پھر وہی حالات ہیں

ریاست اپنے فرائض سے غفلت برت رہی ہے۔ اس کی تخلیق ہی صاحب جائیداد طبقات کی رکھوالی کے لیے ہوئی ہے۔

zb0322-2284142@gmail.com

ہزاروں برس قبل ہمارے آباو اجداد خانہ بدوشی کی ہی زندگی گزار تے تھے۔ عورتوں کی تذلیل کے واقعات طبقاتی نظام میں بورژوا اور فاتحین کرتے آ رہے ہیں۔ خواتین کو ہمیشہ جنس کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ جس طرح بازار میں دال چاول جنس کے طور پر خرید و فروخت ہوتے ہیں، اسی طرح خواتین کو سمجھا جاتا ہے۔

کامریڈ پیترکروپوتکن نے درست کہا کہ اسلحہ فاتحین پیدا کرتا ہے اور فاتحین قبضہ کرتے ہیں، ریپ کرتے ہیں اور قتل کرتے ہیں۔ پہلی صدی میں ناورے کے بحری قذاق خانہ بدوشوں نے ''بریٹون'' (موجودہ برطانیہ) پر حملہ کیا، لاکھوں خواتین اور مردوں کا قتل عام کیا۔ عظیم خاتون رہنما ''بودیکا'' جنھوں نے دو لاکھ خواتین کی فوج بنا کر حملہ آوروں کا مقابلہ کیا لیکن انھیں شکست ہوئی اس لیے کہ ناروے کے حملہ آوروں کے پاس اس وقت کے لحاظ سے جدید اسلحہ تھا۔ بریٹون کی خواتین اور ان کی عظیم رہنما کمانڈر بودیکا اور ان کی جواں سال دو بیٹیوں کو برہنہ ہوکر برسوں رہنے پر مجبور کیا گیا۔

ازمنہ وسطیٰ اور قرون وسطیٰ میں تو سبھی بادشاہوں نے مفتوحین کی خواتین کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا۔ جدید دور میں انتہا پسند مذہبی گروہوں نے نائیجیریا، صومالیہ، سوڈان، مالی، کینیا، شام اور عراق میں خواتین کو اغوا کرکے ان کا ریپ کیا۔ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پر ہر طرح کی پابندیاں ہیں، آدھی آبادی کو مفلوج کرکے رکھا گیا ہے۔ مزدوری سے لے کر کھیل تک اور تعلیم سے لے کر صحت تک کسی شعبے میں بھی خواتین کو سرگرمی کی اجازت نہیں ہے، یہ بھی ایک قسم کی آمریت ہے۔ اسی لیے افغانستان اور میانمار کو تو اقوام متحدہ میں رکنیت سے خارج کیا گیا ہے۔

نواب پور، ملتان ہو یا یوسف چوک فیصل آباد، ان جگہوں پر جن خواتین کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ محنت کش خواتین تھیں۔ کام کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے لیکن ان کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے۔ خواتین کی بے حرمتی، ریپ، قتل، اغوا اور تشدد ہمارے ملک میں روز کا معمول بن چکا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو کہ دو چار خواتین کے ساتھ اس قسم کے واقعات نہ ہوتے ہوں۔ اب یہ جو چار خانہ بدوش خواتین کے ساتھ جو کچھ ہوا کیا حکمرانوں کے سر شرم سے نہ جھکے ہوں گے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے نوٹس تو لیا اور ملزمان گرفتار بھی ہوئے۔ مگر کسی نے ان کی جھونپڑیوں میں جا کر یکجہتی کا اظہار نہیں کیا۔ وزیر اعظم یا صدر صاحب نے بھی مذمت کی اور نہ کوئی بیان دیا یا پریس کانفرنس کی۔ اگر یہ خانہ بدوش خواتین پاکستان کی شہری ہیں اور انھیں بلا کسی ثبوت کے برہنہ کرکے سرے بازار پھرایا گیا تو کیا یہ قانون اور شہریت کے منافی نہیں ہے؟ ملزمان کو گرفتار تو کرلیا گیا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا سزا ہوتی ہے؟


قانون پر حقیقی معنوں پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث شہری قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے لگے ہیں جو قطعی طور پر غلط رویہ ہے ' اس عمل سے معاشرے میں افراتفری پھیلتی اور سیاسی عدم استحکام جنم لیتا ہے۔ جب شہریوں کا قانون پر سے اعتماد اٹھ جائے تو ایسی ہی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ اگر حکومت یہ چاہتی ہے کہ آیندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں تو اسے قانون کی بالادستی کو نافذ کرنا ہو گا۔

انصاف فراہم کرنے والے اداروں کو بھی اس پر غور کرنا ہو گا کہ معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ کیوں فروغ پا رہا ہے۔ اگر وہ ظالم کو فوری طور پر سزا اور مظلوم کو انصاف فراہم کریں تو امید ہے کہ لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد مضبوط ہو گا اور وہ کسی بھی موقع پر قانون ہاتھ میں لینے کی جرات نہیں کریں گے۔ نور مقدم کا قاتل ظاہر جعفر کو کبھی نفسیاتی مریض اور کبھی کچھ اور ہونے کی پیوند کاری کی جا رہی ہے۔ ابھی تک نور مقدم کے قاتلوں کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔ مگر محنت کشوں کو فوراً سزا سنائی جاتی ہے۔

1978 میں جنرل ضیا الحق کی بدترین فوجی آمریت میں جب یکم مئی کے جلوس پر پابندی لگائی گئی تو مزدور، طلبا ،کسان ،عوامی رابطہ کمیٹی کے تحت مزدور رہنما جاوید شکور مرحوم کی قیادت میں میراناکہ، لیاری، کراچی میں جب جلوس نکلا تو 11 مزدور کارکنان کو گرفتار کرکے اسی روز کراچی سینٹرل جیل میں 10/10 کوڑے اور ایک ایک سال کی سزا فوجی عدالت نے سنا دی تھی۔ مگر جب محنت کشوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو مل مالکان اور بورژواشی کو کوئی سزا نہیں دی جاتی۔

ابھی حال ہی میں سندھ حکومت نے مزدوروں کی کم ازکم تنخواہ 25,000 روپے کرنے کا اعلان کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے مل مالکان کی درخواست کی حمایت کرتے ہوئے مزدوروں کی تنخواہ 25,000 روپے دینے کی سندھ حکومت کے فیصلے کو رد کردیا اور 20,000 روپے مقرر کردیا۔ مزدوروں کی تو کم ازکم تنخواہ مقرر ہوتی ہے لیکن وزرا ، نوکر شاہی اور اعلیٰ ریاستی اداروں کے سربراہان کی زیادہ میں زیادہ تنخواہ نہیں مقرر ہوتی، اس لیے کہ وہ بورژوا (صاحب جائیداد) طبقات کے لوگ ہیں۔

اب بھلا بے گھر، بے زمین اور بے یار و مددگار خانہ بدوش خواتین کو کون سنتا ہے۔ اگر ان 5 ملزمان کو سخت سزائیں ہوجائیں تو اس سے اور اچھی بات کیا ہوسکتی ہے۔ پاکستان کی پیداواری قوتیں، مزدور کسان، کھیت مزدور، موچی، چمار، بڑھئی، دھوبی، لوہار، نائی اور خانہ بدوش ہی ملک کی تمام ترقی اور معیشت کا پہیہ چلاتے ہیں اور انھی کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان خانہ بدوشوں سمیت ان کے خاندان اور رشتہ داروں سے وزیر اعظم ملاقات کرتے اور اظہار یکجہتی کرتے اور ملزمان کی مزمت کرتے۔ مگر ایسا کیوں ہوا، اس لیے کہ ریاست اپنے فرائض سے غفلت برت رہی ہے۔ اس کی تخلیق ہی صاحب جائیداد طبقات کی رکھوالی کے لیے ہوئی ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب ایک غیر طبقاتی سماج قائم ہوگا۔
Load Next Story