اب فضا میں موجود ڈی این اے سے حشرات کی اقسام کا اندازہ لگانا ممکن
ماحولیاتی ڈی این اے کی شناخت کے لیے پہلے ہوا کو اندر کھینچا جاتا ہے اور اس کے بعد ڈی این اے کا تجزیہ کیا جاتا ہے
KARACHI/LAHORE:
اگرچہ پانی کے اندر موجود ڈی این اے کو دیکھ کر وہاں موجود جانداروں اور پودوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن اب ہوا کے ذریعے فضا میں اڑنے والے کیڑوں اور پتنگوں کو شناخت کرنے کا ایک دلچسپ آلہ بنایا گیا ہے۔
حالیہ دور میں ماحول سے ڈی این اے کشید کرنے والے کئی نظام بنائے گئے ہیں اور اسے ماحولیاتی یا ای ڈی این اے کہا جاتا ہے۔ پانی میں جانوروں کے فضلے، اتری ہوئی جلد اور دیگر حیاتیاتی مادے سے ڈی این اے نکال کر ان کی شناخت کی جاتی ہے یہاں تک کہ آثارِ قدیمہ کے غاروں سے قدیم انسانوں کے ڈی این اے کے آثار بھی نکالے گئے ہیں لیکن اب پہلی مرتبہ ہوا سے ڈی این اے نکالنے کا عملی مظاہرہ کیا گیا ہے۔
اب لیونڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فیبیان راجر نے سویڈن کے تین مقامات سے ہوا کےنمونے جمع کئے اور فضا میں اڑنے والے 85 حشرات اور کیڑوں کو کامیابی سے شناخت کیا۔ ان میں پتنگے، مچھر، چیونٹیاں، بھڑ، بھنورے اور مکھیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ پرندوں اور ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کے آثار بھی ملے ہیں۔
اس طرح وہ حشرات اور جاندار بھی شناخت کئے جاسکتے ہیں جو سروے کے دیگر طریقوں سے اوجھل رہ سکتے ہیں لیکن اس کا استعمال بھی اپنی حدود رکھتا ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ہوا سے ڈی این اے نکالنے والی ٹیکنالوجی کو روایتی سروے کے ساتھ استعمال کیا جائے تو بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔
اگرچہ پانی کے اندر موجود ڈی این اے کو دیکھ کر وہاں موجود جانداروں اور پودوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن اب ہوا کے ذریعے فضا میں اڑنے والے کیڑوں اور پتنگوں کو شناخت کرنے کا ایک دلچسپ آلہ بنایا گیا ہے۔
حالیہ دور میں ماحول سے ڈی این اے کشید کرنے والے کئی نظام بنائے گئے ہیں اور اسے ماحولیاتی یا ای ڈی این اے کہا جاتا ہے۔ پانی میں جانوروں کے فضلے، اتری ہوئی جلد اور دیگر حیاتیاتی مادے سے ڈی این اے نکال کر ان کی شناخت کی جاتی ہے یہاں تک کہ آثارِ قدیمہ کے غاروں سے قدیم انسانوں کے ڈی این اے کے آثار بھی نکالے گئے ہیں لیکن اب پہلی مرتبہ ہوا سے ڈی این اے نکالنے کا عملی مظاہرہ کیا گیا ہے۔
اب لیونڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فیبیان راجر نے سویڈن کے تین مقامات سے ہوا کےنمونے جمع کئے اور فضا میں اڑنے والے 85 حشرات اور کیڑوں کو کامیابی سے شناخت کیا۔ ان میں پتنگے، مچھر، چیونٹیاں، بھڑ، بھنورے اور مکھیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ پرندوں اور ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کے آثار بھی ملے ہیں۔
اس طرح وہ حشرات اور جاندار بھی شناخت کئے جاسکتے ہیں جو سروے کے دیگر طریقوں سے اوجھل رہ سکتے ہیں لیکن اس کا استعمال بھی اپنی حدود رکھتا ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ہوا سے ڈی این اے نکالنے والی ٹیکنالوجی کو روایتی سروے کے ساتھ استعمال کیا جائے تو بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔