ملازمین برطرفی کیس کالعدم قانون بحال نہیں ہوگا سپریم کورٹ

حکومت ملازمین کو ریلیف کیلیے تجاویز دے، عدالت سنگدل نہیں، ملکر کام کر رہے ہیں۔

حکومت ملازمین کو ریلیف کیلیے تجاویز دے، عدالت سنگدل نہیں، ملکر کام کر رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

LONDON:
سپریم کورٹ نے ایکٹ 2010 کے ذریعے بحال ملازمین کو برطرف کرنے کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستوں پر اٹارنی جنرل کو ملازمین کو ریلیف دینے سے متعلق تجاویز مانگ لیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کسی طریقہ کار کے تحت ان ملازمین کو بھرتی نہیں کیا گیا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھی بھرتی کے طریقہ کار کا جائزہ لیا۔ سرکاری عہدوں پر بھرتی کیلئے معیار اور میرٹ تو ہونا چاہیے، یہ نہیں کہہ رہے کہ حکومت بھرتیاں نہیں کر سکتی۔ عدالتی فیصلے بطور نظیر پیش ہوتے ہیں، کسی نے تو مستقبل کیلئے سٹینڈ لینا ہی ہے۔ ملکر کام کر رہے ہیں، امید ہے اچھے نتیجے پر پہنچیں گے۔

جسٹس منصو رعلی شاہ نے کہا تمام ملازمین کو ایک لیٹر یا سرکاری حکم کے تحت نہیں نکالا گیا، یہ درست ہے کہ غیرآئینی قانون سازی میں ملازمین کا کوئی کردار نہیں تھا، بحالی کا قانون دوبارہ نہیں بن سکتا کیونکہ عدالتی فیصلہ آ چکا ہے، پارلیمنٹ دس سال سروس پر ملازمین کو کوئی ریلیف دینا چاہے تو دے سکتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہاپارلیمان حکومت اور میرے ذریعے ایکٹ کا دفاع کر رہی ہے۔

جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کیا آئین سے بڑھ کر کوئی گورننس سسٹم ہو سکتا ہے؟حکومت نے پہلے ملازمین کی بحالی کی مخالفت کی تھی، اب نظرثانی کیس میں حکومت ملازمین کو بحال کرنا چاہ رہی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا ایک برطرف ملازم کی تین بیٹیاں فیس نہ ہونے پر سکول سے نکالی گئیں، کونسی حکومت چاہے گی کہ لوگ اس حال کو پہنچیں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا عدالت سنگدل نہیں ہوتی، معلوم ہے کسی گھر کا چولہا بند ہوجائے تو وہاں کیا حالت ہوگی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ معلوم ہے عدالت مقبولیت نہیں قانون پر مبنی فیصلے کرتی ہے، اگر 2010 میں یہی کیس آتا تو ملازمین کی بحالی کی مخالفت کرتا، جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاآپ تسلیم کر رہے ہیں کہ بحالی کا قانون غیرآئینی ہے، آپ کو مسئلہ صرف ملازمین کی عمر اور دس سال کی سروس سے ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا یہ کہنا درست نہیں کہ عدالتی فیصلہ آرڈیننس کے تحت بحال افراد پر لاگو نہیں ہوتا، آرڈیننس کی مدت زیادہ سے زیادہ 240 دن ہوتی ہے، چیئرمین نیب کے کام جاری رکھنے پر بھی آرڈیننس آیا ہے، نیب آرڈیننس کے تحت چیئرمین کو ہمیشہ کیلئے عہدے پر رکھنا آئین اور پارلیمان کی توہین ہوگی، گزشتہ سماعت پر کہا گیا حکومت آرڈیننس پر چل رہی ہے، جتنے آرڈیننس 2010 میں آئے اتنے پہلے کبھی آئے نہ بعد میں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہاآرڈیننس کی توثیق نہ ہو تو اسکے تحت ہونے والے اقدامات کی کیا حیثیت ہوگی؟


اٹارنی جنرل نے کہا آرڈیننس کی معیاد میں ہی ریلیف مل سکتا ہے اس کے بعد نہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا حکومت تجاویز دے ملازمین کو کیا ریلیف مل سکتا ہے، جن ملازمین نے دس سال سروس کی انہیں ریلیف دینا حکومت کا کام ہے، جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کالعدم قرار دیا گیا قانون بحال نہیں ہوگا، حکومت تعین کرے کیا ریلیف مل سکتا ہے، عدالت اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کر سکتی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ملازمین کے دوبارہ ٹیسٹ اور انٹرویو کر لیں، کسی طریقہ کار نے بغیر بحالی اور تعیناتیاں کیسے ہو سکتی ہیں۔ مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔

عدالت نے شریف خاندان کی شوگر ملز کی منتقلی سے متعلق کیس میں حمزہ شوگر ملز اور جے ڈی ڈبلیو شوگر مل کو فریق بنانے کی اجازت دیدی۔ دوران سماعت عدالت نے شریف خاندان کے وکیل خواجہ طارق رحیم کی سرزنش کیاور ریمارکس دیئے کہ پنجاب حکومت کو اپیل پر پہلے بات کرنے دیں، کیا وکیل ہمیں بتائے گا کیس کا کیسے چلانا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ طاقتور ایلیٹ نے اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے کاٹن کی پیداوار کی حوصلہ شکنی کی۔ جسٹس سردار طارق کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ننکانہ صاحب کے توہین رسالت کیس میں ٹرائل کورٹ کو طارق نقاش اور دیگر ملزموں کیخلاف حتمی فیصلہ سنانے سے روکتے ہوئے تفتیشی آفیسر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا جبکہ توہین رسالت کی شکایت دائر کرنے والے شہریوں کو نوٹسز جاری کر دیے۔

درخواست گزار نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ موجودہ مقدمے سے توہین رسالت کی دفعات ہٹانے کا حکم دے۔

 
Load Next Story