نجانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں

ہم اُس نسل کے آخری نمائندے ہیں جنہوں نے گلی محلوں میں سانجھی خوشیاں اور سانجھے غم دیکھے ہیں


شاہد کاظمی December 14, 2021
ہم بہت سادہ سی خوشیاں پیچھے چھوڑتے جارہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

بہت عرصے بعد ایک شادی میں جانا ہوا تو حیران کن منظر دیکھنے کو ملا کہ وہی دیگیں کھڑک رہی ہیں جو اب خال خال ہی دکھائی دیتا ہے۔ اب تو بس فون پر آرڈر بک ہوا اور پکی پکائی دیگیں گھر آجاتی ہیں۔ گھروں میں شادی بیاہ و دیگر تقریبات کےلیے کھانا پکانے کا اہتمام کرنا کم و بیش ختم ہوچکا ہے۔ مزید حیرت اس وقت ہوئی جب کام کاج کےلیے ملازمین کی فوج ظفر موج کے بجائے وہی محلے اور خاندان کے افراد ادھر اُدھر ہوتے نظر آئے۔

اس کا بھی الگ ہی مزا تھا۔ کسی کے گھر کوئی بھی تقریب ہو تو ایک دن پہلے بلاوا بھیجا جاتا تھا۔ اور کام کاج کےلیے الگ سے سنہیڑا دیا جاتا تھا۔ کچھ دہائیوں قبل ہی کی تو بات ہے کہ جس گھر میں صرف کھانا کھانے کی دعوت دی جائے اور انہیں کام کاج کےلیے بلاوا نہ ملے تو ناراضی کا اظہار ہوتا تھا کہ صاحبِ خانہ ہمیں اپنا نہیں سمجھتے، اسی لیے ہمیں کام کاج کےلیے سنہیڑا نہیں بھیجا گیا۔ لیکن آج کے دور میں تو حالات یکسر تبدیل ہوتے جارہے ہیں، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حالات تو مکمل تبدیل ہوچکے ہیں۔

آج کل لوگ کھانے کی دعوت میں بھی بمشکل پہنچتے ہیں اور کام کاج میں ہاتھ بٹانا تو دور صاحبِ خانہ کی ہمت بندھانے کو بھی جرم سجھتے ہیں۔ لیکن یہ روایات صرف دو سے تین دہائیوں میں ہی پھیلی ہیں۔ اس سے قبل تو ایک الگ ہی دنیا آباد تھی۔ کیٹرنگ اور ریڈی میڈ تقریبات انتظامات کے کاروبار نے ہم سے گاؤں کی سادہ سی خوشیاں چھین لیں۔ نجانے وہ خوشیاں اب کہاں کھو گئی ہیں جو کسی دور میں خلوص، محبت، پیار، یگانگت اور رواداری لیے ہوئے ہوتی تھیں۔

اُس سنہرے دور میں کہیں خوشی ہو یا مرگ، رات کو ہی دیگیں چڑھ جاتیں۔ پورا گاؤں کام میں ہاتھ بٹانے کو موجود، گھر کے مالکان کو کچھ پتا نہ ہوتا کہ کیسے کام سر انجام پا رہے ہیں۔ پڑوسیوں کی بیٹھکیں بھی بنا کہے کھلی ہوتیں کہ جو مہمان طویل سفر طے کرکے آتے تھے ان کی رہائش کا بندوبست بھلا اب صاحبِ خانہ کیوں کریں۔ یہ تو اہل محلہ کی ذمے داری ہے اور وہ سر انجام بھی بخوبی دیتے تھے۔

کھانے پکانے کےلیے لکڑیوں کا بندوبست کیسے ہوگا؟ دیگیں کیسے آئیں گی؟ چولہے بنانے کےلیے اینٹیں اور پتھر کہاں سے آئیں گے؟ گوشت لانے کی ذمے داری کس کی ہے؟ روٹی پکانے کےلیے لوہ (لوہ بنیادی طور پر لوہے سے بنا بڑا توا کہہ سکتے ہیں، جس کا سائز عام توے سے کم و بیش پانچ سے دس گنا بڑا ہوتا تھا) کہاں لگے گی۔ لوہ پر پکنے والی روٹی کو دسترخوان تک لے جانے کا ذمہ کون اٹھائے گا۔ برتاوے کون کون ہوں گے؟ اور جو برتاوے ہوتے تھے مجال ہے جو تمام مہمانوں کے نمٹ جانے سے پہلے ایک نوالہ بھی نوش کرلیں۔ اور کوئی شرارت سے ایسا کر بھی لیتا تو اس کی وہ لے دے ہوتی تھی کہ بیچارہ منہ چھپاتا پھرے۔ نیندرہ لکھنے کی ذمے داری کس کی ہوگی؟ نیندرہ لکھنا، حساب کتاب لکھنا اور دن کے اختتام پر صاحبِ خانہ کے حوالے کرنا بھی ایک بہت بڑی ذمے داری ہوتی تھی، جس کےلیے محلے کے سب سے پڑھے لکھے افراد کے نام قرعہ نکلتا تھا۔ ٹینٹ گاڑنا کس کا ذمہ ہوگا؟ کرسیاں لگانے کےلیے کون نگرانی کرے گا؟ پنڈال کے عارضی کچن میں بھری ہوئی دیگیں کون لائے گا، خالی دیگیں واپس کون لے جائے گا؟ کس میز پر کس نے فرائض سر انجام دینے ہیں، پشت پر ہاتھ باندھ کے چلتے ہوئے بس دیکھ بھال کی ذمے داری کس کی ہوگی؟ یہ سب باتیں طے ہوتی تھیں۔

لیکن یہ سب کچھ تاریخ میں گم ہورہا ہے۔ ریڈی میڈ کی آسانی نے سادہ سی خوشیاں بھی بھلا دی ہیں۔ ایک عرصے بعد خوشی کی دعوت پر جب اُسی طرح دوبارہ دیگیں کھڑکتی دیکھیں تو دل میں نجانے کچھ ٹوٹ سا گیا کہ ہم بہت سادہ سی خوشیاں پیچھے چھوڑتے جارہے ہیں۔ اور ایسی دنیا میں گم ہوتے جارہے ہیں جو انسانوں کو مصروفیت میں نگل رہی ہے۔

کہنے کو تو یہ بہت عام سی بات لگتی ہے کہ بھلا دیگیں گھر پر پکیں یا کیٹرنگ کی دکان پر، کیا فرق پڑتا ہے، لیکن گہرائی سے جائزہ لیجیے تو یہ سادگی مفقود ہونا انسان کو پریشان کرگیا ہے۔ ہماری نسل شاید آخری نسل ہوگی جو ان سادہ روایات کی امین ہوگی، کیوں کہ اب آنے والی نئی نسل ایسی سادہ سی خوشیوں سے یکسر نا آشنا ہوگی۔ اور وہ تو یہ جان بھی نہ سکیں گے کہ جذبوں میں خلوص کس قدر زیادہ تھا۔ روایات کی مضبوطی کیسے ایک مضبوط اور مثبت معاشرہ تشکیل دیے ہوئے تھی۔

ہم اُس نسل کے آخری نمائندے ہیں جنہوں نے گلی محلوں میں سانجھی خوشیاں اور سانجھے غم دیکھے ہیں۔ ورنہ آج کل تو دور ایسا آگیا ہے کہ ساتھ دینا تو دور کی بات، خوشی ہو یا مرگ، ساتھ والے گھر کے مکینوں کو بھی علم نہیں ہوتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔