراد اس سے مستفید ہوں گے۔
اس کے علاوہ ایک اور پروگرام کے تحت مستحق خاندانوں کو گھر بنانے کے لیے 27 لاکھ روپے بلا سود فراہم کیے جائیں گے۔ اب اگر صرف اس بات کو یقینی بنا لیا جائے کہ رقم صرف اور صرف گھر بنانے کے لیے خرچ کرنے کی اجازت ہوگی کیونکہ کسی بھی ایک مکان کی تعمیر کے لیے اسے اپنے اختتامی مراحل تک لے جانے کے لیے جن میٹیریلز کا استعمال ہوتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق ان کی تعداد 80 یا 90 صنعتوں کا مال بنتا ہے۔
اب ایک ایک مصنوعات یا میٹیریل بنانے کے لیے بیک وقت کئی کئی کمپنیاں صرف ایک شہر تک میں ہی کام کر رہی ہوتی ہیں جب کہ اندرون ملک سے بھی کئی کمپنیاں اپنا مال فروخت کرتی ہیں۔ مثلاً سیمنٹ کی بہت سی فیکٹریاں ہیں اور ان میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اسی طرح سریا بنانے والی بھی بہت سی فیکٹریاں ملک بھر میں رواں دواں ہیں۔ بجلی کا سامان ہو یا سینیٹری یا سرامکس آئٹمز ہوں۔
مختلف تعمیراتی سامان کی تیاری کے لیے ہزاروں فیکٹریاں ہیں ان میں کام کرنے والے لاکھوں ورکرز ہیں پھر ملک بھر میں ہزاروں اقسام کے سامان تجارت سے وابستہ لاکھوں کمیشن ایجنٹ، سپلائرز، فروخت کرنے کے لیے ملک بھر میں لاکھوں دکانیں۔ ان میں کام کرنے والے لاکھوں ملازمین ہیں ان سب کے روزگار میں تیزی آجاتی ہے ، آمدن میں اضافہ ہو جاتا ہے ، اس طرح معاشی سرگرمیوں کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس سے غربت میں کمی آتی ہے۔
اسی طرح کئی اشیا پر سبسڈی دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کم آمدن، جیب میں کم رقم ہونے کے باعث قوت خرید جب کم ہو جاتی ہے تو ایسے میں حکومت ان کو کم قیمت پر چند ضروری اشیا فراہم کرتی ہے ، لیکن اس پروگرام کی افادیت اس وقت ہوگی جب اصل حق دار اس سے مستفید ہوکر رہیں گے۔ تب کہیں جاکر ان کی غربت کا مداوا ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ہیلتھ انشورنس پروگرام کے تحت ہیلتھ کارڈز کا اجرا یکم جنوری سے پنجاب میں شروع کیا جا رہا ہے۔ صرف سندھ اور بلوچستان کے بارے میں ابھی تک کوئی بات واضح نہ ہوسکی۔ صحت عامہ کا مسئلہ پوری پاکستانی عوام کا ہے جس وقت کسی کا کوئی عزیز کسی ناگہانی حادثے کا شکار ہوتا ہے ایسے وقت میں غریب تو کیا امیر افراد کے لیے لاکھوں روپے کا انتظام کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
ہیلتھ کارڈ وغیرہ سے لاکھوں افراد مستفید تو ہوسکتے ہیں لیکن دیگر کروڑوں افراد میں سے بہت سے لوگ جب فوری آپریشن کرانے، زخمیوں کے علاج کرانے جاتے ہیں تو ایسی صورت میں سرکاری اسپتالوں میں بعض اوقات فوری سہولت نہیں ملتی۔ حکومت کو ملک کے تمام شہریوں کے لیے بروقت صحت کی سہولیات کی فراہمی و آسانی اور ڈاکٹروں کی فوری دستیابی، اسپتال تک فوری رسائی اور صحت سے متعلق تمام امور کا جائزہ لے کر اسے حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سماجی تحفظ کے چند ایک مقاصد حاصل ہوں۔