انتہا پسندی
معاشرہ میں رواداری اور برداشت کی روایات کی ترویج کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
پرنا ناتھا کمارا کی ماں کو بیٹے کی ٹوٹی انگلیاں ملیں نہ سلامت چہرہ۔ مشال خان کی ماں کو بھی اپنے بیٹے کی ٹوٹی انگلیاں ملیں۔ سیالکوٹ کی فیکٹری میں سری لنکا کے منیجرکے پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں قتل پر وزیر اعظم اور ان کے وزراء نے شرمندگی کا اظہار کیا۔
سری لنکا کے شہری کے قتل پر ان سرمایہ داروں کو بھی پیغام مل گیا ، جو انتہاپسند گروہوں کی مالیاتی معاونت کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں اور مشکل وقت میں ان گروہوں کو بچانے کے لیے متحرک ہوجاتے ہیں۔ الزام لگا کر قتل کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ ولی خان یونیورسٹی مردان میں ابلاغ عامہ کے طالب علم مشال خان کو ایک جنونی گروہ نے یونیورسٹی کے احاطہ میں اسی طرح قتل کیا تھا۔ دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں مشال خان کے قتل میں گرفتار ہونے والے ملزمان کو بچانے کے لیے سرگرم ہوگئیں۔
مشال خان کے والد نے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے طویل جدوجہد کی تھی مگر پولیس کے عدم تعاون کی بناء پر کئی ملزمان بری ہوگئے تھے۔ مشال خان کی بہن نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ مذہبی انتہا پسند عناصر کے دباؤ پر ان کا خاندان سماجی بائیکاٹ جیسی صورتحال سے گزر رہا ہے اور مردان شہر میں کوئی فرد ان کے تحفظ کے بارے میں بات چیت کرنے کو تیار نہیں ہے۔
سرائیکی وسیب میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے زندگی وقف کرنے والے راشد رحمن ایڈووکیٹ بھی زندگی سے محروم کردیے گئے تھے۔ ان تمام مقدمات میں خاص یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ان افراد کو جن لوگوں نے قتل کیا وہ قانون کی گرفت سے بچ گئے اور انتہا پسند تنظیموں نے ان قاتلوں کو تحفظ دلوانے کے لیے رائے عامہ کو گمراہ کیا۔ پھر سیاسی مقاصد کے لیے انتہا پسند عناصرکو استعمال کرنے کا ایک نیا کھیل شروع ہوا۔ اس کھیل کے دوران ان عناصرکو بھارتی ایجنٹ وغیرہ کے الزامات سے نوازا گیا۔
وفاقی وزراء نے دعوے کیے کہ ریاست کمزور نہیں ہے، پھر 12 سپاہیوں کی قربانی دے کر ان کوگلے لگایا گیا تھا۔ اب پاکستان کے صنعتی شہر میں سری لنکا کے شہری کو اس بناء پر زندہ جلایا گیا کہ وہ فیکٹری میں نظم و ضبط قائم کرنا، فیکٹری کو حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق ترتیب دینے اورکارکنوں کو اپنے فرائض دیانت داری سے ادا کرنے کی تلقین کرتا تھا۔ پولیس نے حسب قاعدہ بے حسی کا ثبوت دیا۔ ہمیشہ کی طرح پولیس کی نفری جائے واردات پر دیر سے پہنچی۔
ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے والے شخص کی جان بچانے کے لیے کوئی آپریشن نہیں ہوا۔ ہجوم کو زخمی کی لاش کو نذر آتش کرنے کا پورا موقع ملا۔ اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں کے مطابق پولیس اہلکاروں نے 900 کے قریب افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا۔ فوجداری قانون کے اساتذہ کہتے ہیں کہ ایف آئی آر میں جتنے زیادہ افراد کے نام ہوتے ہیں ، اس کا اتنا ہی فائدہ قتل کے بنیادی ملزمان کو پہنچتا ہے۔ یوں جب یہ مقدمہ عدالت میں جائے گا تو صفائی کے وکلاء کے لیے اپنے موکلوں کو بچانے کا موقع ملے گا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ انتہاپسندی بہت سے فرقوں میں سرائیت کرگئی ہے۔ سیالکوٹ کی ترقی کا دار و مدار وہاں کے کارخانوں میں تیار ہونے والی مصنوعات کی برآمد پر ہے۔ مصنوعات کی برآمد کا فائدہ صرف سیالکوٹ کے صنعت کاروں کو ہی نہیں ہوتا ، بلکہ ان کارخانوں سے ملحقہ ذیلی صنعتوں کے مالکان اور کارکنوں کو بھی پہنچتا ہے۔ ان مصنوعات سے صرف قیمتی زرمبادلہ ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ برآمدات کے شعبہ میں پاکستان کا امیج بھی بہتر ہوتا ہے۔ اس واردات نے دنیا بھر میں پاکستان کے امیج کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
یورپی یونین کی پارلیمنٹ پاکستان میں مذہبی تشدد، بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، آزادئ اظہار، آزادئ صحافت اور لاپتہ افراد کے مسائل پر تشویش کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ یورپی یونین ہر سال حکومت کی توجہ انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی طرف مبذول کراتی ہے۔ وزارت خارجہ کو بار بار یہ یقین دہانی کرانی پڑتی ہے کہ حکومت انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کچھ کررہی ہے۔ یورپی یونین نے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس دیا ہوا ہے، اس تناظر میں پاکستانی مصنوعات تو اب امریکا اورکینیڈا سستے داموں دستیاب ہوتی ہیں۔
اس صورتحال میں وہ یورپی ممالک جو پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی جنونیت کی ذمے دار حکومت پاکستان کو قرار دیتے ہیں انھیں جی ایس پی پلس کے اسٹیٹس کے بارے میں سوالات پیدا کرنے کا موقع حاصل ہوجائے گا۔ یوں ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں اور آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے ملک کی معیشت ایک نئے بحران کا شکار ہوجائے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت کی بصیرت کا ایک نیا امتحان شروع ہوا ہے۔ اس حکومت کو اپنی متضاد پالیسیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا، بنیادی پالیسی میں تبدیلی لانا ہوگی۔
حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ مذہبی انتہاپسندی کا راستہ اختیارکرنے والے گروہوں کو منتشر کرنے کے لیے حقیقی اقدامات کرے اور قانون کو ہاتھ میں لینے والے کسی گروہ کے ساتھ رعایت نہ کرے۔ آرمی پبلک اسکول پر ہونے والی دہشت گردی کے بعد متفقہ طور پر تیار ہونے والے نیشنل ایکشن پلان کے ڈرافٹ کو لاگو کرنے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا خصوصی اجلاس بلاکر اس ایکشن پلان کے تحت مدارس کو جدید خطوط پر استوارکرنے اور اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں سے مذہبی انتہاپسندانہ مواد کے اخراج کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
تحریک انصاف کی وفاقی اور صوبوں کی حکومتوں نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے گزشتہ تین برسوں کے دوران جو مذہبی مواد جدید تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کرایا ہے، واپس لیا جائے۔ سرکاری میڈیا سے نشر ہونے والے مواد میں تبدیلیاں کی جائیں اور معاشرہ میں رواداری اور برداشت کی روایات کی ترویج کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ میڈیا کو پابند کیا جائے کہ وہ ایسا مواد ضرور نشرکرے جس میں انسانیت کی بھلائی بلا تفریق مذہب، نسل اور ذات ہر فرد سے برابری کے سلوک کی تلقین کی جائے اور تمام مذاہب کی اچھائیوں اور احترام انسانیت پر خصوصی زور دیا جائے۔
اس سانحہ کے بعد ایک سانحہ اور رونما ہوا، ملک کی سب سے بڑی لبرل جماعت جس کی قائد دہشت گردی میں جان دے چکی ہیں کی مرکزی قیادت نے اس دہشت گردی کی کھل کر مذمت نہیں کی۔ اس جماعت کے قائد کے مشیر ضرور اپنے پرانے مؤقف پر قائم رہے۔ اس ہفتہ بین الاقوامی رسالہ نیوز ویک کے سرورق پر عراق نہیں پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک "The Most Dangerous Nation in the World isn't Iraq, It is Pakistan" کا عنوان دیا گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بین الاقوامی ادارے نیوز ویک کے مؤقف کی تائید کرنے لگیں۔
سری لنکا کے شہری کے قتل پر ان سرمایہ داروں کو بھی پیغام مل گیا ، جو انتہاپسند گروہوں کی مالیاتی معاونت کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں اور مشکل وقت میں ان گروہوں کو بچانے کے لیے متحرک ہوجاتے ہیں۔ الزام لگا کر قتل کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ ولی خان یونیورسٹی مردان میں ابلاغ عامہ کے طالب علم مشال خان کو ایک جنونی گروہ نے یونیورسٹی کے احاطہ میں اسی طرح قتل کیا تھا۔ دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں مشال خان کے قتل میں گرفتار ہونے والے ملزمان کو بچانے کے لیے سرگرم ہوگئیں۔
مشال خان کے والد نے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے طویل جدوجہد کی تھی مگر پولیس کے عدم تعاون کی بناء پر کئی ملزمان بری ہوگئے تھے۔ مشال خان کی بہن نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ مذہبی انتہا پسند عناصر کے دباؤ پر ان کا خاندان سماجی بائیکاٹ جیسی صورتحال سے گزر رہا ہے اور مردان شہر میں کوئی فرد ان کے تحفظ کے بارے میں بات چیت کرنے کو تیار نہیں ہے۔
سرائیکی وسیب میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے زندگی وقف کرنے والے راشد رحمن ایڈووکیٹ بھی زندگی سے محروم کردیے گئے تھے۔ ان تمام مقدمات میں خاص یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ان افراد کو جن لوگوں نے قتل کیا وہ قانون کی گرفت سے بچ گئے اور انتہا پسند تنظیموں نے ان قاتلوں کو تحفظ دلوانے کے لیے رائے عامہ کو گمراہ کیا۔ پھر سیاسی مقاصد کے لیے انتہا پسند عناصرکو استعمال کرنے کا ایک نیا کھیل شروع ہوا۔ اس کھیل کے دوران ان عناصرکو بھارتی ایجنٹ وغیرہ کے الزامات سے نوازا گیا۔
وفاقی وزراء نے دعوے کیے کہ ریاست کمزور نہیں ہے، پھر 12 سپاہیوں کی قربانی دے کر ان کوگلے لگایا گیا تھا۔ اب پاکستان کے صنعتی شہر میں سری لنکا کے شہری کو اس بناء پر زندہ جلایا گیا کہ وہ فیکٹری میں نظم و ضبط قائم کرنا، فیکٹری کو حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق ترتیب دینے اورکارکنوں کو اپنے فرائض دیانت داری سے ادا کرنے کی تلقین کرتا تھا۔ پولیس نے حسب قاعدہ بے حسی کا ثبوت دیا۔ ہمیشہ کی طرح پولیس کی نفری جائے واردات پر دیر سے پہنچی۔
ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے والے شخص کی جان بچانے کے لیے کوئی آپریشن نہیں ہوا۔ ہجوم کو زخمی کی لاش کو نذر آتش کرنے کا پورا موقع ملا۔ اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں کے مطابق پولیس اہلکاروں نے 900 کے قریب افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا۔ فوجداری قانون کے اساتذہ کہتے ہیں کہ ایف آئی آر میں جتنے زیادہ افراد کے نام ہوتے ہیں ، اس کا اتنا ہی فائدہ قتل کے بنیادی ملزمان کو پہنچتا ہے۔ یوں جب یہ مقدمہ عدالت میں جائے گا تو صفائی کے وکلاء کے لیے اپنے موکلوں کو بچانے کا موقع ملے گا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ انتہاپسندی بہت سے فرقوں میں سرائیت کرگئی ہے۔ سیالکوٹ کی ترقی کا دار و مدار وہاں کے کارخانوں میں تیار ہونے والی مصنوعات کی برآمد پر ہے۔ مصنوعات کی برآمد کا فائدہ صرف سیالکوٹ کے صنعت کاروں کو ہی نہیں ہوتا ، بلکہ ان کارخانوں سے ملحقہ ذیلی صنعتوں کے مالکان اور کارکنوں کو بھی پہنچتا ہے۔ ان مصنوعات سے صرف قیمتی زرمبادلہ ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ برآمدات کے شعبہ میں پاکستان کا امیج بھی بہتر ہوتا ہے۔ اس واردات نے دنیا بھر میں پاکستان کے امیج کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
یورپی یونین کی پارلیمنٹ پاکستان میں مذہبی تشدد، بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، آزادئ اظہار، آزادئ صحافت اور لاپتہ افراد کے مسائل پر تشویش کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ یورپی یونین ہر سال حکومت کی توجہ انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی طرف مبذول کراتی ہے۔ وزارت خارجہ کو بار بار یہ یقین دہانی کرانی پڑتی ہے کہ حکومت انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کچھ کررہی ہے۔ یورپی یونین نے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس دیا ہوا ہے، اس تناظر میں پاکستانی مصنوعات تو اب امریکا اورکینیڈا سستے داموں دستیاب ہوتی ہیں۔
اس صورتحال میں وہ یورپی ممالک جو پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی جنونیت کی ذمے دار حکومت پاکستان کو قرار دیتے ہیں انھیں جی ایس پی پلس کے اسٹیٹس کے بارے میں سوالات پیدا کرنے کا موقع حاصل ہوجائے گا۔ یوں ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں اور آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے ملک کی معیشت ایک نئے بحران کا شکار ہوجائے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت کی بصیرت کا ایک نیا امتحان شروع ہوا ہے۔ اس حکومت کو اپنی متضاد پالیسیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا، بنیادی پالیسی میں تبدیلی لانا ہوگی۔
حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ مذہبی انتہاپسندی کا راستہ اختیارکرنے والے گروہوں کو منتشر کرنے کے لیے حقیقی اقدامات کرے اور قانون کو ہاتھ میں لینے والے کسی گروہ کے ساتھ رعایت نہ کرے۔ آرمی پبلک اسکول پر ہونے والی دہشت گردی کے بعد متفقہ طور پر تیار ہونے والے نیشنل ایکشن پلان کے ڈرافٹ کو لاگو کرنے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا خصوصی اجلاس بلاکر اس ایکشن پلان کے تحت مدارس کو جدید خطوط پر استوارکرنے اور اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں سے مذہبی انتہاپسندانہ مواد کے اخراج کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
تحریک انصاف کی وفاقی اور صوبوں کی حکومتوں نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے گزشتہ تین برسوں کے دوران جو مذہبی مواد جدید تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کرایا ہے، واپس لیا جائے۔ سرکاری میڈیا سے نشر ہونے والے مواد میں تبدیلیاں کی جائیں اور معاشرہ میں رواداری اور برداشت کی روایات کی ترویج کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ میڈیا کو پابند کیا جائے کہ وہ ایسا مواد ضرور نشرکرے جس میں انسانیت کی بھلائی بلا تفریق مذہب، نسل اور ذات ہر فرد سے برابری کے سلوک کی تلقین کی جائے اور تمام مذاہب کی اچھائیوں اور احترام انسانیت پر خصوصی زور دیا جائے۔
اس سانحہ کے بعد ایک سانحہ اور رونما ہوا، ملک کی سب سے بڑی لبرل جماعت جس کی قائد دہشت گردی میں جان دے چکی ہیں کی مرکزی قیادت نے اس دہشت گردی کی کھل کر مذمت نہیں کی۔ اس جماعت کے قائد کے مشیر ضرور اپنے پرانے مؤقف پر قائم رہے۔ اس ہفتہ بین الاقوامی رسالہ نیوز ویک کے سرورق پر عراق نہیں پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک "The Most Dangerous Nation in the World isn't Iraq, It is Pakistan" کا عنوان دیا گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بین الاقوامی ادارے نیوز ویک کے مؤقف کی تائید کرنے لگیں۔