ہائبرڈ جمہوریت
چین اورامریکا کو بلانے کا دفاع کرتے اور پاکستان میں جمہوریت کومستحکم کرنے کے اپنے کارنامے بیان کرتے توزیادہ اچھا ہوتا۔
RAWALPINDI:
امریکا کے صدر جوبائیڈن نے جمہوری نظام میں آنے والی رکاوٹوں پر غور کرنے کے لیے 100کے قریب ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس برپا کی ہے۔ اس کانفرنس میں پاکستان نے شرکت سے معذرت کرلی ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے اخباری نمایندوں کے حوالے ایک تحریری بیان کیا۔ اس بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک فعال جمہوریت ہے۔ پاکستان میں آزاد عدلیہ ہے، متحرک سوسائٹی اور آزاد میڈیا ہے۔ ہم جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان نے اہداف کو بڑھانے کے لیے اصلاحات کا آغاز کیا ہے۔ ہم امریکا کے ساتھ اپنی شراکت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
امریکا نے اس کانفرنس میں چین اور ترکی کو مدعو نہیں کیا جہاں ایک جماعتی آمریت ہے اور تائیوان جہاں امریکا کے فوجی اڈے ہیں کے سربراہ کو کانفرنس میں بلایا گیا ہے۔ امریکا کے تھنک ٹینک نے پاکستان کو دی جانے والی دعوت کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو یہ دعوت نامہ اسٹرٹیجک وجوہات کی بناء پر دی گئی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد کسی بلاک کا حصہ بننا نہیں چاہتا۔ اس بناء پر پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔
پاکستان دنیا کے چند ممالک میں شامل ہے جو ووٹ کے ذریعہ قائم ہوا۔ اس ملک کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے جمہوریت، آزادئ اظہار، آزادئ صحافت، خواتین اور مزدوروں کے حقوق کی پاسداری سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا مگر ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد سے جس دن سے یہ ملک وجود میں ہے جمہوریت خطرہ میں رہی ہے۔
پاکستان کی عمر 74 سال ہے جس میں سے آدھی مدت فوج کا راج رہا اور فوجی حکمراں اپنے مطلق العنان نظام حکومت کو جمہوریت کی اعلیٰ مثال قرار دیتے رہے۔ فوجی حکومتوں کے طویل اقتدار اور عوام کے منتخب نمایندو ں کو اقتدار منتقل نہ ہونے کی بناء پر ملک کا اکثریت صوبہ ایک نئے ملک بنگلہ دیش میں تبدیل ہوا۔ اس ملک کے ساتھ ایک سانحہ اور ہوا کہ بنگلہ دیش بننے کی حقیقی وجوہات پر کبھی بحث نہیں ہوئی اور سرنڈر کا فیصلہ کرنے کے ذمے دار وں کو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔
اس ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کیاگیا۔ ایک اور وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کو پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان نے ایبڈو کے تحت جیل بھیج دیا اور سیاست سے نااہل قرار دیا۔ دوسرے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ ایک اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو دہشت گردی کے ذریعہ شہید کیا گیا۔ دو وزراء اعظم عدالتوں سے نااہل قرار پائیجن میں سے ایک کو تاحیات نااہلی کی سزا سنائی گئی، صرف تین منتخب حکومتیں اپنی اپنی مدت پور ی کرسکیں اور سوائے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے کوئی وزیر اعظم اپنے عہدہ کی معیاد پوری نہ کرسکا۔
گزشتہ ماہ لاہور میں جمہوریت کے استحکام کے لیے جدوجہد کرنے والی انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس میں ججوں، وکلاء، صحافیوں ، مختلف شعبوں کے ماہرین اور سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں جمہوریت کو درپیش مسائل پر غور و خوص ہوا۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینئر وکیل علی احمد کرد جن کی زندگی جمہوریت کے استحکام ، عدلیہ کی آزادی اور صوبوں کے حقوق کے لیے جدوجہد میں گزری ہے اور نوجوانی کا ایک دور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گزرا ہے، انھوں نے پاکستان میں جمہوریت کو درپیش مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی ریاست اس ریت کی بوری کی طرح ہے جس سے ریت نکل رہی ہے ۔
ایک جنرل آتا ہے، سارے نظام کو تہس نہس کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی انڈیکس کے مطابق پاکستان کی عدلیہ کا 124واں نمبر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہور ی ریاست میں پارلیمنٹ کی ریاست پر بالادستی ہوتی ہے مگر حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں پارلیمنٹ کی ریاست پر بالادستی نہیں ہے۔
1988 سے ملک میں انتخابا ت ہورہے ہیں اور اب تک 8کے قریب انتخابات ہوچکے ہیں مگر ہر انتخاب سے پہلے طالع آزما قوتیں انتخابی نتائج کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایکشن پلان بناتی ہیں۔ جب 1988کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریتی ووٹ حاصل کرلیے تو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سول اور عسکری بیوروکریسی کے نمایندہ تھے نے بے نظیر بھٹو کو اس وقت تک حکومت بنانے کے لیے مدعو نہیں کیا جب تک وہ جنرل اسلم بیگ کو مطمئن نہ کرسکیں اور میاں نواز شریف نے پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
پہلی بار خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی۔ سعودی منحرف اسامہ بن لادن نے اراکین قومی اسمبلی کی خریداری کے لیے خطیر رقم فراہم کی مگر اب تک ان پردہ نشینوں کے نام ظاہر نہیں ہوئے جنھوں نے یہ سارا عمل منظم کیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کے مہرے غلام اسحاق خان نے 18 ماہ بعد آئین کی شق 8 کے تحت منتخب حکومتوں کو برطرف کیا۔ اس وقت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی قیادت میں فل بنچ نے صدر غلام اسحاق خان کے اس فیصلے کی توثیق کردی۔
اسی طرح 50ء کی دہائی میں جب گورنر جنرل غلام محمد نے بنگالی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو بر طرف کیا تھا اور آئین ساز اسمبلی کو توڑا تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس منیر نے اس فیصلے کو بھی درست قرار دیا۔ انتخابات ہوئے اور متضاد نظریات رکھنے والی مخالف سیاسی جماعتیں آئی جے آئی (اسلامی جمہوری اتحاد) میں شامل ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ تحریک استقلال کے سربراہ پاکستانی فضائیہ کے پہلے کمانڈر انچیف ایئر مارشل اصغر خان تھے ، پہلے مہران بینک اسکینڈل ہوا۔ اصغر خان پر سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ آئی جے آئی کو بنانے کے لیے رقوم فراہم کی گئیں۔
جنرل حمید گل اور بریگیڈیئر امتیاز بلا نے بعد میں انکشاف کیا کہ ان دونوں نے آئی جے آئی کو بنانے میں کردار ادا کیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ غلام اسحاق خان اور اسلم بیگ کی ہدایت پر مخالف سیاستدانوں میں خطیر رقوم تقسیم کی گئی تھیں۔ یہ رقوم مہران بینک کے یونس حبیب نے فراہم کیں۔ برسوں بعد جسٹس افتخار چوہدری نے اس مقدمہ کا فیصلہ کیا۔ ایف آئی اے کو ان افسروں سے تحقیقات کے لیے کہا گیا جو رقم فراہم کرنے کے ذمے دار تھے اور آج تک ایف آئی اے ان افسروں کا پتہ نہیں چلا سکی۔
بریگیڈیئر امتیاز نے اپنے فیصلہ کا ایک انٹرویو میں یہ جواز فراہم کیا تھا کہ پیپلز پارٹی بائیں بازو کی جماعت ہے اور آئی جے آئی میں دائیں بازو کی جماعتوں کو جمع کیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے 2018 میں انتخابات کے لیے آئی ٹی ٹیکنالوجی کو استعمال کیا۔ پولنگ اسٹیشنوں میں کلوز ڈورکیمرے لگے اور RTSکا نظام قائم ہوا مگر نامعلوم افراد کی مداخلت پر یہ نظام معطل ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان 2018 سے اس مسئلہ پر مسلسل خاموش تھے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں مسلم لیگ ق کے بااثر افراد نے تحریک انصاف میں ہجرت کی۔
مسلم لیگ ق کے صدر پرویز الٰہی نے ایک ایجنسی کی مشہور شخصیت کو اس صورتحال کا ذمے دار قرار دیا مگر تحریک انصاف والے کوئی جواب نہ دے سکے۔ عدلیہ پر دباؤ کے بہت سے واقعات تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ میڈیا پر پابندیوں پر اب تو بہت سی کتابیں شایع ہوگئی ہیں۔ اب بھی میڈیا بحران کاشکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی ماہرین موجودہ حکومت کو سلیکٹڈ اور Hybrid نظام قرار دیتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کے رفقاء جنرل ایوب خان ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی طرح اس نظا م کو حقیقی جمہوریت قرار دیتے ہیں مگر حقائق تو چھپ نہیں سکتے۔ عمران خان یورپ اور امریکا میں ہونے والی کانفرنسوں میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر جانے کو تیار نہیں ہیں اس کی بناء پر عالمی منظرنامہ پر مزید غلط فہمیاں پیدا ہوںگی ، اگر وہ اس کانفرنس میں چلے جاتے ، چین اور امریکا کو بلانے کا دفاع کرتے اور پاکستان میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کے اپنے کارنامے بیان کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔
امریکا کے صدر جوبائیڈن نے جمہوری نظام میں آنے والی رکاوٹوں پر غور کرنے کے لیے 100کے قریب ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس برپا کی ہے۔ اس کانفرنس میں پاکستان نے شرکت سے معذرت کرلی ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے اخباری نمایندوں کے حوالے ایک تحریری بیان کیا۔ اس بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک فعال جمہوریت ہے۔ پاکستان میں آزاد عدلیہ ہے، متحرک سوسائٹی اور آزاد میڈیا ہے۔ ہم جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان نے اہداف کو بڑھانے کے لیے اصلاحات کا آغاز کیا ہے۔ ہم امریکا کے ساتھ اپنی شراکت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
امریکا نے اس کانفرنس میں چین اور ترکی کو مدعو نہیں کیا جہاں ایک جماعتی آمریت ہے اور تائیوان جہاں امریکا کے فوجی اڈے ہیں کے سربراہ کو کانفرنس میں بلایا گیا ہے۔ امریکا کے تھنک ٹینک نے پاکستان کو دی جانے والی دعوت کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو یہ دعوت نامہ اسٹرٹیجک وجوہات کی بناء پر دی گئی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد کسی بلاک کا حصہ بننا نہیں چاہتا۔ اس بناء پر پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔
پاکستان دنیا کے چند ممالک میں شامل ہے جو ووٹ کے ذریعہ قائم ہوا۔ اس ملک کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے جمہوریت، آزادئ اظہار، آزادئ صحافت، خواتین اور مزدوروں کے حقوق کی پاسداری سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا مگر ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد سے جس دن سے یہ ملک وجود میں ہے جمہوریت خطرہ میں رہی ہے۔
پاکستان کی عمر 74 سال ہے جس میں سے آدھی مدت فوج کا راج رہا اور فوجی حکمراں اپنے مطلق العنان نظام حکومت کو جمہوریت کی اعلیٰ مثال قرار دیتے رہے۔ فوجی حکومتوں کے طویل اقتدار اور عوام کے منتخب نمایندو ں کو اقتدار منتقل نہ ہونے کی بناء پر ملک کا اکثریت صوبہ ایک نئے ملک بنگلہ دیش میں تبدیل ہوا۔ اس ملک کے ساتھ ایک سانحہ اور ہوا کہ بنگلہ دیش بننے کی حقیقی وجوہات پر کبھی بحث نہیں ہوئی اور سرنڈر کا فیصلہ کرنے کے ذمے دار وں کو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔
اس ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کیاگیا۔ ایک اور وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کو پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان نے ایبڈو کے تحت جیل بھیج دیا اور سیاست سے نااہل قرار دیا۔ دوسرے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ ایک اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو دہشت گردی کے ذریعہ شہید کیا گیا۔ دو وزراء اعظم عدالتوں سے نااہل قرار پائیجن میں سے ایک کو تاحیات نااہلی کی سزا سنائی گئی، صرف تین منتخب حکومتیں اپنی اپنی مدت پور ی کرسکیں اور سوائے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے کوئی وزیر اعظم اپنے عہدہ کی معیاد پوری نہ کرسکا۔
گزشتہ ماہ لاہور میں جمہوریت کے استحکام کے لیے جدوجہد کرنے والی انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس میں ججوں، وکلاء، صحافیوں ، مختلف شعبوں کے ماہرین اور سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں جمہوریت کو درپیش مسائل پر غور و خوص ہوا۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینئر وکیل علی احمد کرد جن کی زندگی جمہوریت کے استحکام ، عدلیہ کی آزادی اور صوبوں کے حقوق کے لیے جدوجہد میں گزری ہے اور نوجوانی کا ایک دور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گزرا ہے، انھوں نے پاکستان میں جمہوریت کو درپیش مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی ریاست اس ریت کی بوری کی طرح ہے جس سے ریت نکل رہی ہے ۔
ایک جنرل آتا ہے، سارے نظام کو تہس نہس کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی انڈیکس کے مطابق پاکستان کی عدلیہ کا 124واں نمبر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہور ی ریاست میں پارلیمنٹ کی ریاست پر بالادستی ہوتی ہے مگر حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں پارلیمنٹ کی ریاست پر بالادستی نہیں ہے۔
1988 سے ملک میں انتخابا ت ہورہے ہیں اور اب تک 8کے قریب انتخابات ہوچکے ہیں مگر ہر انتخاب سے پہلے طالع آزما قوتیں انتخابی نتائج کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایکشن پلان بناتی ہیں۔ جب 1988کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریتی ووٹ حاصل کرلیے تو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سول اور عسکری بیوروکریسی کے نمایندہ تھے نے بے نظیر بھٹو کو اس وقت تک حکومت بنانے کے لیے مدعو نہیں کیا جب تک وہ جنرل اسلم بیگ کو مطمئن نہ کرسکیں اور میاں نواز شریف نے پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
پہلی بار خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی۔ سعودی منحرف اسامہ بن لادن نے اراکین قومی اسمبلی کی خریداری کے لیے خطیر رقم فراہم کی مگر اب تک ان پردہ نشینوں کے نام ظاہر نہیں ہوئے جنھوں نے یہ سارا عمل منظم کیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کے مہرے غلام اسحاق خان نے 18 ماہ بعد آئین کی شق 8 کے تحت منتخب حکومتوں کو برطرف کیا۔ اس وقت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی قیادت میں فل بنچ نے صدر غلام اسحاق خان کے اس فیصلے کی توثیق کردی۔
اسی طرح 50ء کی دہائی میں جب گورنر جنرل غلام محمد نے بنگالی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو بر طرف کیا تھا اور آئین ساز اسمبلی کو توڑا تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس منیر نے اس فیصلے کو بھی درست قرار دیا۔ انتخابات ہوئے اور متضاد نظریات رکھنے والی مخالف سیاسی جماعتیں آئی جے آئی (اسلامی جمہوری اتحاد) میں شامل ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ تحریک استقلال کے سربراہ پاکستانی فضائیہ کے پہلے کمانڈر انچیف ایئر مارشل اصغر خان تھے ، پہلے مہران بینک اسکینڈل ہوا۔ اصغر خان پر سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ آئی جے آئی کو بنانے کے لیے رقوم فراہم کی گئیں۔
جنرل حمید گل اور بریگیڈیئر امتیاز بلا نے بعد میں انکشاف کیا کہ ان دونوں نے آئی جے آئی کو بنانے میں کردار ادا کیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ غلام اسحاق خان اور اسلم بیگ کی ہدایت پر مخالف سیاستدانوں میں خطیر رقوم تقسیم کی گئی تھیں۔ یہ رقوم مہران بینک کے یونس حبیب نے فراہم کیں۔ برسوں بعد جسٹس افتخار چوہدری نے اس مقدمہ کا فیصلہ کیا۔ ایف آئی اے کو ان افسروں سے تحقیقات کے لیے کہا گیا جو رقم فراہم کرنے کے ذمے دار تھے اور آج تک ایف آئی اے ان افسروں کا پتہ نہیں چلا سکی۔
بریگیڈیئر امتیاز نے اپنے فیصلہ کا ایک انٹرویو میں یہ جواز فراہم کیا تھا کہ پیپلز پارٹی بائیں بازو کی جماعت ہے اور آئی جے آئی میں دائیں بازو کی جماعتوں کو جمع کیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے 2018 میں انتخابات کے لیے آئی ٹی ٹیکنالوجی کو استعمال کیا۔ پولنگ اسٹیشنوں میں کلوز ڈورکیمرے لگے اور RTSکا نظام قائم ہوا مگر نامعلوم افراد کی مداخلت پر یہ نظام معطل ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان 2018 سے اس مسئلہ پر مسلسل خاموش تھے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں مسلم لیگ ق کے بااثر افراد نے تحریک انصاف میں ہجرت کی۔
مسلم لیگ ق کے صدر پرویز الٰہی نے ایک ایجنسی کی مشہور شخصیت کو اس صورتحال کا ذمے دار قرار دیا مگر تحریک انصاف والے کوئی جواب نہ دے سکے۔ عدلیہ پر دباؤ کے بہت سے واقعات تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ میڈیا پر پابندیوں پر اب تو بہت سی کتابیں شایع ہوگئی ہیں۔ اب بھی میڈیا بحران کاشکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی ماہرین موجودہ حکومت کو سلیکٹڈ اور Hybrid نظام قرار دیتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کے رفقاء جنرل ایوب خان ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی طرح اس نظا م کو حقیقی جمہوریت قرار دیتے ہیں مگر حقائق تو چھپ نہیں سکتے۔ عمران خان یورپ اور امریکا میں ہونے والی کانفرنسوں میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر جانے کو تیار نہیں ہیں اس کی بناء پر عالمی منظرنامہ پر مزید غلط فہمیاں پیدا ہوںگی ، اگر وہ اس کانفرنس میں چلے جاتے ، چین اور امریکا کو بلانے کا دفاع کرتے اور پاکستان میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کے اپنے کارنامے بیان کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔