تبدیلی کیسے آئے گی
دنیا میں ہزاروں دانشور، مفکر اور صاحب قلم موجود ہیں ان حقائق کو سمجھتے ہیں جو اس پورے سسٹم کے پیچھے کارفرما ہیں۔
غربت کا اصل سبب سرمایہ کا ارتکاز ہے، سرمایہ جب چند ہاتھوں میں جمع ہو جاتا ہے تو اس کا استعمال محدود ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے اور دنیا کی آبادی 8 ارب ہے اتنی آبادی میں 80 فیصد سے زیادہ لوگ نیم فاقہ کش لوگ ہیں جنھیں دو وقت کی روٹی بھی نہیں ملتی۔
سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ ہزاروں سال سے چل رہا ہے اور اسے روکنے کی اب تک کوئی منظم اور بامعنی کوشش نہیں کی گئی اس کا نتیجہ ساری دنیا میں نیم فاقہ کشی کی شکل میں برآمد ہو رہا ہے۔ اب تک اس حوالے سے کوئی بامعنی منظم کوشش نہیں کی گئی جو کامیابی سے ہم کنار ہوئی ہو، کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ پوری دنیا پر کنٹرول کر رہا ہے؟
یہ کس قدر افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ ہزاروں سال سے ایک مخصوص چھوٹا سا طبقہ سیاست اور اقتدار پر قابض ہے اور دنیا کے سارے کاروبار اپنی مرضی سے چلاتا ہے اس طبقے کو سیاست سے نکال باہر پھینکے بغیر کسی بڑی تبدیلی کا سوچنا احمقانہ فعل ہے۔ دنیا میں اربوں عوام رہتے ہیں ان میں دو فیصد لوگ ایسے بھی نہیں ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے اسرار و رموز کو سمجھ سکیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بھاری اکثریت جہل کا شکار ہے انھیں اس بات کا پتا ہی نہیں کہ وہ دنیا کے دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہیں اور ان کے بھی وہی حقوق و فرائض ہیں جو دوسروں کے ہیں۔
اس کمزوری کی وجہ مراعات یافتہ طبقہ دنیا کی معیشت پر قابض ہے اور اپنی مرضی سے سب پر حکمرانی کر رہا ہے۔دنیا میں مزدوروں کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ ہے اور کسان دیہی زندگی کا 70 فیصد ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر غریب طبقات کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ اکثریت دو فیصد اقلیت کے تابع کیوں نہیں ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ نے پورے سسٹم پر قبضہ کر رکھا ہے جب تک اس قبضے سے عوام کو نجات نہ دلائی جائے اس وقت تک حالات میں تبدیلی کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام کی 80 فیصد سے زیادہ اکثریت اس بات سے ہی واقف نہیں کہ وہ بھی اوروں کی طرح زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں ، جس دن عوام کو اپنی حقیقت کا اور اپنی طاقت کا پتا چل جائے گا تو وہ اشرافیہ کے خلاف ڈنڈا اٹھا لیں گے لیکن افسوس یہ ہے کہ جو باخبر طبقات اس سلسلے میں کردار ادا کرسکتے ہیں وہ ہاتھ پر دھرے بیٹے ہیں دنیا صرف دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کے لیے نہیں بنائی گئی بلکہ دنیا آٹھ ارب انسانوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اس قدر بے دست و پا کیوں ہیں؟
کیا اربوں عوام دنیا کے دیگر عوام سے مختلف ہیں، کیا عوام اشرافیہ کے غلام نہیں ہیں، جب تک عوام اشرافیہ کی غلامی سے نجات حاصل نہیں کریں گے ان کا مقدر نہیں بدل سکتا۔ اس تبدیلی کے لیے سب سے پہلے طبقاتی تضادات کا ادراک ضروری ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دنیا کا باشعور طبقہ اپنا کردار ادا نہیں کرسکتا۔ مشکل یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے سسٹم میں ہر چیز بکاؤ ہے اور جب تک عقل و دانش بکاؤ رہے گی عوام میں شعور کا پیدا ہونا مشکل ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ دنیا میں ہزاروں دانشور، مفکر اور صاحب قلم موجود ہیں ان حقائق کو سمجھتے ہیں جو اس پورے سسٹم کے پیچھے کارفرما ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ طبقہ بکاؤ ہے اور وہ ذمے داریاں پوری نہیں کر پاتا جو اس کے فرائض منصبی میں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ قلم کار ایک ایسا طبقہ ہے جو معاشرے میں بنیادی تبدیلیاں لانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ طبقہ کرپشن کے میدان میں سب سے آگے ہے اس کی وجہ میڈیا وہ کردار ادا نہیں کر پاتا جو اس کی ذمے داری ہے کہ کس قدرافسوس کی بات ہے کہ وہ صاحب علم جو دنیا میں تبدیلیاں لاتے رہے ہیں وہ اس سسٹم کے غلام بنے ہوئے ہیں مزدوروں اور کسانوں میں ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جو انقلابی کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن اشرافیہ نے انھیں حصول دولت کے پیچھے لگا دیا ہے اور دولت ایک ایسا نشہ ہے جو حقوق و فرائض کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔
اس حوالے سے ہر روز ہزاروں آرٹیکل لکھے جاتے ہیں لیکن یہ سب عوام کے سروں پر سے گزر جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ معاشرہ جمود کا شکار ہے اس گندے پانی میں بہت بڑے پتھر مارنے کی ضرورت ہے جو سارے پانی کو اتھل پتھل کرکے رکھ دے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو غریب طبقات سے تعلق رکھنے کے باوجود باشعور ہیں وہ کب تک یہ تماشا دیکھتے رہیں گے جب تک مزدور کسان اور غریب طبقات شعور سے لیس ہو کر باہر نہیں نکلیں گے کوئی بڑی تبدیلی کا تصور ممکن نہیں۔ کیا یہ طبقات اپنی تاریخی ذمے داریاں سمجھ سکیں گے یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر غریب عوام کے بہتر مستقبل کا دارو مدار ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ ہزاروں سال سے چل رہا ہے اور اسے روکنے کی اب تک کوئی منظم اور بامعنی کوشش نہیں کی گئی اس کا نتیجہ ساری دنیا میں نیم فاقہ کشی کی شکل میں برآمد ہو رہا ہے۔ اب تک اس حوالے سے کوئی بامعنی منظم کوشش نہیں کی گئی جو کامیابی سے ہم کنار ہوئی ہو، کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ پوری دنیا پر کنٹرول کر رہا ہے؟
یہ کس قدر افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ ہزاروں سال سے ایک مخصوص چھوٹا سا طبقہ سیاست اور اقتدار پر قابض ہے اور دنیا کے سارے کاروبار اپنی مرضی سے چلاتا ہے اس طبقے کو سیاست سے نکال باہر پھینکے بغیر کسی بڑی تبدیلی کا سوچنا احمقانہ فعل ہے۔ دنیا میں اربوں عوام رہتے ہیں ان میں دو فیصد لوگ ایسے بھی نہیں ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے اسرار و رموز کو سمجھ سکیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بھاری اکثریت جہل کا شکار ہے انھیں اس بات کا پتا ہی نہیں کہ وہ دنیا کے دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہیں اور ان کے بھی وہی حقوق و فرائض ہیں جو دوسروں کے ہیں۔
اس کمزوری کی وجہ مراعات یافتہ طبقہ دنیا کی معیشت پر قابض ہے اور اپنی مرضی سے سب پر حکمرانی کر رہا ہے۔دنیا میں مزدوروں کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ ہے اور کسان دیہی زندگی کا 70 فیصد ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر غریب طبقات کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ اکثریت دو فیصد اقلیت کے تابع کیوں نہیں ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ نے پورے سسٹم پر قبضہ کر رکھا ہے جب تک اس قبضے سے عوام کو نجات نہ دلائی جائے اس وقت تک حالات میں تبدیلی کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام کی 80 فیصد سے زیادہ اکثریت اس بات سے ہی واقف نہیں کہ وہ بھی اوروں کی طرح زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں ، جس دن عوام کو اپنی حقیقت کا اور اپنی طاقت کا پتا چل جائے گا تو وہ اشرافیہ کے خلاف ڈنڈا اٹھا لیں گے لیکن افسوس یہ ہے کہ جو باخبر طبقات اس سلسلے میں کردار ادا کرسکتے ہیں وہ ہاتھ پر دھرے بیٹے ہیں دنیا صرف دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کے لیے نہیں بنائی گئی بلکہ دنیا آٹھ ارب انسانوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اس قدر بے دست و پا کیوں ہیں؟
کیا اربوں عوام دنیا کے دیگر عوام سے مختلف ہیں، کیا عوام اشرافیہ کے غلام نہیں ہیں، جب تک عوام اشرافیہ کی غلامی سے نجات حاصل نہیں کریں گے ان کا مقدر نہیں بدل سکتا۔ اس تبدیلی کے لیے سب سے پہلے طبقاتی تضادات کا ادراک ضروری ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دنیا کا باشعور طبقہ اپنا کردار ادا نہیں کرسکتا۔ مشکل یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے سسٹم میں ہر چیز بکاؤ ہے اور جب تک عقل و دانش بکاؤ رہے گی عوام میں شعور کا پیدا ہونا مشکل ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ دنیا میں ہزاروں دانشور، مفکر اور صاحب قلم موجود ہیں ان حقائق کو سمجھتے ہیں جو اس پورے سسٹم کے پیچھے کارفرما ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ طبقہ بکاؤ ہے اور وہ ذمے داریاں پوری نہیں کر پاتا جو اس کے فرائض منصبی میں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ قلم کار ایک ایسا طبقہ ہے جو معاشرے میں بنیادی تبدیلیاں لانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ طبقہ کرپشن کے میدان میں سب سے آگے ہے اس کی وجہ میڈیا وہ کردار ادا نہیں کر پاتا جو اس کی ذمے داری ہے کہ کس قدرافسوس کی بات ہے کہ وہ صاحب علم جو دنیا میں تبدیلیاں لاتے رہے ہیں وہ اس سسٹم کے غلام بنے ہوئے ہیں مزدوروں اور کسانوں میں ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جو انقلابی کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن اشرافیہ نے انھیں حصول دولت کے پیچھے لگا دیا ہے اور دولت ایک ایسا نشہ ہے جو حقوق و فرائض کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔
اس حوالے سے ہر روز ہزاروں آرٹیکل لکھے جاتے ہیں لیکن یہ سب عوام کے سروں پر سے گزر جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ معاشرہ جمود کا شکار ہے اس گندے پانی میں بہت بڑے پتھر مارنے کی ضرورت ہے جو سارے پانی کو اتھل پتھل کرکے رکھ دے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو غریب طبقات سے تعلق رکھنے کے باوجود باشعور ہیں وہ کب تک یہ تماشا دیکھتے رہیں گے جب تک مزدور کسان اور غریب طبقات شعور سے لیس ہو کر باہر نہیں نکلیں گے کوئی بڑی تبدیلی کا تصور ممکن نہیں۔ کیا یہ طبقات اپنی تاریخی ذمے داریاں سمجھ سکیں گے یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر غریب عوام کے بہتر مستقبل کا دارو مدار ہے۔