وعدوں کے جلد وفا کرنے کا وقت

جدید انفرااسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے بھاری مقدار میں غذائی اجناس ضایع ہوجاتی ہیں۔


Editorial December 13, 2021
جدید انفرااسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے بھاری مقدار میں غذائی اجناس ضایع ہوجاتی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

RAWALPINDI: میانوالی میں ایک بڑے عوامی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کرپشن میں ملوث لوگوں سے مفاہمت نہیں ہوگی، جس قوم میں قانون کی بالادستی نہیں ہوگی وہ تباہ ہوجاتی ہے،چند مہینوں میں پوری دنیا میں کورونا کی وجہ سے کوئلے، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں تو پاکستان میں بھی بڑھانا پڑیں، لیکن دو سے چار ماہ میں عالمی منڈی میں قیمتیں کم ہوں گی تو پاکستان میں بھی کمی ہوگی،مہنگائی کے باوجود پاکستان اب بھی دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔

وزیراعظم تواتر کے ساتھ ملک سے کرپشن کے خاتمے اور قانون کی بالادستی کی بات دہراتے نظرآتے ہیں، ان کا دعویٰ اور خلوص اپنی جگہ لیکن تمام تر انتظامی مشینری حکومت کی دسترس میں ہونے کے باوجود ایف آئی اے، انٹی کرپشن اور نیب جیسے ادارے محض روایتی انداز میں کام کر رہے ہیں اور حکومت کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے بے بس نظر آرہی ہے۔ نیب کے اختیارات میں حکومت نے خود ہی کمی کرکے اس ادارے کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کرپشن کی ایک بڑی وجہ قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے ایک سخت اور کڑا احتساب ہی کرپشن کے خاتمے کا ضامن ہے۔

درحقیقت ہمارے ملک میں بدعنوانی کی شرح بلند ترین سطح پر ہے۔ سرکاری محکموں کا حال یہ ہے کہ وہاں اپنا کام کرانے کے لیے مجبوراً رشوت دینا پڑتی ہے یہاں ہر ہر قدم پرعوام کا استحصال کیا جاتا ہے۔ بدعنوانی کا گھن ملک کو کس طرح چاٹ رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی دولت کا بڑا حصہ کالے دھن کی شکل میں بیرونی ممالک کے بینکوں میں جمع ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے کرپشن کے سدباب کے لیے اقدامات نہیں کیے۔

حکومت برابر اس کے خاتمہ کے لیے کوششیں کر رہی ہے اور اس کے سدباب کے لیے سخت ترین قوانین بھی بنائے گئے ہیں۔ در اصل حکومتیں قوانین تو بنا لیتی ہیں لیکن ان کے نفاذ کے سلسلے میں وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتیں، جس کی وجہ سے ظالموں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور کمزوروں کا استحصال ہوتا رہتا ہے۔ حکومت کی اسی غلطی کی وجہ سے یہ بیماری کنٹرول سے باہر ہوتی جارہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ پاکستان ٹریک پر واپس آگیا ہے، کرپٹ مافیا کا احتساب اور طاقتور کو قانون کے تابع کیا جا رہا ہے۔ ان کا یہ دعویٰ عوام تسلیم کرتے اگر وہ اپنے تین سالہ دور حکومت میں کسی بھی مافیا کا احتساب کرنے میں کامیاب ہوتے، لیکن بدقسمتی سے ان ہی کے دور حکومت میں چینی اور آٹے کا بحران سامنے آیا۔مہنگائی نے سارے ریکارڈ توڑ دیے، بے روزگاری نے غریب پاکستانیوں کا جینا دوبھر کردیا۔ ملک میں سب سے اہم مسئلہ بدعنوانی اور کرپشن کا ہے، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے آج پورا پاکستانی معاشرہ پریشان ہے۔

ہر سرکاری دفتر کے باہر کچھ لوگ بیٹھے ہوتے ہیں جو اس دفتر کے ماحول اور مشکلات کو حل کرنے کا فن جانتے ہیں، جب کہ بدعنوانی کے بڑھتے ہوئے اس ناسور کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اب لوگ بدعنوانی کے مرتکب ہو کر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں، اسے اپنی عقلمندی، عیاری،چالاکی، ذہانت اورہنر سمجھتے ہیں۔ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اور اختیارات کے ناجائز استعمال نے سماجی اور معاشرتی اسٹرکچر کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے اور انسانی ومذہبی اقدار کو پامال کرکے رکھ دیا ہے۔

کرپشن سے بھرپور تھانہ کلچر،حکومتی اداروں میں کرپشن کا راج، حصول انصاف کا کمزور نظام، مصلحتوں اور بدعنوان افسران کی وجہ سے عوام میں بے بسی اور بے اختیاری کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔ عوام میں عدم اطمینان کے باعث، حکومتی و سرکاری اور عدالتی اداروں پر ان کے اعتماد میں کمی واقع ہو رہی ہے، جب کہ ملک میں موجود انسداد بدعنوانی کے محکموں کی مایوس کن کارکردگی اور ان سے استفادے کا پیچیدہ اور سست رو طریقہ کار، سرکاری اداروں میں کرپشن کا باعث بن رہا ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بنیادی سرکاری ادارے مثلاً بجلی، سوئی گیس، شہری ترقی کے ادارے، میونسپل کمیٹیاں، لوکل گورنمنٹ کے دفاتر، سرکاری ادارے کم اور بدعنوانی کی نرسریاں زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔یہاں تعینات معمولی افسران کے بھی اثاثہ جات اور عالیشان طرز زندگی دیکھ کر شہری انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ یہاں اقتدار پر قابض رہنے والے بدعنوان حکمرانوں کی لوٹ مار' بندر بانٹ اور قرضوں کے انبار کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے اور عام لوگوں کا زندگی گزارنا اجیرن ہو چکا ہے۔ ایک طرف بڑے بڑے عہدوں پر فائز سرکاری افسر اور حکمران گروہ قومی دولت کی لوٹ مار کے باعث عیش و عشرت میں مگن رہے ہیں اور دوسری طرف غریب اور فاقہ کش لوگ آج بھی خود سوزی اور خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔

کرپشن کی ایک بڑی وجہ قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے ایک سخت اور کڑا احتساب ہی کرپشن کے خاتمے کا ضامن ہے۔کرپشن کے خاتمے میں عدلیہ کا کردار ایک اہم حیثیت کا حامل ہے کیونکہ معاشرے میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا عدلیہ کے فرائض میں شامل ہے۔کرپشن کے خاتمے کے لیے کرپٹ عناصر کو سخت سزائیں دینا وقت کی اہم ضرورت ہے جس سے کرپشن میں کمی آئے گی اور دیگر عناصر کے لیے نشان عبرت ثابت ہوگی۔

اسی جلسے میں وزیراعظم عمران خان نے اپنی بات کو دہرایا ہے کہ مہنگائی کے باوجود پاکستان اب بھی دنیا کا سستا ترین ملک ہے، لیکن زمینی حقائق ان کے اس دعوے کی نفی کررہے ہیں۔ موجودہ حکومت ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو عالمی رجحان قرار دے کر اسے کنٹرول کرنے میں اپنی معاشی حکمت عملی کی کمزوریوں کو چھپا نہیں سکتی۔ گراس روٹ لیول پر دیکھا جائے تو پاکستان میں مہنگائی ناقابل برداشت لائن پر کھڑی ہے مگرمعاشی ٹیم اب بھی دعویٰ کررہی ہے کہ معیشت درست سمت میں جارہی ہے، کسی دوسرے ملک میں کسی ایک آئٹم کی قیمت کو بنیاد بنا کر پاکستان میں مہنگائی کی شدت کو کم بیان کرنا درست حکمت عملی نہیں ہے۔

اشیاء خورونوش اور روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کے نرخوں میں مسلسل اضافے نے مڈل کلاس گھرانوں کے لیے ماہانہ بجٹ بنانا مشکل کردیا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی کی وجہ سے عوام کی قوت خرید شدید متاثر ہوئی ہے۔ آٹے، چینی، خوردنی گھی، خوردنی تیل، سبزیاں، گوشت، دودھ، دہی، ادویات اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے جب کہ درمیانے اور نچلے طبقہ کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہورہا جس کی وجہ سے ان کی قوت خرید میں کمی آئی ہے۔ انھیں گھر کا کچن چلانے اور بچوں کی تعلیم میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے تحت کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں چالیس فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ان کی آمدنی کے ذرایع انتہائی محدود ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی نے بھی پاکستانیوں کی فی کس آمدنی کو شدید متاثر کیا ہے۔ معاشی تجزیہ کار اور ماہرین عالمی سطح پر آٹے، گھی اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ داخلی سطح پر پرائس کنٹرول کے کمزور نظام اور ڈالر کی قیمت میں ہونے والے مسلسل اضافے کو بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔

کئی ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہونے جارہا ہے۔ بیلنس آف پیمنٹ کے بحران کو حل کرنے کے لیے آئی ایم ایف کہتا ہے کہ روپے کی قدر کم کی جائے، درآمدات کو مہنگے کیے جانے سے درآمدی اشیا کی مانگ کم ہوجائے گی لیکن درآمدی اشیاء اگر خام مال ہو یا انڈسٹریل مشینری ہو تو اس سے صرفِ نظر کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں درآمد کردہ اشیاء مہنگی ہوجاتی ہیں جس کا اثر پوری معیشت پر پڑتا ہے۔ یہ مہنگائی انڈسٹریل گڈز اور خام مال کے مہنگا ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے، ان اقدامات کی وجہ سے ملک میں صنعت بند ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

ان سطور کے ذریعے ہم گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت کو اپنے معاشی اور سیاسی بیانیے میں مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا بیانیہ جس کو عوام کی حمایت مل سکے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان اس وقت تک مہنگائی پر قابو نہیںپاسکتا جب تک کہ وہ اپنی زرعی اجناس کی پیداواری صلاحیت کو بہتر نہیں کرتا۔ اس کے لیے زرعی مداخل کی قیمتوں میں انقلابی کمی، چھوٹے کاشتکار کو منڈی میں آڑھتی اور مڈل مین کی لوٹ مار سے بچانا، کاشتکار جب اپنی فصل شہر کی منڈی میں لے کر آتا ہے تو راستے میں کئی جگہوں پر سرکاری اہلکار اس کی جیب پر حملہ آور ہوتے ہیں، اسے اس راہزنی سے بچانا ضروری ہے۔

جدید انفرااسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے بھاری مقدار میں غذائی اجناس ضایع ہوجاتی ہیں۔ اس لیے جدید کولڈ اسٹوریج کو بھی انڈسٹری بنایا جائے۔ زرعی پیداوار میں کمی کا ایک سبب پانی کا ضایع ہونا بھی ہے، تقریباً آدھا پانی ضایع ہوجاتا ہے۔ تمام مسائل پر قابو پانا چاہیے تاکہ ہماری زرعی اجناس کی پیداوار بہتر ہو، اس سے مہنگائی کو کم کرنے میں بہت حد تک مدد ملے گی۔

حکومت پر اب لازم ہوچکا ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کی نکتہ چینی اور مخالفانہ بیانات کا اپنے معاشی اور انتظامی زمینی حقائق کے تناظر میں جائزہ لے، اپنی پالیسیوں میں مثبت پیش رفت پر نظر ڈالے۔عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کی رفتار سست ہے، صرف کارکردگی کا سارا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈالنے سے عوام مطمئن نہیں ہو نگے، بلکہ اس کے لیے لوگوں کو ریلیف دینا ہو گا،تین سال گزر گئے اب باقی وقت میں اقتصادی پیش رفت سامنے لانا بے حد ضروری ہے، حکومت کو چیلنجز درپیش ہیں، عوام سے کیے گئے وعدوں کے جلد وفا کرنے کا وقت ہے، حکومت وقت کے پاس تاخیر کی گنجائش باقی نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔