ملک بھر کی نجی یونیورسٹیز کے غیر قانونی کیمپس بند کرنے کا حکم
ایچ ای سی غیر قانونی کیمپس سے پاس آؤٹ طلباء کو مخصوص طریقے سے ڈگریاں فراہم کرے، سپریم کورٹ
LONDON:
سپریم کورٹ نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ملک بھر کی پرائیویٹ یونیورسٹیز کے غیر قانونی کیمپس بند کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ ایچ ای سی غیر قانونی کیمپس سے پاس آؤٹ ہونے والے طلباء کو مخصوص طریقے سے ڈگریاں فراہم کرے، ملک بھر میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی یکساں پالیسیز پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، نوجوان نسل کو اعلی تعلیم کی فراہمی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔
عدالت نے کہا کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے مکمل تعاون کریں، عدالت کے سامنے سوال تھا کہ کیا پرائیویٹ یونیورسٹیاں اپنی حدود سے باہر ذیلی کیمپس قائم کر سکتی ہیں یا نہیں، ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے واضح کر دیا کہ یونیورسٹیوں کو اپنی حدود سے باہر کیمپس قائم کرنے کی اجازت نہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایچ ای سی نے کئی بار پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو غیر قانونی کیمپس کے قیام پر الرٹ جاری کیے، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا موقف ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کا غیر قانونی سرگرمیوں کو ختم کرانے میں تعاون ناگزیر ہے، وفاق اور صوبائی حکومتوں نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا۔
طلباء کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے نیب کو نجی یونیورسٹیوں کےخلاف کارروائی کا حکم دیا تھا، طلباء لاہور ہائیکورٹ اپنی ڈگریوں کے لیے گئے تھے، ہائیکورٹ نے نجی یونیورسٹیوں کے کیمپسز کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے پاس اختیارات ہیں، نیب کو معاملے کی تحقیقات کرنے کی ضرورت نہیں، اگر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کمزور ہے تو وفاق کو حکم دیں گے قوانین میں ترمیم کرے، لاہور ہائیکورٹ نے درست اور حقائق پر مبنی فیصلہ دیا۔
واضح رہے کہ پریسٹن اور الخیر یونیورسٹی نے لاہور اور کراچی میں غیر قانونی کیمپس قائم کیے تھے۔ طلباء نے ایچ ای سی کی جانب سے غیر قانونی کیمپسز سے ڈگریاں جاری نا کرنے پر عدالت سے رجوع کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ملک بھر کی پرائیویٹ یونیورسٹیز کے غیر قانونی کیمپس بند کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ ایچ ای سی غیر قانونی کیمپس سے پاس آؤٹ ہونے والے طلباء کو مخصوص طریقے سے ڈگریاں فراہم کرے، ملک بھر میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی یکساں پالیسیز پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، نوجوان نسل کو اعلی تعلیم کی فراہمی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔
عدالت نے کہا کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے مکمل تعاون کریں، عدالت کے سامنے سوال تھا کہ کیا پرائیویٹ یونیورسٹیاں اپنی حدود سے باہر ذیلی کیمپس قائم کر سکتی ہیں یا نہیں، ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے واضح کر دیا کہ یونیورسٹیوں کو اپنی حدود سے باہر کیمپس قائم کرنے کی اجازت نہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایچ ای سی نے کئی بار پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو غیر قانونی کیمپس کے قیام پر الرٹ جاری کیے، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا موقف ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کا غیر قانونی سرگرمیوں کو ختم کرانے میں تعاون ناگزیر ہے، وفاق اور صوبائی حکومتوں نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا۔
طلباء کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے نیب کو نجی یونیورسٹیوں کےخلاف کارروائی کا حکم دیا تھا، طلباء لاہور ہائیکورٹ اپنی ڈگریوں کے لیے گئے تھے، ہائیکورٹ نے نجی یونیورسٹیوں کے کیمپسز کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے پاس اختیارات ہیں، نیب کو معاملے کی تحقیقات کرنے کی ضرورت نہیں، اگر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کمزور ہے تو وفاق کو حکم دیں گے قوانین میں ترمیم کرے، لاہور ہائیکورٹ نے درست اور حقائق پر مبنی فیصلہ دیا۔
واضح رہے کہ پریسٹن اور الخیر یونیورسٹی نے لاہور اور کراچی میں غیر قانونی کیمپس قائم کیے تھے۔ طلباء نے ایچ ای سی کی جانب سے غیر قانونی کیمپسز سے ڈگریاں جاری نا کرنے پر عدالت سے رجوع کیا تھا۔