چھپے رستم
پاکستانی کمانڈوز نے محل پر متعین بھارتی فوج کے افسران اور سپاہیوں کا خاتمہ کیا۔
انگریزی زبان کے مشہور اور معروف شاعر سر والٹرا سکاٹ نے حب الوطنی کے حوالے سے کیا خوب کہا ہے:
Breathes there the man with soul so dead, Who never to
himself hath said, This is my own, my native land
وہ آدمی کس قدر مردہ دل ہے جس کے منہ سے کبھی بھی یہ بات نہ نکلی ہو کہ یہ سرزمین وطن میری اپنی دھرتی ہے۔ اردو کے ایک ممتاز شاعر حامد اللہ افسر میرٹھی نے اِسی بات کو اپنے اِس شعر میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ اِن الفاظ میں ڈھالا ہے۔
پھولوں سے بھی سِوا ہے کانٹا مرے وطن کا
ہے آفتاب مجھ کو ذرہ مرے وطن کا
بلاشبہ جس انسان کو اپنے وطن سے محبت نہ ہو اُسے زندہ سمجھنا سراسر غلط ہے۔ پاکستان کے مختلف شعرائے کرام نے اپنے اپنے انداز میں اپنی مادرِ وطن کو خوب خوب خراجِ عقیدت و تحسین پیش کیا ہے جب کہ وطن عزیز کے محنت کش عوام اپنی سرزمین کی اپنے خون پسینے سے آبیاری کرنے میں صبح سے شام تک مصروف رہتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے بعض سیاسی قائدین نے اپنے اپنے دورحکمرانی میں مادر وطن کو مالِ غنیمت سمجھ کر بُری طرح لوٹ کر کنگال کردیا ہے جس کی سزا بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کی صورت میں بے چارے عوام کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔
دراصل قدرتی وسائل سے مالا مال اِس ملک کی پسماندگی اور معاشی بد حالی کا بنیادی سبب بھی یہی ہے۔ ہمارے وطن کی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اِس گودام میں رکھی ہوئی اجناس کو چپکے چپکے چوہے کھا رہے ہیں اور انھیں پکڑنے والا کوئی نہیں۔ یہ چوہے اب بری طرح پریشان ہو رہے ہیں کیونکہ اب اُن کی پکڑ دھکڑ کا وقت آن پہنچا ہے اور اِن کے دن گِنے جا چکے ہیں۔
انھیں معلوم ہو گیا ہے کہ اب اِن کا حساب چکانے کا وقت سر پر آ پہنچا۔ قوم کے اصل خیر خواہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے وقت پڑنے پر وطن عزیز کی بے لوث خدمت کی ہے اور جنھیں صلہ یا ستائش کی کوئی تمنا بھی نہیں تھی۔ سیٹھ عابد (مرحوم) اور عبداللہ بھٹی (مرحوم) جیسے لوگوں کا شمار بھی اِسی قبیل میں ہوتا ہے۔ دراصل یہ لوگ چُھپے رستم کہلانے کے لائق ہیں۔
یہ ستمبر 1948 کی بات ہے جب ہندوستان نے ریاست جونا گڑھ پر یہ کہہ کر قبضہ کرلیا کہ ریاست کا حکمران (نواب مہابت خان) لاکھ مسلمان سہی مگر ریاستی عوام کی اکثریت تو ہندو ہے جب کہ اس استعماری ریاست نے جموں و کشمیر پر قبضہ کرلیا خیر قصہ مختصر یہ کہ جونا گڑھ پر بھارتی قبضہ کے بعد نواب مہابت خان بروقت تمام اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی جان بچا کر اور مختصر ضروری سامان لے کر کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے یہاں انھوں نے اُس وقت کے دارالحکومت کراچی کے مشہور علاقے کھارادر میں قیام کیا یہ وہی علاقہ ہے جہاں کی ایک سڑک پر وزیر مینشن نام کی وہ سہ منزلہ عمارت واقع ہے، جسے قائد اعظم کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
نواب صاحب اپنے سرکاری خزانے میں 48 من سونا چھوڑ آئے تھے اور وہ ایسی جگہ پر محفوظ تھا جس کا علم نواب صاحب کے سوا کسی کو نہیں تھا اگر ہندوستانی افواج پورا محل بھی کھود کر پھینک دیتیں تو انھیں سونا نہ ملتا نواب صاحب کی خواہش یہ تھی کہ وہ سونا کِسی طرح پاکستان لایا جاسکے تو وہ اُس کا نصف حصہ سرکار پاکستان کے خزانہ میں جمع کرا دیں گے۔
اِس امر سے تو ہر ذی علم واقف ہے کہ اُن دِنوں پاکستان انتہائی بحران کا شکار تھا اگر چند محب وطن لوگ اس نوزائیدہ ملک کی مدد نہ کرتے تو خاکم بدہن چند ماہ کے اندر ہی اس کا وجود ختم ہوسکتا تھا۔ نواب صاحب خلوص دل کے ساتھ پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے تھے اگر وہ 24 من سونا پاکستان کے خزانے میں جمع کرا دیتے تو ملکی معیشت خاصی بہتر ہوسکتی تھی مگر سوال یہ تھا کہ اُسے لایا کس طرح جائے اور کون لے کر آئے؟
ہندوستان جیسا ملک شرافت کے ساتھ تو ریاست کی امانت اُس کے حکمران کے حوالے نہ کرتا اب تو ایک ہی صورت باقی بچی تھی غیر قانونی ذریعہ مگر حقیقتاً سونے کو خفیہ طریقے سے پاکستان منتقل کرنا ہندوستان کی نظر میں تو غیر قانونی ہوسکتا تھا مگر پاکستان یا نواب مہابت خان کے لیے نہیں کیونکہ یہ زر کثیر نواب صاحب کی ملکیت تھا۔ اب کردار شروع ہوتا ہے کھوٹے سکے کا وہ تھے اُس دور کا مشہور اسمگلر حاجی عبد اللہ بھٹی جو سمندر پار بستی صالح آباد میں رہائش پذیر تھے۔ یہ بستی کراچی کی بندرگاہ کیماڑی سے تقریباً دس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ عبداللہ بھٹی اُس وقت اَسی برس کے تھے اور اپنا پیشہ ترک کرکے یاد الہی میں مصروف تھے۔
نواب مہابت خان کو جب اِس بارے میں علم ہوا تو انھوں نے پاکستان کی ایک نہایت قابلِ احترام اور اعلی ترین شخصیت سے درخواست کی کہ وہ اپنے اثر و رسوخ سے عبد اللہ بھٹی کو اِس بات پر راضی کرلیں کہ وہ کسی بھی صورت اُن کا سونا جونا گڑھ کے خزانے سے نکال لائے اس محترم ہستی نے عبد اللہ بھٹی کو اپنے روبرو طلب کرکے ملک و قوم کی خاطر یہ کام کرنے پر آمادہ کرلیا۔ جونا گڑھ سمندر کے راستے کراچی سے تین سو میل دور ہے۔
عظیم شخصیت کے حکم پر بوڑھے مگر پر عزم عبد اللہ بھٹی اپنے بیٹوں قاسم بھٹی اور عبد الرحمن بھٹی کو ساتھ لیکر تیز رفتار لانچوں کے ذریعہ جونا گڑھ روانہ ہوگئے۔ پاکستانی فوج کے چند کمانڈوز بھی اُن کے ساتھ تھے۔ اِن لوگوں نے ایک بجے دوپہر کو بحری سفر شروع کیا اور خفیہ راستوں سے ہوتے ہوئے جونا گڑھ کے ساحل پر پہنچ گئے۔ اُس وقت شب کے10بجے تھے۔
شاہی محل ساحل سمندر سے کچھ زیادہ دور نہ تھا۔ پاکستانی کمانڈوز نے محل پر متعین بھارتی فوج کے افسران اور سپاہیوں کا خاتمہ کیا اب دیکھئے اسمگلر کا حسن کردار جب اُنہوں نے انتہائی اعلی شخصیت کی موجودگی میں 48 من سونا نواب مہابت خان کو پیش کیا تو جہاں نواب صاحب نے حسب وعدہ 24 من سونا حکومت پاکستان کی نذر کیا، وہیں اپنے حصے میں آنے والے 24 من سونے میں سے 4 من سونا حاجی عبد اللہ بھٹی کو بطور اِنعام پیش کیا۔حاجی عبد اللہ بھٹی نے یہ سونا لینے سے انکار کر دیا اور زار و قطار روتے ہوئے بولے ''بابا''میں نے ساری زندگی اسمگلنگ کی مگر وہ انگریز کا زمانہ تھا اب میں نے اسمگلنگ نہیں کی بلکہ پاکستان کا حق حاصل کیا ہے۔ میں اسمگلر ضرور ہوں مگر مادر وطن کی دولت نہیں لوٹوں گا پھر دوبارہ رونے لگے۔
کچھ دیر بعد خاموش ہوئے اور سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے میں یہ چار من سونا بھی حکومت پاکستان کے خزانے کے لیے پیش کرتا ہوں اِس کے علاوہ میرے پاس ذاتی 3 من سونا ہے جو اِس مقدس دیس کی نذر ہے پھر اُس عظیم ہستی اور نواب مہابت خان کے آنسو بھی نہ رک سکے لیکن یہ خوشی کے آنسو تھے۔ فخر و انبساط کے آنسو اور ایک ہمارے اِس دور کے کھوٹے نہیں بلکہ گندے سکے ہیں جو پاکستان کی دولت کو لوٹ کر دوسرے ملکوں میں لے گئے مگر نہ شرم ہے نہ حیا تو اُن کو کیا نام دیاجائے ۔
Breathes there the man with soul so dead, Who never to
himself hath said, This is my own, my native land
وہ آدمی کس قدر مردہ دل ہے جس کے منہ سے کبھی بھی یہ بات نہ نکلی ہو کہ یہ سرزمین وطن میری اپنی دھرتی ہے۔ اردو کے ایک ممتاز شاعر حامد اللہ افسر میرٹھی نے اِسی بات کو اپنے اِس شعر میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ اِن الفاظ میں ڈھالا ہے۔
پھولوں سے بھی سِوا ہے کانٹا مرے وطن کا
ہے آفتاب مجھ کو ذرہ مرے وطن کا
بلاشبہ جس انسان کو اپنے وطن سے محبت نہ ہو اُسے زندہ سمجھنا سراسر غلط ہے۔ پاکستان کے مختلف شعرائے کرام نے اپنے اپنے انداز میں اپنی مادرِ وطن کو خوب خوب خراجِ عقیدت و تحسین پیش کیا ہے جب کہ وطن عزیز کے محنت کش عوام اپنی سرزمین کی اپنے خون پسینے سے آبیاری کرنے میں صبح سے شام تک مصروف رہتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے بعض سیاسی قائدین نے اپنے اپنے دورحکمرانی میں مادر وطن کو مالِ غنیمت سمجھ کر بُری طرح لوٹ کر کنگال کردیا ہے جس کی سزا بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کی صورت میں بے چارے عوام کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔
دراصل قدرتی وسائل سے مالا مال اِس ملک کی پسماندگی اور معاشی بد حالی کا بنیادی سبب بھی یہی ہے۔ ہمارے وطن کی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اِس گودام میں رکھی ہوئی اجناس کو چپکے چپکے چوہے کھا رہے ہیں اور انھیں پکڑنے والا کوئی نہیں۔ یہ چوہے اب بری طرح پریشان ہو رہے ہیں کیونکہ اب اُن کی پکڑ دھکڑ کا وقت آن پہنچا ہے اور اِن کے دن گِنے جا چکے ہیں۔
انھیں معلوم ہو گیا ہے کہ اب اِن کا حساب چکانے کا وقت سر پر آ پہنچا۔ قوم کے اصل خیر خواہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے وقت پڑنے پر وطن عزیز کی بے لوث خدمت کی ہے اور جنھیں صلہ یا ستائش کی کوئی تمنا بھی نہیں تھی۔ سیٹھ عابد (مرحوم) اور عبداللہ بھٹی (مرحوم) جیسے لوگوں کا شمار بھی اِسی قبیل میں ہوتا ہے۔ دراصل یہ لوگ چُھپے رستم کہلانے کے لائق ہیں۔
یہ ستمبر 1948 کی بات ہے جب ہندوستان نے ریاست جونا گڑھ پر یہ کہہ کر قبضہ کرلیا کہ ریاست کا حکمران (نواب مہابت خان) لاکھ مسلمان سہی مگر ریاستی عوام کی اکثریت تو ہندو ہے جب کہ اس استعماری ریاست نے جموں و کشمیر پر قبضہ کرلیا خیر قصہ مختصر یہ کہ جونا گڑھ پر بھارتی قبضہ کے بعد نواب مہابت خان بروقت تمام اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی جان بچا کر اور مختصر ضروری سامان لے کر کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے یہاں انھوں نے اُس وقت کے دارالحکومت کراچی کے مشہور علاقے کھارادر میں قیام کیا یہ وہی علاقہ ہے جہاں کی ایک سڑک پر وزیر مینشن نام کی وہ سہ منزلہ عمارت واقع ہے، جسے قائد اعظم کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
نواب صاحب اپنے سرکاری خزانے میں 48 من سونا چھوڑ آئے تھے اور وہ ایسی جگہ پر محفوظ تھا جس کا علم نواب صاحب کے سوا کسی کو نہیں تھا اگر ہندوستانی افواج پورا محل بھی کھود کر پھینک دیتیں تو انھیں سونا نہ ملتا نواب صاحب کی خواہش یہ تھی کہ وہ سونا کِسی طرح پاکستان لایا جاسکے تو وہ اُس کا نصف حصہ سرکار پاکستان کے خزانہ میں جمع کرا دیں گے۔
اِس امر سے تو ہر ذی علم واقف ہے کہ اُن دِنوں پاکستان انتہائی بحران کا شکار تھا اگر چند محب وطن لوگ اس نوزائیدہ ملک کی مدد نہ کرتے تو خاکم بدہن چند ماہ کے اندر ہی اس کا وجود ختم ہوسکتا تھا۔ نواب صاحب خلوص دل کے ساتھ پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے تھے اگر وہ 24 من سونا پاکستان کے خزانے میں جمع کرا دیتے تو ملکی معیشت خاصی بہتر ہوسکتی تھی مگر سوال یہ تھا کہ اُسے لایا کس طرح جائے اور کون لے کر آئے؟
ہندوستان جیسا ملک شرافت کے ساتھ تو ریاست کی امانت اُس کے حکمران کے حوالے نہ کرتا اب تو ایک ہی صورت باقی بچی تھی غیر قانونی ذریعہ مگر حقیقتاً سونے کو خفیہ طریقے سے پاکستان منتقل کرنا ہندوستان کی نظر میں تو غیر قانونی ہوسکتا تھا مگر پاکستان یا نواب مہابت خان کے لیے نہیں کیونکہ یہ زر کثیر نواب صاحب کی ملکیت تھا۔ اب کردار شروع ہوتا ہے کھوٹے سکے کا وہ تھے اُس دور کا مشہور اسمگلر حاجی عبد اللہ بھٹی جو سمندر پار بستی صالح آباد میں رہائش پذیر تھے۔ یہ بستی کراچی کی بندرگاہ کیماڑی سے تقریباً دس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ عبداللہ بھٹی اُس وقت اَسی برس کے تھے اور اپنا پیشہ ترک کرکے یاد الہی میں مصروف تھے۔
نواب مہابت خان کو جب اِس بارے میں علم ہوا تو انھوں نے پاکستان کی ایک نہایت قابلِ احترام اور اعلی ترین شخصیت سے درخواست کی کہ وہ اپنے اثر و رسوخ سے عبد اللہ بھٹی کو اِس بات پر راضی کرلیں کہ وہ کسی بھی صورت اُن کا سونا جونا گڑھ کے خزانے سے نکال لائے اس محترم ہستی نے عبد اللہ بھٹی کو اپنے روبرو طلب کرکے ملک و قوم کی خاطر یہ کام کرنے پر آمادہ کرلیا۔ جونا گڑھ سمندر کے راستے کراچی سے تین سو میل دور ہے۔
عظیم شخصیت کے حکم پر بوڑھے مگر پر عزم عبد اللہ بھٹی اپنے بیٹوں قاسم بھٹی اور عبد الرحمن بھٹی کو ساتھ لیکر تیز رفتار لانچوں کے ذریعہ جونا گڑھ روانہ ہوگئے۔ پاکستانی فوج کے چند کمانڈوز بھی اُن کے ساتھ تھے۔ اِن لوگوں نے ایک بجے دوپہر کو بحری سفر شروع کیا اور خفیہ راستوں سے ہوتے ہوئے جونا گڑھ کے ساحل پر پہنچ گئے۔ اُس وقت شب کے10بجے تھے۔
شاہی محل ساحل سمندر سے کچھ زیادہ دور نہ تھا۔ پاکستانی کمانڈوز نے محل پر متعین بھارتی فوج کے افسران اور سپاہیوں کا خاتمہ کیا اب دیکھئے اسمگلر کا حسن کردار جب اُنہوں نے انتہائی اعلی شخصیت کی موجودگی میں 48 من سونا نواب مہابت خان کو پیش کیا تو جہاں نواب صاحب نے حسب وعدہ 24 من سونا حکومت پاکستان کی نذر کیا، وہیں اپنے حصے میں آنے والے 24 من سونے میں سے 4 من سونا حاجی عبد اللہ بھٹی کو بطور اِنعام پیش کیا۔حاجی عبد اللہ بھٹی نے یہ سونا لینے سے انکار کر دیا اور زار و قطار روتے ہوئے بولے ''بابا''میں نے ساری زندگی اسمگلنگ کی مگر وہ انگریز کا زمانہ تھا اب میں نے اسمگلنگ نہیں کی بلکہ پاکستان کا حق حاصل کیا ہے۔ میں اسمگلر ضرور ہوں مگر مادر وطن کی دولت نہیں لوٹوں گا پھر دوبارہ رونے لگے۔
کچھ دیر بعد خاموش ہوئے اور سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے میں یہ چار من سونا بھی حکومت پاکستان کے خزانے کے لیے پیش کرتا ہوں اِس کے علاوہ میرے پاس ذاتی 3 من سونا ہے جو اِس مقدس دیس کی نذر ہے پھر اُس عظیم ہستی اور نواب مہابت خان کے آنسو بھی نہ رک سکے لیکن یہ خوشی کے آنسو تھے۔ فخر و انبساط کے آنسو اور ایک ہمارے اِس دور کے کھوٹے نہیں بلکہ گندے سکے ہیں جو پاکستان کی دولت کو لوٹ کر دوسرے ملکوں میں لے گئے مگر نہ شرم ہے نہ حیا تو اُن کو کیا نام دیاجائے ۔