ریاست اور حکومت

غریب ممالک میں وسائل کی کمی غربت کا سبب نہیں ہے بلکہ قانون کی حکمرانی سے ہی معاشرے میں میرٹ اور تہذیب پروان چڑھتی ہے۔

غریب ممالک میں وسائل کی کمی غربت کا سبب نہیں ہے بلکہ قانون کی حکمرانی سے ہی معاشرے میں میرٹ اور تہذیب پروان چڑھتی ہے۔ فوٹو: فائل

OKARA:
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ قانون کی حکمرانی نہ ہو تو انتخابات میں طاقتور، وار لارڈز اور جرائم پیشہ افراد آگے آ جاتے ہیں، ترقی پذیر ممالک کے پیچھے رہ جانے کی وجہ کرپشن اور اشرافیہ کی بدعنوانی ہے۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا، ناکامی کا ملبہ بھی ہمارے اوپر ہی ڈال دیا گیا، ہمارے ملک میں اردو میڈیم، انگلش میڈیم اور دینی مدارس کی تعلیم 3 طرح کے نظام چل رہے ہیں، غیر مساوی ترقی انتشار کا سبب بنتی ہے، ہمیں تھنک ٹینکس کے ذریعے اپنا صحیح تشخص اور حقیقی نکتہ نظر دنیا پر واضح کرنا چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ قوموں کے درمیان فرق ہی قانون کی حکمرانی کا ہے۔

غریب ممالک میں وسائل کی کمی غربت کا سبب نہیں ہے بلکہ قانون کی حکمرانی سے ہی معاشرے میں میرٹ اور تہذیب پروان چڑھتی ہے، جمہوریت وہیں مستحکم ہوتی ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہو۔ اگر قانون کی حکمرانی نہ ہو تو انتخابات میں طاقتور، وار لارڈز اور جرائم پیشہ افراد آگے آجاتے ہیں، قانون کی حکمرانی اس طرح کے جرائم پیشہ افراد کو آگے آنے سے روکتی ہے۔

وزیر اعظم نے قانون کی حکمرانی کے دفاع میں صائب خیالات کا اظہار کیا ہے تاہم ان کی طرز حکمرانی پر ناقدین کی جانب سے کئی سوال بھی اٹھائے جاتے ہیں جن میں ممتاز تجزیہ کار، کالم نویس اور ماہرین قانون شامل ہیں لیکن قانون کی حکمرانی، جبری گمشدگی، کمزور جوابدہی سے بے نیاز سسٹم، حکومت اور ریاست و جمہوری عمل کے ثمرات کے موضوع پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی و بلاگر مدثر نارو کے بازیابی کیس میں اٹارنی جنرل اور ایمان مزاری سمیت دیگر وکلا سے اس نکتے پر معاونت طلب کرلی ہے کہ کیوں نہ لاپتہ افراد کی ذمے داری چیف ایگزیکٹیوز پر عائد کرکے ان کے خلاف آرٹیکل 6 کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ دیا جائے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں کا کمیشن آئین کے خلاف بنا ہے۔ جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہے، دہشت گرد کو بھی ماورائے عدالت نہیں مار سکتے کیونکہ کون طے کرسکتا ہے کہ فلاں دہشت گرد ہے یا نہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مدثر نارو بازیابی کیس سماعت کی تو اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ایسا نہیں کہ لاپتہ افراد کا معاملہ موجودہ حکومت کے دور میں شروع ہوا، یہ معاملہ موجودہ حکومت کو وراثت میں ملا ہے۔

وزیر اعظم نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں، حکومت اس معاملے کو بہت سنجیدہ لے رہی ہے وزیر اعظم جب بلاگر کی فیملی سے ملے تو انھوں نے بہت شرمندگی کا اظہار کیا، اگر وہ حکومت پر تنقید کرتا تھا تو پھر بھی یہ کوئی جرم نہیں، ہم کوشش کررہے ہیں، عدالت عالیہ نے بلاشبہ قانون کی حکمرانی کا وہی سوال دہرایا ہے جس پر وزیر اعظم نے منگل کو حکومت کی آئینی و قانونی اساس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے نہایت کلیدی اور بنیادی سوالات اٹھائے ہیں، ان سوالات کو حکومت، سویلین سسٹم اور حکومتوں نے در خور اعتنا نہیں سمجھا، بظاہر، ملک اور نظام کو وزیر اعظم لے کر چلتے ہیں، کوئی مسئلہ پیش آیا تو عدلیہ سے رجوع کر لیا لیکن عدلیہ نے ملکی سیاسی نظام اور وزیر اعظم سے جواب طلب کیا ہے، عدلیہ نے سسٹم اور حکومت پر ایک ذمے دار حکمرانی کی ضرورت کی روشنی میں انگلی رکھی ہے۔

عدالت نے چیف ایگزیکٹو سے جو چشم کشا استفسارات کیے ہیں ان میں سسٹم، حکومتی مشینری، وزرائے اعلیٰ، انتظامی افسران، ادارے، ملکی جمہوری ادارے، پارلیمنٹ کی بالادستی، قومی سلامتی کے ادارے، قانون سازی و پالیسیاں اور خارجہ پالیسی نمایاں ہیں۔

یہ عجب اتفاق ہے کہ ذرایع ابلاغ نے حکومت کے اقدامات، وزیر اعظم کی تقاریر، خطابات اور فیصلوں پر نکتہ چینی کی ہے اور حکومتی معاملات اور حکمت عملی پر بے یقینی اور مایوسی کا اظہار کیا ہے، ملک کے فہمیدہ عناصر کی اجتماعی رائے بھی طرز حکمرانی پر مختلف الخیال ہے۔


چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہاں کوئی احتساب نہیں ہے، ایک کمیشن بنا ہے فیملیز جاتی ہیں وہ تاریخ دے دیتے ہیں، یہاں ہزاروں لاپتہ افراد کی فیملیز ہیں ان کو سنبھالنے والا کوئی نہیں، یہاں کوئی ریاست کے اندر ریاست نہیں بنا سکتا، یہاں ایک آئین ہے قانون ہے، آج تک اس قسم کے کیسز میں کوئی تحقیقات نہیں ہو سکیں، اب یہ معاملہ ختم ہونا چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے کا ایک بیک گراؤنڈ ہے کہ اسی ملک میں خودکش دھماکے ہوتے تھے، بہت سارے کیسز ہیں جن میں سیکڑوں پاکستانیوں نے جہاد کے نام پر بارڈر کراس کیا اور افغانستان گئے، اب وقت آگیا ہے کہ اس کو روکا جائے، ریاست کے اندر ریاست قائم نہیں کی جاسکتی، المیہ یہ ہے کہ ہم نے جغرافیائی حالات اور قومی سلامتی کا معاملہ بھی دیکھنا ہے، چیف جسٹس نے کہا عدالت کا کام نہیں ہے کہ لوگوں کو ڈھونڈے، نا ہی ڈھونڈ سکتی ہے۔ وزیر انسانی حقوق نے کہا کہ قانون بنارہے ہیں، قانون کی تو ضرورت ہی نہیں۔

عدالت کہہ سکتی ہے کہ شہری جس دور میں لاپتہ ہوئے اس وقت کے چیف ایگزیکٹیو کے خلاف آرٹیکل6 کے تحت کارروائی کریں۔ ایک ہال آف شیم بناکر تمام چیف ایگزیکٹیوز کی تصاویر وہاں لگا دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا صرف چیف ایگزیکٹیوز کی تصاویر ہی کیوں لگائی جائیں؟ کچھ بیماریوں کا علاج عدالتی فیصلوں سے نہیں، عوام کے پاس ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا عدالت توقع کررہی تھی کہ وفاقی کابینہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے گی۔ اگر ریاست ہوتی اور ایگزیکٹیو اپنا کردار ادا کرتی تو یہ بچہ یہاں نا آتا، ریاست کی ذمے داری ہے کہ جو بھی یہ کر رہے ہیں ان کو ذمے دار ٹھہرایا جائے، یہاں اسلام آباد سے ایک آدمی کو اٹھایا گیا اس نے بعد میں کہا میں شمالی علاقہ جات سیر کے لیے گیا تھا، آپ عدالت کی معاونت کریں یہ تاثر ہے کہ یہ ریاست کی پالیسی ہے، عدالت اس کو نہیں مانتی کہ ریاست کے اندر ریاست ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ میڈیا آزاد ہے یا نہیں؟ ورنہ مسنگ پرسنز کی تصاویر صفحہ اوّل پر ہوں ۔ یا تو چیف ایگزیکٹیو ذمے داری لیں، یا پھر ان کو ذمے دار ٹھہرائیں جو ان کے تابع ہیں۔

یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ ریاست کا ردعمل کیا ہوتا ہے، ردعمل واضح اور نظر آنا چاہیے کہ لوگوں کو لاپتہ کرنا ریاستی پالیسی نہیں ۔ عدالت نے کیس کی سماعت 18جنوری تک ملتوی کردی۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ دس لاکھ افراد سڑکوں پر آجائیں، گمشدگی کا مسئلہ حل ہو جائے گا، ایران میں یہی کیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ آج عدالتیں ایسے حقائق اور سنگین مسئلوں سے قوم کو آگاہ کر رہی ہیں جن سے عوام لا علم رکھے گئے، آجکل وزیر اعظم روز تقریریں کرتے ہیں، نئے انکشافات کرتے ہیں، ان کا تین سال سے احتساب اور کرپشن کے خاتمہ کے لیے ایک ہی انداز نظر ہے، لیکن وہ اپنی تقاریر کے عملی اطلاق اور ان پر عمل درآمد کی پابندی سے بے نیاز ہیں۔

شاید معزز اور قابل احترام عدلیہ نے یہی بات نوٹ کی ہے کہ آئینی اور قانونی طور پر چیف ایگزیکٹیو پر بھاری ذمے داریاں ہیں، پوری نوکر شاہی ان کے احکامات کی تابع ہے، وزیر اعظم امیری اور غریبی کے مسئلہ پر معاشی سمت سازی پر ہدایات اور تقاریر کرتے ہیں، وہ جس قانون کی ضرورت محسوس کرتے ہیں وہ آرڈیننس منظور ہو جاتا ہے، انھوں نے چیئرمین نیب کی تبدیلی روکنا چاہی، اس کا قانون فوری منظور ہوا، یوں بطور چیف ایگزیکٹیو انھوں نے آئینی اور قانونی تقاضے پورے کیے، اسی طرح انھیں چینی اور گندم مافیا کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کمٹمنٹ بھی پوری کرنی چاہیے تھی، یا اگر لوگ ٹیکس نہیں دیتے تو اس کی شکایت کرنے کا کیا فائدہ، کارروائی کرنے کا اختیار تو چیف ایگزیکٹیو کا ہے۔

پورے ٹیکس سسٹم کو بدلنے میں کون رکاوٹ بن سکتا ہے، سانحہ اے پی ایس کی رپورٹ عدالت کے پاس آنی ہے، وہ ابھی وزیر اعظم کی منتظر ہے، اسی طرح سانحہ سیالکوٹ کی تحقیقات میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں، مشیر خزانہ کو سینیٹر بنانے میں آپ با اختیار ہیں، آئینی ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ آئین و قانون کے تحت سارے اقدامات اور فیصلوں کے راستے چیف ایگزیکٹیو تک جاتے ہیں، سسٹم کو چلانا اور جمہوری عمل کو نتیجہ خیز بنانے میں وزیر اعظم سے زیادہ فری ہینڈ کسی کے پاس نہیں۔

سوال یہ ہے کہ سسٹم بے یار و مددگار کیوں ہے، کوئی تبدیلی کیوں نہیں آتی، جمہوریت عوام کے لیے بے سود اور بے فائدہ کیوں بن گئی ہے؟ عدلیہ نے اس کے بارے میں وقت کے سب سے اہم سوالات رکھ دیے ہیں۔ آخر میں اس شعر پر گفتگو ختم ہوتی ہے:

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
Load Next Story