ڈبل شاباشی کے حقدار
یہ بات تو طے ہے کہ ہمارے ملک کے جھوٹ سننے والے تمام کے تمام لوگ مطمئن اور مسرور دکھائی دیتے ہیں۔
ہم دنیا کی سب سے زیادہ جھوٹ سننے والی قوم بن گئے ہیں، ایک سے ایک بڑا لٹیرا ، چور بددیانت اپنے آپ کو شریف، اچھا اور دیانت دار ثابت کرنے کے لیے دن رات ہم سے جھوٹ پہ جھوٹ بولے چلے جا رہا ہے اور ہم ہیں کہ ان کے جھوٹ پہ جھوٹ سنے ہی جا رہے ہیں نہ جھوٹ بولنے والوں کو شرم آرہی ہے اور نہ ہی جھوٹ سننے والوں کو شرم آرہی ہے یہ عمل سالوں سے جوں کا توں اسی طرح سے جاری و ساری ہے اب پاکستان دو حصوں میں بٹ کے رہ گیا ہے، ایک جھوٹ بولنے والے اور دوسرے جھوٹ سننے والے۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ جھوٹ بولنے والوں کو شاباشی اور داد دینے کو بہت دل چاہتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی ہمت، جرأت اور دیدہ دلیر ی کو بھی بار بار خراج تحسین پیش کرنے کو دل چاہتا ہے کیونکہ وہ ڈھٹائی ، بے شرمی اور بے حیائی کے ساتھ مسلسل اور لگا تار جھوٹ پہ جھوٹ بولے جا رہے ہیں اور وہ بھی مسلسل اور تسلسل کے ساتھ اور اس یقین کے ساتھ کہ ان کے جھوٹ اثر دکھا رہے ہیں ، رنگ لا رہے ہیں اور لوگ ان کے جھوٹ کو کھلا سچ تسلیم کرنے لگے ہیں۔ کیا یہ دلچسپ بات نہیں ہے کہ یا وہ سب شاباشی کے قابل نہیں ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ سب ڈبل شاباشی کے حقدار ہیں تو غلط نہ ہوگا۔
آئیں ! اس '' ڈبل شاباشی '' پر بات کرتے ہیں۔ فرض کریں ایک شخص چوری کرتا ہے یا ڈاکا ڈالتا ہے یا بد دیانتی کرتا ہے اور پکڑا جاتا ہے پھر وہ اپنے کرتوت کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے یہ تو ہوئی ایک بات۔ لیکن دوسر ی طرف ایک آدمی مسلسل لگا تار چوری پہ چوری کررہا ہے ڈاکے پہ ڈاکے ڈالے ہی جا رہا ہے بد دیانتی پہ بد دیانتی کرے ہی جارہا ہے اور اس بات پر بھی بضد ہے کہ اسے شریف ، اچھا ، ایماندار اور دیانت دار نہ صرف مانا جائے بلکہ سرعام تسلیم بھی کیاجائے اور ساتھ ساتھ اسے ان خوبیوں کا سرٹیفکیٹ بھی دیا جائے اور مزے کی بات یہ ہے کہ چور ، ڈاکو اور بددیانت کہنے پر ناراض ہوجائے۔
غم و غصہ کرنے لگے اور کہنے والوں کو برا بھلا کہنے بیٹھ جائے اب آپ ہی کہیں کہ کیا ایسا شخص '' ڈبل شاباشی'' کا حقدار نہیں ہے۔ آپ دنیا بھرکی تاریخ اٹھا کر بار بار پڑھ لیں ایسی دلچسپ صورتحال جس کا کہ ہمیں سامنا ہے آپ کو ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی حتیٰ کہ قبل از مسیح میں بھی کسی قوم کو ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہوگا۔
یاد رکھیں دیانت داری ، ایمانداری ایک مسلسل عمل ہے جو ساری زندگی جاری رہتا ہے وہ کسی بھی عمل کا نتیجہ یا سرٹیفکیٹ نہیں ہوتا ہے جو آپ کو ایک بار مل جائے تو آپ ساری زندگی کے لیے دیانت دار اور ایماندار بن جاتے ہیں اور اسے اٹھائے اٹھائے پھرتے رہتے ہیں اور لوگوں کو اس کی نمائش کرتے پھرتے ہیں۔ نامور مصنف ہال اربن لکھتا ہے '' میرے ایک ایسے دوست نے جو میرے علم میں آنے والا سب سے زیادہ دیانت دار شخص ہے۔
ایک دن مجھ سے کہا میں اپنی زندگی کے ہر روز دیانت دار بننے کے لیے جدوجہد کرتا ہوں اس کی بات سن کر میں حیران ہوا اور متجسس بھی ، چنانچہ ہم نے اس موضوع پر ایک طویل بحث کی اس بحث کے نتیجے میں مجھے اس حقیقت کا علم ہوا کہ ہم سب خیر و شر کی جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ زندگی کی ایسی قوتیں ہیں جوکہ وقت کے آغاز سے ازل سے موجود ہیں اور ان کے درمیان سے فرار ہونا ناممکن ہے ہمیں حقیقتاً ان دونوں قوتوں کے عین درمیان رکھا گیا ہے اور ہمیں ہر روز ان دونوں میں انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم ہر قسم کی بددیانتی کے گھیر ے میں ہیں۔''
کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ بد دیانتی ہمیں ویسا شخص نہیں بننے دیتی جیسا کہ ہم بننا چاہتے ہیں اور بن سکتے ہیں یہ سرطان کی طرح ہوتی ہے ابتدا تھوڑی بد دیانتی سے ہوتی ہے اور اگر اس کا سراغ نہ لگایا جائے اور مکمل طور پر ختم نہ کیا جائے تو یہ پھیل کر قابو سے باہر ہوجاتی ہے اور بالآخر ہمیں تباہ کردیتی ہے ، اسے کسی بھی بیماری سے زیادہ انسانوں کو برباد کرتے دیکھا گیا ہے۔
اہم نفسیات دان اور مصنف لیوئس اینڈریو نے 1989 میں شایع ہونے والی اپنی کتاب To Thine Own Be True میں لکھا ہے کہ بددیانتی کا رویہ ہمارے بیش تر نفسیاتی مسائل کی جڑ ہے وہ لکھتا ہے کہ ہمیں ایک فرد کی اقدار اور اس کی صحت کے درمیان رشتے پر ایک سنجیدہ نگا ہ ضرور ڈالنی چاہیے، اگر ہم اپنے ملک کے بد دیانتوں پر ایک سنجیدہ نگاہ ڈالیں تو ہم اس حقیقت سے آشنا ہوجائیں گے کہ وہ سب کے سب نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں ان میں سے ہمیں ایک بھی شخص ایسا نہیں ملے گا جو ذہنی وجسمانی طور پر صحت مند ہو۔
یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی شخص بد دیانت ہو اور وہ ذہنی طور پر صحت مند بھی ہو۔ سینٹ آگسٹائن نے آج سے تقریباً سولہ سو سال پہلے اپنی آپ بیتی '' اعترافات '' میں لکھا تھا کہ اس نے دھوکا دہی اور لوگوں کا حق مار کر سماجی و معاشرتی اعتبار سے ترقی کی۔ ایک دن اس نے تقریر کے دوران ایک فقیر کو دیکھا اور اس نے اس تقریر کے دوران جھوٹ بولے تھے اس نے دیکھا کہ فقیر نہایت مطمئن اور مسرور دکھائی دے رہا ہے جب کہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔
اس کے برعکس اس نے سب کچھ حاصل کر لیا ہے لیکن سخت بے اطمینان اور اضطراب زدہ ہے اس نے غورکیا تو اسے حقیقت کا علم ہوا کہ وہ فقیر ایک مصدقہ شخص ہے اپنے ساتھ سچا ہے جب کہ آگسٹائن اپنے متعلق ایسا نہیں کہہ سکتا تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ اس سے اسے یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ اس نے مستقل طور پر غلط کام کرنے کی وجہ سے خود کو '' سر تا پا بدحال '' بنا لیا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ ہمارے ملک کے جھوٹ سننے والے تمام کے تمام لوگ مطمئن اور مسرور دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ، جب کہ جھوٹ بولنے والے جنہوں نے سب کچھ حاصل کرلیا ہے سخت بے اطمینان، اضطراب زدہ اور سر تا پا بدحال دکھائی دیتے ہیں وہ سب کچھ حاصل کرلینے کے بعد بھی کنگال ، مفلس اور بھکاری کے بھکاری ہی رہے۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ جھوٹ بولنے والوں کو شاباشی اور داد دینے کو بہت دل چاہتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی ہمت، جرأت اور دیدہ دلیر ی کو بھی بار بار خراج تحسین پیش کرنے کو دل چاہتا ہے کیونکہ وہ ڈھٹائی ، بے شرمی اور بے حیائی کے ساتھ مسلسل اور لگا تار جھوٹ پہ جھوٹ بولے جا رہے ہیں اور وہ بھی مسلسل اور تسلسل کے ساتھ اور اس یقین کے ساتھ کہ ان کے جھوٹ اثر دکھا رہے ہیں ، رنگ لا رہے ہیں اور لوگ ان کے جھوٹ کو کھلا سچ تسلیم کرنے لگے ہیں۔ کیا یہ دلچسپ بات نہیں ہے کہ یا وہ سب شاباشی کے قابل نہیں ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ سب ڈبل شاباشی کے حقدار ہیں تو غلط نہ ہوگا۔
آئیں ! اس '' ڈبل شاباشی '' پر بات کرتے ہیں۔ فرض کریں ایک شخص چوری کرتا ہے یا ڈاکا ڈالتا ہے یا بد دیانتی کرتا ہے اور پکڑا جاتا ہے پھر وہ اپنے کرتوت کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے یہ تو ہوئی ایک بات۔ لیکن دوسر ی طرف ایک آدمی مسلسل لگا تار چوری پہ چوری کررہا ہے ڈاکے پہ ڈاکے ڈالے ہی جا رہا ہے بد دیانتی پہ بد دیانتی کرے ہی جارہا ہے اور اس بات پر بھی بضد ہے کہ اسے شریف ، اچھا ، ایماندار اور دیانت دار نہ صرف مانا جائے بلکہ سرعام تسلیم بھی کیاجائے اور ساتھ ساتھ اسے ان خوبیوں کا سرٹیفکیٹ بھی دیا جائے اور مزے کی بات یہ ہے کہ چور ، ڈاکو اور بددیانت کہنے پر ناراض ہوجائے۔
غم و غصہ کرنے لگے اور کہنے والوں کو برا بھلا کہنے بیٹھ جائے اب آپ ہی کہیں کہ کیا ایسا شخص '' ڈبل شاباشی'' کا حقدار نہیں ہے۔ آپ دنیا بھرکی تاریخ اٹھا کر بار بار پڑھ لیں ایسی دلچسپ صورتحال جس کا کہ ہمیں سامنا ہے آپ کو ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی حتیٰ کہ قبل از مسیح میں بھی کسی قوم کو ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہوگا۔
یاد رکھیں دیانت داری ، ایمانداری ایک مسلسل عمل ہے جو ساری زندگی جاری رہتا ہے وہ کسی بھی عمل کا نتیجہ یا سرٹیفکیٹ نہیں ہوتا ہے جو آپ کو ایک بار مل جائے تو آپ ساری زندگی کے لیے دیانت دار اور ایماندار بن جاتے ہیں اور اسے اٹھائے اٹھائے پھرتے رہتے ہیں اور لوگوں کو اس کی نمائش کرتے پھرتے ہیں۔ نامور مصنف ہال اربن لکھتا ہے '' میرے ایک ایسے دوست نے جو میرے علم میں آنے والا سب سے زیادہ دیانت دار شخص ہے۔
ایک دن مجھ سے کہا میں اپنی زندگی کے ہر روز دیانت دار بننے کے لیے جدوجہد کرتا ہوں اس کی بات سن کر میں حیران ہوا اور متجسس بھی ، چنانچہ ہم نے اس موضوع پر ایک طویل بحث کی اس بحث کے نتیجے میں مجھے اس حقیقت کا علم ہوا کہ ہم سب خیر و شر کی جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ زندگی کی ایسی قوتیں ہیں جوکہ وقت کے آغاز سے ازل سے موجود ہیں اور ان کے درمیان سے فرار ہونا ناممکن ہے ہمیں حقیقتاً ان دونوں قوتوں کے عین درمیان رکھا گیا ہے اور ہمیں ہر روز ان دونوں میں انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم ہر قسم کی بددیانتی کے گھیر ے میں ہیں۔''
کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ بد دیانتی ہمیں ویسا شخص نہیں بننے دیتی جیسا کہ ہم بننا چاہتے ہیں اور بن سکتے ہیں یہ سرطان کی طرح ہوتی ہے ابتدا تھوڑی بد دیانتی سے ہوتی ہے اور اگر اس کا سراغ نہ لگایا جائے اور مکمل طور پر ختم نہ کیا جائے تو یہ پھیل کر قابو سے باہر ہوجاتی ہے اور بالآخر ہمیں تباہ کردیتی ہے ، اسے کسی بھی بیماری سے زیادہ انسانوں کو برباد کرتے دیکھا گیا ہے۔
اہم نفسیات دان اور مصنف لیوئس اینڈریو نے 1989 میں شایع ہونے والی اپنی کتاب To Thine Own Be True میں لکھا ہے کہ بددیانتی کا رویہ ہمارے بیش تر نفسیاتی مسائل کی جڑ ہے وہ لکھتا ہے کہ ہمیں ایک فرد کی اقدار اور اس کی صحت کے درمیان رشتے پر ایک سنجیدہ نگا ہ ضرور ڈالنی چاہیے، اگر ہم اپنے ملک کے بد دیانتوں پر ایک سنجیدہ نگاہ ڈالیں تو ہم اس حقیقت سے آشنا ہوجائیں گے کہ وہ سب کے سب نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں ان میں سے ہمیں ایک بھی شخص ایسا نہیں ملے گا جو ذہنی وجسمانی طور پر صحت مند ہو۔
یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی شخص بد دیانت ہو اور وہ ذہنی طور پر صحت مند بھی ہو۔ سینٹ آگسٹائن نے آج سے تقریباً سولہ سو سال پہلے اپنی آپ بیتی '' اعترافات '' میں لکھا تھا کہ اس نے دھوکا دہی اور لوگوں کا حق مار کر سماجی و معاشرتی اعتبار سے ترقی کی۔ ایک دن اس نے تقریر کے دوران ایک فقیر کو دیکھا اور اس نے اس تقریر کے دوران جھوٹ بولے تھے اس نے دیکھا کہ فقیر نہایت مطمئن اور مسرور دکھائی دے رہا ہے جب کہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔
اس کے برعکس اس نے سب کچھ حاصل کر لیا ہے لیکن سخت بے اطمینان اور اضطراب زدہ ہے اس نے غورکیا تو اسے حقیقت کا علم ہوا کہ وہ فقیر ایک مصدقہ شخص ہے اپنے ساتھ سچا ہے جب کہ آگسٹائن اپنے متعلق ایسا نہیں کہہ سکتا تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ اس سے اسے یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ اس نے مستقل طور پر غلط کام کرنے کی وجہ سے خود کو '' سر تا پا بدحال '' بنا لیا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ ہمارے ملک کے جھوٹ سننے والے تمام کے تمام لوگ مطمئن اور مسرور دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ، جب کہ جھوٹ بولنے والے جنہوں نے سب کچھ حاصل کرلیا ہے سخت بے اطمینان، اضطراب زدہ اور سر تا پا بدحال دکھائی دیتے ہیں وہ سب کچھ حاصل کرلینے کے بعد بھی کنگال ، مفلس اور بھکاری کے بھکاری ہی رہے۔