غیر جمہوری رویے
حکمران قیادت کے غیر جمہوری رویے نے اسے یہ دن دکھایا ہے کہ تمام اپوزیشن اس کے خلاف ہے۔
ISLAMABAD:
الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی تقرری کا معاملہ کئی ماہ سے حکومت اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان لٹکا ہوا ہے جب کہ نیب کے چیئرمین کی تقرری میں حکومت نے کوئی دلچسپی لی ہی نہیں اور رہی آئینی ضرورت تو اپوزیشن لیڈر سے مشاورت ہی متنازعہ بنا کر حکومتی من مانی کرنے کی کوشش کرکے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اپنی پسند کے چیئرمین نیب کو برقرار تو رکھ لیا گیا ہے اور آرڈیننس کی مدت مکمل ہونے کے بعد یہ معاملہ پارلیمنٹ کے پاس جانا ہی ہے جہاں اپوزیشن کی تمام پارٹیاں چیئرمین نیب کی توسیع کی شدید مخالف ہیں اور حکومتی حلیفوں نے بھی حکومت کے اس اقدام کی حمایت نہیں کی کہ موجودہ چیئرمین نیب ہی اپنے عہدے پر برقرار رہیں۔
یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اس لیے آیا ہے کہ وزیر اعظم آئینی طور پر اس تقرری کو اپوزیشن لیڈر کی مشاورت کے ذریعے حل کرنا ہی نہیں چاہتے تھے بلکہ حکومت صاف کہہ چکی تھی کہ اس مسئلے پر وہ کسی صورت اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے اس لیے مشاورت نہیں کرے گی کہ وہ نیب کے ملزم ہیں اور نیب کی عدالتوں میں مقدمات بھگت رہے ہیں۔
حکومت اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی ہی کی صورت میں نئے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرسکتی ہے۔ اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی ممکن ہی نہیں ہے حکومت یہ جانتی ہے اس لیے چیئرمین نیب کے مسئلے پر پارلیمانی کمیٹی میں بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ پارلیمانی کمیٹی میں ارکان کی تعداد یکساں ہے اور یہ ممکن نہیں کہ حکومت اپنے حق میں فیصلہ لے سکے گی۔
حکومت بھی یہی چاہے گی کہ یہ معاملہ طے نہ ہو اور موجودہ نیب چیئرمین اپنے عہدے پر برقرار رہیں اور متنازعہ احتساب یوں ہی چلتا رہے اور حکومت کی مدت پوری ہوجائے۔ چیئرمین نیب اپنے عہدے پر برقرار اور الیکشن کمیشن ادھورا ہے اور حکومت اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے یہ مسئلہ بھی حل نہیں کر رہی۔
اپوزیشن لیڈر نیب کے ملزم ضرور ہیں مگر الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کا فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ ضرور زیر سماعت ہے اور حکومت کے خلاف ڈسکہ الیکشن کا معاملہ بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کا منتظر ہے۔ حکومت نے جان بوجھ کر چیف الیکشن کمشنر کے خلاف محاذ کھولا ہے تاکہ ڈسکہ الیکشن معاملے پر رپورٹ متنازعہ بنوائی جاسکے اور متوقع فارن فنڈنگ کیس میں اگر فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف آئے تو حکومت اس فیصلے کو چیف الیکشن کمشنر کی انتقامی کارروائی قرار دے کر پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی رکوا سکے۔
پاکستان میں پی ٹی آئی کے سوا تمام پارٹیاں 2018 کے الیکشن کو جانبدارانہ قرار دے چکی ہیں اور الزام لگایا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کو مقتدر حلقے اقتدار میں لائے تھے اس لیے قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے وزیر اعظم کو منتخب تسلیم ہی نہیں کیا تھا اور وہ شروع سے ہی سلیکٹڈ وزیر اعظم قرار دیتے آ رہے ہیں جس پر حکمران قیادت بھی شروع دن سے ہی اپوزیشن سے اس قدر نفرت کرتی ہے کہ اس نے کوشش کی تھی کہ میاں شہباز شریف اپوزیشن لیڈر نہ بن سکیں مگر اپوزیشن نے حکومت کی کوشش ناکام بنادی تھی اور اسپیکر کو مجبوراً شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر بنانا پڑا تھا اور قومی اسمبلی میں وزیر اعظم نے صرف ایک بار شہباز شریف سے ہاتھ ملایا تھا جس کے بعد انھوں نے تین سال میں اپوزیشن سے ملنا گوارا کیا نہ اہم قومی مسئلے پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کے لیے کوئی آل پارٹیز کانفرنس بلائی بلکہ ان کے وزیر شہباز شریف سے خود یہ عہدہ چھوڑ دینے کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں جس کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔
اپوزیشن مسلسل الزام لگاتی آ رہی ہے کہ نیب،حکومت گٹھ جوڑ کے ذریعے نام نہاد احتساب صرف اپوزیشن کا ہو رہا ہے جس کے ذریعے نیب نے جھوٹے مقدمات میں تمام اہم اپوزیشن رہنماؤں اور شہباز شریف کو گرفتار کیا جو تمام عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہوگئے۔ حکمران قیادت کے غیر جمہوری رویے نے اسے یہ دن دکھایا ہے کہ تمام اپوزیشن اس کے خلاف ہے اور اسے ہٹانے کی جدوجہد کر رہی ہے اور حکمران قیادت کے غیر جمہوری رویے کا انجام یہ ہے کہ اپوزیشن ہی نہیں بلکہ حکومتی حلیف بھی اپنی حکومت سے غیر مطمئن ہیں۔
الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی تقرری کا معاملہ کئی ماہ سے حکومت اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان لٹکا ہوا ہے جب کہ نیب کے چیئرمین کی تقرری میں حکومت نے کوئی دلچسپی لی ہی نہیں اور رہی آئینی ضرورت تو اپوزیشن لیڈر سے مشاورت ہی متنازعہ بنا کر حکومتی من مانی کرنے کی کوشش کرکے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اپنی پسند کے چیئرمین نیب کو برقرار تو رکھ لیا گیا ہے اور آرڈیننس کی مدت مکمل ہونے کے بعد یہ معاملہ پارلیمنٹ کے پاس جانا ہی ہے جہاں اپوزیشن کی تمام پارٹیاں چیئرمین نیب کی توسیع کی شدید مخالف ہیں اور حکومتی حلیفوں نے بھی حکومت کے اس اقدام کی حمایت نہیں کی کہ موجودہ چیئرمین نیب ہی اپنے عہدے پر برقرار رہیں۔
یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اس لیے آیا ہے کہ وزیر اعظم آئینی طور پر اس تقرری کو اپوزیشن لیڈر کی مشاورت کے ذریعے حل کرنا ہی نہیں چاہتے تھے بلکہ حکومت صاف کہہ چکی تھی کہ اس مسئلے پر وہ کسی صورت اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے اس لیے مشاورت نہیں کرے گی کہ وہ نیب کے ملزم ہیں اور نیب کی عدالتوں میں مقدمات بھگت رہے ہیں۔
حکومت اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی ہی کی صورت میں نئے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرسکتی ہے۔ اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی ممکن ہی نہیں ہے حکومت یہ جانتی ہے اس لیے چیئرمین نیب کے مسئلے پر پارلیمانی کمیٹی میں بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ پارلیمانی کمیٹی میں ارکان کی تعداد یکساں ہے اور یہ ممکن نہیں کہ حکومت اپنے حق میں فیصلہ لے سکے گی۔
حکومت بھی یہی چاہے گی کہ یہ معاملہ طے نہ ہو اور موجودہ نیب چیئرمین اپنے عہدے پر برقرار رہیں اور متنازعہ احتساب یوں ہی چلتا رہے اور حکومت کی مدت پوری ہوجائے۔ چیئرمین نیب اپنے عہدے پر برقرار اور الیکشن کمیشن ادھورا ہے اور حکومت اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے یہ مسئلہ بھی حل نہیں کر رہی۔
اپوزیشن لیڈر نیب کے ملزم ضرور ہیں مگر الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کا فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ ضرور زیر سماعت ہے اور حکومت کے خلاف ڈسکہ الیکشن کا معاملہ بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کا منتظر ہے۔ حکومت نے جان بوجھ کر چیف الیکشن کمشنر کے خلاف محاذ کھولا ہے تاکہ ڈسکہ الیکشن معاملے پر رپورٹ متنازعہ بنوائی جاسکے اور متوقع فارن فنڈنگ کیس میں اگر فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف آئے تو حکومت اس فیصلے کو چیف الیکشن کمشنر کی انتقامی کارروائی قرار دے کر پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی رکوا سکے۔
پاکستان میں پی ٹی آئی کے سوا تمام پارٹیاں 2018 کے الیکشن کو جانبدارانہ قرار دے چکی ہیں اور الزام لگایا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کو مقتدر حلقے اقتدار میں لائے تھے اس لیے قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے وزیر اعظم کو منتخب تسلیم ہی نہیں کیا تھا اور وہ شروع سے ہی سلیکٹڈ وزیر اعظم قرار دیتے آ رہے ہیں جس پر حکمران قیادت بھی شروع دن سے ہی اپوزیشن سے اس قدر نفرت کرتی ہے کہ اس نے کوشش کی تھی کہ میاں شہباز شریف اپوزیشن لیڈر نہ بن سکیں مگر اپوزیشن نے حکومت کی کوشش ناکام بنادی تھی اور اسپیکر کو مجبوراً شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر بنانا پڑا تھا اور قومی اسمبلی میں وزیر اعظم نے صرف ایک بار شہباز شریف سے ہاتھ ملایا تھا جس کے بعد انھوں نے تین سال میں اپوزیشن سے ملنا گوارا کیا نہ اہم قومی مسئلے پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کے لیے کوئی آل پارٹیز کانفرنس بلائی بلکہ ان کے وزیر شہباز شریف سے خود یہ عہدہ چھوڑ دینے کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں جس کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔
اپوزیشن مسلسل الزام لگاتی آ رہی ہے کہ نیب،حکومت گٹھ جوڑ کے ذریعے نام نہاد احتساب صرف اپوزیشن کا ہو رہا ہے جس کے ذریعے نیب نے جھوٹے مقدمات میں تمام اہم اپوزیشن رہنماؤں اور شہباز شریف کو گرفتار کیا جو تمام عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہوگئے۔ حکمران قیادت کے غیر جمہوری رویے نے اسے یہ دن دکھایا ہے کہ تمام اپوزیشن اس کے خلاف ہے اور اسے ہٹانے کی جدوجہد کر رہی ہے اور حکمران قیادت کے غیر جمہوری رویے کا انجام یہ ہے کہ اپوزیشن ہی نہیں بلکہ حکومتی حلیف بھی اپنی حکومت سے غیر مطمئن ہیں۔