شدت پسندی

اسلام اور توہین رسالت کے نام پر چند لوگ خود ہی فیصلہ کر لیتے ہیں۔

www.facebook.com/shah Naqvi

ISLAMABAD:
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ یہ کون سا انصاف ہے کہ آپ نے الزام لگایا اور خود ہی جج بنے اور قتل کر دیا۔ انھوں نے کہا توہین رسالت ؐ پر لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔

اسلام اور توہین رسالت کے نام پر چند لوگ خود ہی فیصلہ کر لیتے ہیں۔ خود ہی سزا دے دیتے ہیں اور اگر خوش قسمتی سے الزام کا سامنا کرنے والا زندہ بچ جائے اور گرفتار ہو کر جیل پہنچ جائے تو نہ کوئی وکیل کیس لڑنے کی ہمت کرتا ہے اور نہ کوئی جج کیس سننے کو تیار ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جو کوئی بھی اسلام یا نبیؐ آخرالزماں کے نام پرکسی پر ظلم کرے گا ۔ ہم اسے کسی بھی صورت نہیں چھوڑیں گے۔

خوش آیند بات یہ ہے کہ تمام مکتبہ فکر کے علمائے کرام و مشائخ نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر کسی ابہام کے یک زبان ہو کر سانحہ سیالکوٹ کی بھر پور مذمت کی۔ اس سانحہ کی مذمت کرتے ہوئے اس نمایندہ اجتماع نے کہا کہ یہ واقعہ قرآن و سنت، آئین و قانون جمہوریت کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ذمے داران سخت ترین سزا کے مستحق ہیں۔

اسلام میں تشدد اور انتہاء پسندی کی کوئی جگہ نہیں۔ بغیر ثبوت توہین مذہب کا الزام لگانا غیر شرعی اور ماورائے عدالت قتل ہے۔ یہ بھیانک واقعہ ملک و قوم، اسلام اور مسلمانوں کی سبکی کا باعث بنا۔ اس اندوہناک واقعہ سے پورا ملک ہل گیا۔ علمائے کرام کے اس اجتماع نے شدت پسندی کو اسلام اور پاکستان دشمنی قرار دیا۔ تمام علمائے کرام نے عدلیہ سے اپیل کی کہ اس کیس کے حوالے سے تیز تر سماعت کی جائے تاکہ مجرمان جلد سے جلد اپنے انجام کو پہنچیں۔

بعدازاں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ہم سری لنکن سفارت خانے میں اندوناک واقعے پر اظہار تعزیت اور یکجہتی کرنے آئے ہیں۔ سیالکوٹ کا حالیہ سانحہ ایک المیہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں غم و غصہ پھیل گیا ہے۔ ہجوم کی صورت میں بے رحمانہ انداز میں ایک انسان کو مارا پیٹا گیا اور بالآخر موت کے گھاٹ اتار کر اس کی لاش جلائی گئی۔ ماورائے عدالت قتل کا یہ ایک بھیانک اور خوفناک واقعہ ہے۔ بغیر ثبوت کے توہین مذہب کا الزام لگانا غیر شرعی ہے۔


اعلامیہ میں کہا گیا کہ یہ پوری صورتحال قرآن و سنت کے سراسر خلاف ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ پاکستان بھر کے مستند علماء نے بھر پور طریقے سے اس کی مذمت کی ہے۔ اس تکلیف دہ واقعے میں امید کی ایک کرن یہ تھی کہ نوجوان ملک عدنان نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر قتل ہونے والے بے گناہ شخص کو بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ اس نوجوان کا یہ اقدام قابل تحسین ہے۔

ملک عدنان سری لنکن جنرل مینجر پریانتھا کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ذاتی زندگی میں انتہائی نفیس انسان تھے۔ اردو پڑھنا، لکھنا نہیں جانتے تھے۔ جن پوسٹرز کو ہٹایا گیا وہ نہیں جانتے تھے کہ اس پر کیا لکھا ہے۔ معلوم پڑنے پر انھوں نے معافی مانگی۔ کام کے دوران ان کا رویہ سخت ہوتا تھا۔ وہ رولز کو فالو کرتے تھے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں ملک عدنان نے کہا کہ جب پریانتھا ہجوم کے نرغے میں بد ترین تشدد کا شکار ہو رہے تھے تو وہ مکمل خاموش رہے۔ ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ انھیں یقین ہو چکا تھا کہ ہجوم انھیں مار کر ہی دم لے گا۔

شکر کریں کہ ہزاروں کے مجمعے میں یہ واحد شخص تھا جس نے پوری دنیا میں پاکستان کی عزت رکھی۔ ان نادان انسانوں کو پتہ نہیں کہ سری لنکا میں بھی مسلمان بستے ہیں۔ اگر وہاں پر بھی رد عمل شروع ہو گیا تو کتنے بے گناہ مسلمانوں کی جانیں جا سکتی ہیں۔ ان کی املاک گھر، جائیداد، کاروبار تباہ ، عورتوں کی زندگیاں اور عزت تک خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ جیسا کہ روہینگا مسلمانوں کے ساتھ برما میں ہوا کہ وہاں لاکھوں مسلمان بے گھر، ہزاروں قتل اور بے شمار عورتوں سے زیادتی کی گئی۔

شدت پسندی عقل کو ماؤف کر دیتی ہے۔ یہ سری لنکن ہی ہیں جو پوری دنیا کو اپنی ہزاروں آنکھیں عطیہ کر کے اندھوں کو بینائی عطاء کر رہے ہیں۔ 37 ہزار پاکستانی بھی اس عطیے سے فیض یاب اس طرح ہوئے کہ ان کی آنکھوں میں اجالا آ گیا۔ یہ بات بھی کیسے بھولی جا سکتی ہے کہ جب دنیائے کرکٹ نے پاکستان کا بائیکاٹ کر رکھا تھا تو یہ سری لنکن ہی تھے جنھوں نے تمام خطرات مول لیتے ہوئے اپنی کرکٹ ٹیم پاکستان بھیجی جولاہور میں دہشت گردی کا نشانہ بنی۔

یہ بات انتہائی خوش آیند ہے کہ حال ہی میں کور کمانڈر کانفرنس میں کہا گیا کہ سانحہ سیالکوٹ ناقابل برداشت ، تشدد اور دہشت گرد عناصر کے لیے زیرو ٹالرینس ہے۔ فوج اور اس کے علاوہ صرف علمائے کرام ہی ہیں جو بلا شک و شبہ اس شدت پسندی کے آگے بند باندھ سکتے ہیں۔ ورنہ تو تاریکی ہی تاریکی ہے۔
Load Next Story