شکریہ سری لنکا شکریہ کالنی
جو ہوا اس کے لیے ہم آپ سے شرمندہ ہیں، بس محبتوں کے لین دین کو اس آگ میں جلنے مت دیجئے گا
LOS ANGELES:
پریانتھا کی میت اتنی ہی بھاری تھی جتنی کسی بہت اپنے کی ہوتی ہے۔ اسے رخصت کرتے ہوئے آنکھیں نم بھی تھیں اور دل میں شور بھی تھا کہ تعلق 'خون' یا 'مذہب' کی بنا پر نہیں بلکہ مضبوط تعلق ''انسانیت'' کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ پریانتھا کی والدہ کی تصویر نے رنجیدہ تو کیا مگر شرمندہ زیادہ کیا۔
مجھے سری لنکا کا اتنا ہی پتہ تھا جتنا کسی دور گاؤں میں رہنے والا شخص شہر کے بارے سنتا اور سوچتا ہے یا شاید اس سے بھی کم۔ پھر 2019 میں صحافت کی ایک ٹریننگ میں ہم 16 صحافی ایشیا کے 16 ممالک سے سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی میں جمع ہوئے۔ ہم جو مختلف مذاہب، مختلف ثقافت، رہن سہن اور لباس کے عادی تھے، ایک دوسرے کے ساتھ فلیٹ شیئر کرنے لگے۔ یہ تجربہ مشکل تھا۔ مجھے فلیٹ سری لنکا اور منگولیا کی صحافی خواتین کے ساتھ شیئر کرنا تھا۔ میں ڈری ہوئی تھی۔ اس لیے کہ میں مسلمان تھی۔ میرے لیے اہم یہ تھا کہ یہ سب مسلمانوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ یقیناً یہ خوف بلاوجہ نہیں تھا۔ کچھ سال پہلے سری لنکا میں عیسائیوں پر ہونے والے بم دھماکے، مسلمانوں کے حوالے سے نفرت کی فضا بنانے میں بہت کامیاب رہے تھے۔
کالنی، سری لنکا کے ایک مشہور ادارے میں کانٹینٹ ایڈیٹر ہے۔ وہ بم دھماکوں کو بھی کور کرچکی تھی۔ ہم ساتھ رہتے، ساتھ کھاتے، پکاتے اور باہر جاتے تھے۔ غیر محسوس طور پر ہمارے خوف ایک جیسے تھے، جو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوئے۔ مجھے بچے یاد آتے تھے تو انہوں نے مجھے ''ماما'' بلانا شروع کردیا کہ میں اداس نہ رہوں۔ ہم مسلمان جو کچھ نہیں کھاتے، میری فلیٹ میٹس نے وہ لانا اور فریج میں رکھنا چھوڑ دیا۔ وہ میرے عقائد کا بہت احترام کرتے تھے، باوجود اس کے کہ وہاں میں ''اقلیت'' میں تھی۔ مجھے یہ سب پروگرام کے اختتام پر معلوم ہوا اور تب ان کےلیے محبت، احترام اور عقیدت نے خوف کی جگہ لے لی۔ ہم نے ایک ساتھ اتنا بہترین وقت گزارا کہ یہ تعلق ہر لمحہ تروتازہ لگتا ہے۔
پریانتھا واقعے کے بعد میں سری لنکن قوم سے تو شرمندہ تھی مگر مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ''کالنی'' سے سوری کیسے کہوں؟ میں نے سوچا وہ مجھ سے کچھ نہ بھی کہے تب بھی میں اس کی خاموشی کا سامنا بھی نہیں کرپاؤں گی۔
جانتے ہیں، انسان کے دل میں اپنے لیے محبت و عقیدت کی جگہ بنانا اس دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ مگر ہم سمجھتے ہیں عبادت میں سر جھکا لینے سے اللہ مل جاتا ہے۔ اللہ کا گھر بھی تو انسان کا دل ہے ناں؟
شکریہ سری لنکا، شکریہ پریانتھا کے بھیا۔
آپ نے ہمارے دلوں میں موجود وسوسوں کو پھر سے محبت کی شمع سے بدل دیا۔ پریانتھا کے بھائی کا یہ کہنا کہ وہ پریانتھا کی جگہ پاکستان میں آکر کام کرنے کےلیے تیار ہیں، صرف جملہ نہیں بلکہ یہ وہ پل ہے جو محبتوں کی تجارت کو ختم نہیں ہونے دے گا۔ سری لنکا کا یہ کہنا کہ ''ہماری خواتین بھی پاکستان میں جاکر کام کرنے کےلیے تیار ہیں'' پاکستانی قوم کےلیے ایسا ہے گویا مرتے ہوئے مریض کو وینٹی لیٹر سے اتار دیا جائے کہ وہ خود سے سانس لینے کے قابل ہوجائے۔
ہم نے خود کو بہت سال مذہبی جنونیت میں جلتے دیکھا ہے، مگر اب نہیں۔ مجھے کالنی عزیز ہے، مجھے پریانتھا بھی عزیز ہے، مجھے پریانتھا کے خاندان کا ہر فرد عزیز ہے۔ آپ پاکستان آئیے۔ یہ آپ کا دوسرا گھر ہے۔ ہم سب اپنی جان پر کھیل کر آپ کی جانوں کی حفاظت کریں گے۔ ہم میں برے لوگ بھی ہوسکتے ہیں لیکن ہم میں اچھے لوگ زیادہ ہیں۔ ہم آپ کی عبادت گاہوں کو آپ کےلیے محفوظ بنائیں گے۔ ہم آپ سے شرمندہ ہیں جو ہوا اس کےلیے۔ بس محبتوں کے لین دین کو اس آگ میں جلنے مت دیجئے گا۔ ہم سب آپ سے بہت محبت کرتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پریانتھا کی میت اتنی ہی بھاری تھی جتنی کسی بہت اپنے کی ہوتی ہے۔ اسے رخصت کرتے ہوئے آنکھیں نم بھی تھیں اور دل میں شور بھی تھا کہ تعلق 'خون' یا 'مذہب' کی بنا پر نہیں بلکہ مضبوط تعلق ''انسانیت'' کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ پریانتھا کی والدہ کی تصویر نے رنجیدہ تو کیا مگر شرمندہ زیادہ کیا۔
مجھے سری لنکا کا اتنا ہی پتہ تھا جتنا کسی دور گاؤں میں رہنے والا شخص شہر کے بارے سنتا اور سوچتا ہے یا شاید اس سے بھی کم۔ پھر 2019 میں صحافت کی ایک ٹریننگ میں ہم 16 صحافی ایشیا کے 16 ممالک سے سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی میں جمع ہوئے۔ ہم جو مختلف مذاہب، مختلف ثقافت، رہن سہن اور لباس کے عادی تھے، ایک دوسرے کے ساتھ فلیٹ شیئر کرنے لگے۔ یہ تجربہ مشکل تھا۔ مجھے فلیٹ سری لنکا اور منگولیا کی صحافی خواتین کے ساتھ شیئر کرنا تھا۔ میں ڈری ہوئی تھی۔ اس لیے کہ میں مسلمان تھی۔ میرے لیے اہم یہ تھا کہ یہ سب مسلمانوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ یقیناً یہ خوف بلاوجہ نہیں تھا۔ کچھ سال پہلے سری لنکا میں عیسائیوں پر ہونے والے بم دھماکے، مسلمانوں کے حوالے سے نفرت کی فضا بنانے میں بہت کامیاب رہے تھے۔
کالنی، سری لنکا کے ایک مشہور ادارے میں کانٹینٹ ایڈیٹر ہے۔ وہ بم دھماکوں کو بھی کور کرچکی تھی۔ ہم ساتھ رہتے، ساتھ کھاتے، پکاتے اور باہر جاتے تھے۔ غیر محسوس طور پر ہمارے خوف ایک جیسے تھے، جو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوئے۔ مجھے بچے یاد آتے تھے تو انہوں نے مجھے ''ماما'' بلانا شروع کردیا کہ میں اداس نہ رہوں۔ ہم مسلمان جو کچھ نہیں کھاتے، میری فلیٹ میٹس نے وہ لانا اور فریج میں رکھنا چھوڑ دیا۔ وہ میرے عقائد کا بہت احترام کرتے تھے، باوجود اس کے کہ وہاں میں ''اقلیت'' میں تھی۔ مجھے یہ سب پروگرام کے اختتام پر معلوم ہوا اور تب ان کےلیے محبت، احترام اور عقیدت نے خوف کی جگہ لے لی۔ ہم نے ایک ساتھ اتنا بہترین وقت گزارا کہ یہ تعلق ہر لمحہ تروتازہ لگتا ہے۔
پریانتھا واقعے کے بعد میں سری لنکن قوم سے تو شرمندہ تھی مگر مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ''کالنی'' سے سوری کیسے کہوں؟ میں نے سوچا وہ مجھ سے کچھ نہ بھی کہے تب بھی میں اس کی خاموشی کا سامنا بھی نہیں کرپاؤں گی۔
جانتے ہیں، انسان کے دل میں اپنے لیے محبت و عقیدت کی جگہ بنانا اس دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ مگر ہم سمجھتے ہیں عبادت میں سر جھکا لینے سے اللہ مل جاتا ہے۔ اللہ کا گھر بھی تو انسان کا دل ہے ناں؟
شکریہ سری لنکا، شکریہ پریانتھا کے بھیا۔
آپ نے ہمارے دلوں میں موجود وسوسوں کو پھر سے محبت کی شمع سے بدل دیا۔ پریانتھا کے بھائی کا یہ کہنا کہ وہ پریانتھا کی جگہ پاکستان میں آکر کام کرنے کےلیے تیار ہیں، صرف جملہ نہیں بلکہ یہ وہ پل ہے جو محبتوں کی تجارت کو ختم نہیں ہونے دے گا۔ سری لنکا کا یہ کہنا کہ ''ہماری خواتین بھی پاکستان میں جاکر کام کرنے کےلیے تیار ہیں'' پاکستانی قوم کےلیے ایسا ہے گویا مرتے ہوئے مریض کو وینٹی لیٹر سے اتار دیا جائے کہ وہ خود سے سانس لینے کے قابل ہوجائے۔
ہم نے خود کو بہت سال مذہبی جنونیت میں جلتے دیکھا ہے، مگر اب نہیں۔ مجھے کالنی عزیز ہے، مجھے پریانتھا بھی عزیز ہے، مجھے پریانتھا کے خاندان کا ہر فرد عزیز ہے۔ آپ پاکستان آئیے۔ یہ آپ کا دوسرا گھر ہے۔ ہم سب اپنی جان پر کھیل کر آپ کی جانوں کی حفاظت کریں گے۔ ہم میں برے لوگ بھی ہوسکتے ہیں لیکن ہم میں اچھے لوگ زیادہ ہیں۔ ہم آپ کی عبادت گاہوں کو آپ کےلیے محفوظ بنائیں گے۔ ہم آپ سے شرمندہ ہیں جو ہوا اس کےلیے۔ بس محبتوں کے لین دین کو اس آگ میں جلنے مت دیجئے گا۔ ہم سب آپ سے بہت محبت کرتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔